Column

اٹھنّی کی اوقات

تحریر: رفیع صحرائی
ہم سبھی کو اگر اعمال کے حساب سے ملنے لگے تو اکثر لوگ بھوک سے مر جائیں گے۔ ہم حقوق اللّٰہ پورے نہیں کر پاتے، عبادات میں سستی اور کاہلی کر جاتے ہیں۔ حقوق العباد کی پامالی کرتے ہوئے ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ اللّٰہ کے ہاں ان کی معافی کی گنجائش نہیں ہے مگر اللّٰہ سوہنا غفورالرحیم ہے۔ وہ رحمان ہے۔ وہ منہ یا اعمال کو دیکھ کر نہیں دیتا۔ اس کی عطائیں سب کے لیے ہیں اور بے بہا ہیں۔
آگے ان نعمتوں سے فیض یاب ہونے والے انسانوں کی بھی کئی اقسام ہیں۔ بہت سے تنگدستی میں ہر پل شکر گزار رہتے ہیں جبکہ اکثر تونگری میں بھی ناشکرے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کئی مفلسی میں شکوہ کناں ہیں تو بہت سے مالا مال ہونے پر اپنی دولت کا بڑا حصہ مخلوقِ خدا کی فلاح کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔
دولت اور ثروت کو ہضم کرنا بھی ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ اکثریت میں غرور اور تکبر آ جاتا ہے۔ کچھ کم ہمت ایسے بھی ہوتے ہیں کہ انہیں اگر اوقات سے زیادہ مل جائے تو ان کے ہاتھ پیر پھول جاتے ہیں۔ وہ اوقات سے زیادہ ملی عزت سنبھال پاتے ہیں نا ہی دولت۔
یہ واقعہ قریباً ستائیس سال پہلے مجھے ایک بزرگ دوست رانا اخلاق احمد نے سنایا تھا۔ آپ انہی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔
’’ یہ پاکستان بننے کے تھوڑے عرصے بعد کا واقعہ ہے۔ تب لاہور میں ڈبل ڈیکر بسیں چلا کرتی تھیں۔ میں اور میرا دوست بشیر بس کے ذریعے لاہور ریلوے سٹیشن سے بھاٹی گیٹ بس پر جا رہے تھے۔ ہم خوش گپیوں میں مصروف تھے اور ساتھ ساتھ آہستہ آواز میں بس کے مسافروں پر تبصرے بھی کرتے جا رہے تھے۔ بس لوہاری گیٹ پہنچی تو ہم سے آگے والی سیٹ سے ایک خوش پوش ادھیڑ عمر آدمی اٹھا اور بس سے نیچے اتر گیا۔ اس سٹاپ پر مزید تین چار سواریاں اتریں اور پانچ چھ لوگ سوار ہوئے، کنڈکٹر کے اشارے پر بس روانہ ہوئی ہی تھی کہ اترنے والے خوش پوش شخص کے ساتھ سیٹ پر بیٹھے ایک شخص نے چِلا کر بس رکوائی اور جلدی سے نیچے اترنے لگا۔ کنڈکٹر کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میرے ساتھ سیٹ پر بیٹھا شخص اپنا بیگ سیٹ پر ہی بھول گیا ہے۔ بیگ بھول کر جانے والا شخص ابھی زیادہ دور نہیں گیا تھا۔ اس شخص نے پیچھے بھاگتے ہوئے بیگ بھولنے والے شخص کو تین چار آوازیں دے کر روکا اور بیگ اس کے حوالے کر دیا۔
بس کی سواریاں بڑی دلچسپی سے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھیں۔ وہ خوش پوش شخص اپنا بیگ پا کر انتہائی خوش نظر آ رہا تھا۔ دونوں باتیں کرتے ہوئے بس کے قریب آ گئے۔ ان کی باتوں سے پتا چلا کہ بیگ میں پچیس ہزار روپے تھے۔ اور انار کلی میں ایک پارٹی کو ادائیگی کے لیے وہ شخص لے کر جا رہا تھا مگر بس سے اترتے وقت اپنی سوچوں میں اس قدر گم تھا کہ اسے بیگ اٹھانے کا خیال ہی نہ رہا۔ اس وقت پچیس ہزار بہت بڑی رقم تھی۔ آج کل کے حساب سے ان پچیس ہزار کی ویلیو پانچ کروڑ روپے کے برابر ہو گی۔ اس آدمی نے بیگ کھولا اور اس میں سے پانچ سو روپے نکال کر بیگ واپس کرنے والے شخص کو بطور شکرانہ پیش کیے۔ اس زمانے میں جبکہ گندم شاید ڈیڑھ روپے من ہو گی پانچ سو روپے اتنی بڑی رقم تھی کی اس رقم سے کوئی معقول کاروبار کیا جا سکتا تھا۔ بیگ واپس کرنے والے شخص نے وہ رقم لینے سے انکار کر دیا۔ بس کے چند مسافروں نے بھی رقم قبول کر لینے کو کہا مگر اس شخص نے سختی سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے بیگ انعام کے لالچ میں واپس نہیں کیا اگر پیسوں کا لالچ ہوتا تو بیگ واپس ہی کیوں کرتا۔
بیگ والے شخص نے پھر شکریہ ادا کیا۔ وہ آدمی دوبارہ اپنی سیٹ پر آ کر بیٹھ گیا اور بس چل پڑی۔ اب وہ شخص ہمارے سمیت تمام سواریوں کا ہیرو بن چکا تھا۔ سبھی اسے عقیدت اور ستائش بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ واقعی اس نے ایمانداری کی بہترین مثال قائم کی تھی۔
کنڈکٹر نے نئے آنے والے مسافروں سے کرایہ لینا شروع کر دیا۔ بس مسافروں سے بھری ہوئی تھی اور نئی آنے والی سواریوں کو بیٹھنے کی جگہ نہیں مل سکی تھی۔ ہماری سیٹ سے تھوڑا آگے بھی نیا سوار ہونے والا ایک مسافر کھڑا تھا۔ اس نے کنڈکٹر کو کرایہ دینے کے لیے سائیڈ والی جیب سے پیسے نکالے تو جیب میں موجود رومال کے ساتھ ہی اٹھنّی ( پچاس پیسے) کا ایک سِکّہ بھی جیب سے نکل کر زمین پر گر گیا۔ اس مسافر کو اپنا سکہ گرنے کا پتا نہ چلا۔ اس کے بعد ہماری آنکھوں نے ایسا منظر دیکھا جس نے ہمیں حیرت سے ششدر کر دیا۔ پچیس ہزار روپے سے بھرا ہوا بیگ واپس کرنے والے آدمی نے اپنی ٹانگ آگے بڑھائی اور پچاس پیسے کے گرے ہوئے اس سکے پر اپنا پائوں رکھ دیا۔ پھر اس نے ادھر ادھر دیکھا اور اپنے پائوں کو فرش پر گھسیٹ کر قریب کر لیا۔ وہ پیر کھجانے کے بہانے جھکا اور سکہ اٹھا کر اپنی جیب میں ڈال لیا۔ میں اور بشیر اس کی اس حرکت سے انگشت بدنداں تھے۔ میں اس حرکت کا مطلب نہیں سمجھ پا رہا تھا۔ چند منٹ کے دوران ظہور پذیر ہونے والے دونوں واقعات میرے سامنے تھے۔ دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا۔ جو شخص مقدس دیوتا کے روپ میں سامنے آیا تھا چند ہی منٹ میں اس نے شیطانی روپ اختیار کر لیا تھا۔ میں حیران اس بات پر تھا کہ پچیس ہزار تو چلو اس نے انجانے میں واپس کر دئیے تھے مگر پانچ سو روپے تو اسے دینے والے کی رضامندی سے مل رہے تھے مگر اس نے لینے سے انکار کر دیا تھا۔ تو پھر یہ کیا تھا؟ صرف پچاس پیسے کے سکے پر اس کا ایمان کیوں ڈگمگا گیا تھا۔ میں حیران بھی تھا اور پریشان بھی۔ کچھ دیر میں ہمارا سٹاپ آ گیا اور ہم دونوں بس سے نیچے اتر گئے۔ چند قدم چلنے کے بعد بشیر بولا
’’ دیکھا تم نے؟‘‘
’’ ہاں! دیکھا بھی اور حیران بھی ہوں اس کی حرکت پر‘‘
میں نے آہستہ سے جواب دیا۔
’’ تو پھر کیا سمجھے ہو اُس کی اتنی گھٹیا حرکت کا مطلب؟‘‘
بشیر نے پوچھا۔
’’ میری سمجھ سے باہر ہے یہ سب‘‘ میں نے جواب دیا۔
تب بشیر نے جو تاریخی بات کی وہ ہمیشہ کے لیے میرے دماغ سے چپک کر رہ گئی ہے، وہ بولا
’’ رانا صاحب! اس شخص نے پانچ سو روپے اس لیے ٹھکرا دیئے تھے کہ وہ اس شخص کی اوقات ( وقعت) سے بہت زیادہ تھے۔ اس کی اتنی اوقات ہی نہ تھی کہ یہ ان روپوں کو سنبھال سکتا۔ اس کی اوقات صرف اٹھنّی کی تھی جو اس نے دکھا دی‘‘۔

جواب دیں

Back to top button