غذائی تحفظ اور اسمگلنگ

کاشف علی
غذائی تحفظ اور صحت بخش غذا کا ایک دوسرے سے قریبی تعلق ہے۔ جس طرح صحت بخش غذا اچھی صحت کیلئے ایک اہم عنصر ہے اسی طرح غذائی تحفظ کے مسائل بھی فرد کی مجموعی صحت اور طرز زندگی کیلئے اہمیت رکھتے ہیں۔ مختصراً ہم کیا کھاتے ہیں، چباتے ہیں یا پیتے ہیں، وہ انسانی صحت کیلئے محفوظ ہے۔ یہاں بات ہورہی ہے غذائی اجزا کا انتظام ، تیاری اور سٹوریج اس انداز میں کی جائے کہ جس سے لوگوں کو خوراک سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بیمار ہونے کا خطرہ کم ہو کیونکہ نباتاتی، کیمیائی اور جسمانی آلودگی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں دس میں ایک شخص آلودہ کھانے سے بیماری کا شکار ہوتا ہے جبکہ آلودہ خوراک کا استعمال ہر سال چار لاکھ بیس ہزار لوگوں کی موت کا باعث بنتا ہے۔ خوراک سے پیدا ہونے والی بیماریاں ترقی پذیر ممالک کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان میں غذائی تحفظ کا پہلا قانون 1963ء میں بنایا گیا اور گزشتہ برسوں میں پالیسی سازوں نے ملک میں غذائی تحفظ سے متعلق پاکستان کے واضح معیارات طے کئے ہیں جبکہ وفاقی اور صوبائی ریگولیٹرز ان معیارات پر عمل درآمد کیلئے اپنی ہر ممکن کوشش رہے ہیں۔ تاہم عرصہ دراز سے ملک میں چوری چھپے فوڈ پروڈکٹس میں نقصان دہ اجزا شامل کرکے پیکجڈ فوڈ کی ممنوع ملاوٹ کی جارہی ہے اور صارفین کی صحت سے کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ ملکی معیارات بھی پیکجڈ فوڈ کی مصنوعات میں مخصوص فوڈ کلر یا اجزاء کو شامل کرنے اور اس طرح کے اجزاء پر مشتمل فوڈز کی فروخت سے منع کرتے ہیں۔ ایسے موزوں قوانین کی موجودگی، ریگولیٹرز کی طرف سے ان قوانین پر عمل درآمد اور ایک باضابطہ دستاویزی فوڈ سیکٹر کے باوجود یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ غذائی تحفظ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوگا لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔
پاکستان میں خوراک کی غیر دستاویزی تجارت بڑھتی جارہی ہے جس کا خمیازہ دستاویزی شعبہ کو بھگتنا پڑتا ہے۔ خوراک کی اسمگلنگ نہ صرف ملک کی پہلے سے مشکل کا شکار معیشت کیلئے نقصان دہ ہے بلکہ اس سے صحت کے حوالے سے سنگین مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ کوکنگ آئلز اور مصالہ جات، ڈیری پروڈکٹس جیسا کہ مکھن،بالائی ان مصنوعات میں شامل ہیں جن کی اسمگلنگ عام ہے۔ ایرانی اور افغانی فوڈ پروڈکٹس کی حالیہ بھر مار جو غیر قانونی تجارت کے ذریعے ملک میں فروخت کی جارہی ہیں، چونکہ عوام پہلے سے مہنگائی کا شکار ہیں، انہیں یہ مصنوعات انتہائی سستی معلوم پڑتی ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان فوڈ آئٹمز کے معیاری اور محفوظ ہونے سے متعلق کوئی قواعد و ضوابط موجود نہیں ہے۔
چند سال قبل وزارت تجارت نے قانونی ریگولیٹری حکم نامہ 237جاری کیا جس میں یہ واضح درج ہے کہ درآمدی پیکجڈ فوڈ مصنوعات کے استعمال کی مدت درآمد کے وقت 66فیصد باقی ہو۔ غذائی اجزا انگریزی اور ارد و دونوں زبانوں میں درج ہوں اور حلال سرٹیفکیٹ کا لوگو لگا ہوا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایس آر او 237میں طے کردہ معیارات پر پورا نہ اترنے والے خوراک کی اشیاء تفتان کے ذریعے اسمگل کی جارہی ہیں اور سرحد کے قریب بلوچستان کی مارکیٹوں میں دھڑا دھڑ فروخت ہورہی ہیں۔یہ یہاں تک کہ شہری مراکز میں ہول سیلرز اور اعلیٰ درجے کے ریٹیلرز تک بھی پہنچ رہی ہے۔
پیکجنگ پر استعمال کی مدت کی غلط تاریخیں تشویش ناک صورتحال ہے جن کی تصدیق کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔غیر ملکی زبان میں غذائی اجزا کی معلومات کی لیبلنگ ایک اور رکاوٹ ہے جو بظاہر نقصان دہ نظر نہیں آتی لیکن ان سے صحت کے مہلک مسائل پیدا ہوسکتے ہیں جن میں طویل الرجیز شامل ہے۔ ایسے فوڈ کیمیکل کا استعمال فوڈ پوائزنگ جیسی بیماریوں کا باعث بن سکتے ہیں جن کی اجازت نہیں ہے۔ نقصان دہ غذائی اجزاء کے استعمال کے اثرات میں دل کی دھڑکن کا بے ترتیب ہونا، چھپاکی ( خارش)، پیٹ میں درد، اسہال اور قے شامل ہو سکتے ہیں۔
غذائی تحفظ کے حوالے سے خوف کی ایسی صورتحال دنیا بھر میں عام ہیں۔ کئی ممالک میں درآمد شدہ چاول کی کھیپ میں پہلے بھی کیڑے مار ادویات کے ذرات پائے گئے ہیں ۔نتیجتاًچاول کی درآمد پر عارضی پابندیاں اور سخت قواعد لاگو کیے گئے۔ یہی صورتحال کئی ممنوعہ رنگوں اور خوراک میں رنگ شامل کرنے والے اجزاء کے لیے بھی ہے۔ 2018 ء میں آسٹریلیا کے کینٹالوپس میں لسٹیریا کی موجودگی سے متاثرہ ممالک میں لسٹریوسس کی وبا پھیلی جس کے باعث ان کی واپسی کا حکم دیا گیا۔تاہم پاکستان میں 2019ء میں ایس آر او 237کے اجرا کے بعد اسمگل شدہ فوڈ مصنوعات کی روک تھام کی صورتحال نمایاں طورپر بہتر ہورہی تھی لیکن گزشتہ چند ماہ کے دوران اسمگل شدہ فوڈ اشیاء ایک بار پھر مارکیٹ میں نظر شروع ہوگئیں۔
غیر محفوظ سرحدیں اور غذائی قوانین کے عدم نفاذ کے باعث غیر قانونی تجارت میں اضافہ میں مدد ملی۔ اسٹیک ہولڈرز، پالیسی سازوں اور حکومت کو عوامی صحت کی خاطر سرحدوں سے ان مصنوعات کی غیر قانونی تجارت کے خاتمے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ صحت کے خطرات کے علاوہ ان غیر قانونی طریقوں کے باعث ہونے والے بھاری مالی نقصانات بھی معیشت پر زبردست ضرب ہیں۔ پاکستان کو فوڈ اشیاء کی سمگلنگ کی وجہ سے 2.6ارب ڈالر کے ٹیکس ریونیو سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ سمگل شدہ خوراک کی قیمت تقریباً 9ارب ڈالر ہے جو ملکی جی ڈی پی کا تقریباً 3 فیصد بنتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سخت اقدامات کے نفاذ کیلئے یکساں قوانین بنانے چاہیں۔ پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی ، پاکستان کسٹمز اور وزارت تجارت کو گرے یا بلیک مارکیٹ کے خلاف سخت کریک ڈائون کرنے کے علاوہ عوام کی صحت کے تحفظ کیلئے سخت سرحدوں پر کنٹرول کو سخت کرنا چاہئی۔ صارفین کو بھی چاہیے کہ وہ مصنوعات کے معیار کے بارے میں جانیں اور سیکھیں اور ناقص معیار کی خوراک کے استعمال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سنگین نتائج سے آگاہ ہوں۔





