جیل اصلاحاتی کمیٹی سے توقعات ( حصہ دوم )

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
ایک جیل سے دوسری جیل ایسے قیدیوں کو شفٹ کرنا چاہیے جو کسی سنگین جرم کے مرتکب ہوئے ہوں نہ کہ معمولی باتوں پر انہیں دوسری جیل بھیج دیا جائے۔ عام طور پر قیدیوں کے دو گروپ لڑائی جھگڑا کریں تو ایک گروپ کو ایک مخصوص مدت کے لئے سیلوں میں بند کر دیا جاتا ہے جس کے بعد مدت ختم ہونے کے بعد انہیں واپس بیرک میں بھیج کر دوسرے گروپ کو سیلوں میں شفٹ کر دیا جاتا تھا مگر کئی سالوں سے یہ پریکٹس ختم کر دی گئی ہے اس کا آسان حل جیل والوں نے ڈھونڈ لیا ہے قیدیوں کے چالان نکال دیئے جائیں۔ بسا اوقات ایسی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے جس میں الارم بجنا پڑ جاتا ہے جس کا مطلب جیل میں کوئی ہنگامی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ چنانچہ الارم بجتے ہی تمام قیدیوں کو اپنی بیرکس میں واپس جانا ہوتا ہے۔ بعض موقعوں پر قیدیوں اور جیل ملازمین میں تصادم کے نتیجہ میں دونوں اطراف سے ہلاکتیں ہو جاتی ہے۔ پنجاب کی جیلوں میں اس طرح کے کئی واقعات سنٹرل جیل گوجرانوالہ اور ڈسٹرکٹ جیل گجرات کے علاوہ کئی اور جیلوں میں ہو چکے ہیں۔ یہ بھی مشاہدہ کیا گیا ہے جب قیدی آئی جی یا ہوم سیکرٹری سے منظوری کرانے کے بعد اپنے ضلع کی جیل واپس آتے ہیں جیل حکام انہیں لینے سے انکار کر دیتے ہیں جس کے بعد انہیں واپس اسی جیل جانا پڑتا ہے جہاں سے وہ لائے گئے ہوتے ہیں۔ جیلوں کے ملازمین ضلعی پولیس ملازمین کی طرح بازاروں میں وردی پہنے نہیں نکلتے ہیں جس کا مقصد حفاظت خود اختیاری ہے۔ ہمیں یاد ہے ایک سپرنٹنڈنٹ جیل کو سول کپڑوں میں باہر نکلنے کے باوجود گولی مار کر زخمی کر دیا گیا تھا۔ کئی عشرے قبل کوٹ لکھپت جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو واک کرتے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ جیلوں میں رہ رہ کر قیدی کئی بیماروں کا شکار ہو جاتے ہیں سزائے موت کے قیدیوں میں عارضہ قلب، سکن اور ٹی بی کے بیماریاں عام ہیں۔ دوران قید کئی قیدیوں کا دماغی توازن ٹھیک نہیں رہتا۔ پہلے تو ایسے قیدیوں کے علاج معالجہ کے لئے مناسب بندوبست نہیں تھا آج کل پنجاب حکومت نے ماہر نفسیات ڈاکٹروں کو جیلوں میں متعین کر دیا ہے۔ جیلوں میں ہسپتال کی سہولت اور علاج معالجہ کے لئے ادویات وافر مقدار میں ہوتی ہیں ہسپتال میں مریض قیدیوں کو رکھنے کی بجائے نیب مقدمات ، دھوکہ دہی اور ہائوسنگ سوسائٹیوں کے وہ لوگ جو عوام سے پیسے بٹورنے کے الزام میں جیلوں میں آتے ہیں چاہیے وہ بیمار نہ بھی ہوں جیل ہسپتال میں رکھنے میں فوقیت دی جاتی ہے جس کے بعد مبینہ طور پر مال پانی میڈیکل آفیسر کو دے کر جیتنا عرصہ جیل میں رہتے ہیں ہسپتال میں قیام کرتے ہیں۔ عجیب تماشا ہے جیلوں والوں کو باہر سے کسی افسر کے دورے کی اطلاع یابی ہو مال پانی دے کر ہسپتال میں رہنے والے قیدیوں اور حوالاتیوں کو فوری طور پر بیرکس میں شفٹ کر دیا جاتا ہے چنانچہ جیسے ہی دورہ ختم ہوتا ہے انہیں واپس ہسپتال بھیج دیا جاتا ہے۔ بعض موقعوں پر ہسپتال میں قیدیوں کے رکھنے پر سپرنٹنڈنٹ جیل اور میڈیکل آفیسر کے درمیان اختلافات ہوجاتے ہیں۔ اگر میڈیکل آفیسر مبینہ طور پر سپرنٹنڈنٹ کو حصہ نہ دے تو ہسپتال سے قیدیوں کی گنتی کاٹ دی جاتی ہے۔ جیل ہسپتالوں میں قیدیوں سے لین دین جیل کے وہ ملازمین جن کی ڈیوٹی میڈیکل آفیسر کے ساتھ ہوتی ہے وہی کرتے ہیں۔ اب پنجاب حکومت نے جیلوں کے ہسپتالوں کو محکمہ صحت کے حوالے کر دیا ہے جس کے بعد میڈیکل آفیسروں کی پوسٹنگ محکمہ صحت کی ذمہ داری ہے۔ سینٹرل جیلوں میں کم از کم دو میڈیکل آفیسر ہوتے ہیں خواتین قیدیوں کے لئے الگ خاتون میڈیکل آفیسر متعین ہوتی ہیں۔ مالی لحاظ سے خوشحال قیدی جیل میں رہنے سے تنگ آجاتے ہیں تو میڈیکل آفیسر سے مبینہ طور پر ساز باز کرکے جیل سے باہر ہسپتالوں میں چلے جاتے ہیں۔ ایسے واقعات بھی پیش آئے ہیں قتل جیسے سنگین جرم میں آنے والوں کو علالت کے بہانے جیل سے باہر ہسپتال بھیج کر فرار ہونے کا موقع فراہم کیا گیا جو میڈیکل آفیسر اور سپرنٹنڈنٹس کی مبینہ ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں۔ ہم نے ایسے مریض قیدیوں کو دیکھا ہے جو کینسر جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہونے کے باوجود انہیں جیل سے باہر بھیجنے کے انتظامات نہیں کئے گئے جس کے نتیجہ میں ان کی موت واقع ہو گئی۔ جیل ہسپتالوں کو محکمہ صحت کے حوالے کرنے سے قبل ادویات کی خریداری سپرنٹنڈنٹس اور میڈیکل آفیسر کے ساتھ آئی جی آفس میں تعینات چیف میڈیکل آفیسر کی ہوا کرتی تھی نئے انتظام کے تحت ادویات کی خریداری محکمہ صحت کی ذمہ داری ہے۔ جیلوں میں مبینہ کرپشن کا یہ عالم ہے جیلوں کے لنگر خانوں اور فیکٹریوں پر مشقت کرنے والے قیدیوں کو مشقت سے ایک روز کی چھٹی درکار ہو تو مال پانی دیئے بغیر انہیں میڈیکل آفیسر سے ریسٹ نہیں ملتا۔ جیلوں میں رات کی تاریکی میں کوئی اچانک چھاپہ مار کر دیکھ لے ہسپتالوں میں زیادہ تر کھاتے پیتے گھرانوں کے وہ لوگ جو عوام سے پیسے بٹور کر جیلوں میں آئے ہوتے ہیں انہیں رکھا گیا ہوتا ہے۔ عام ہسپتالوں میں میڈیکل آفیسر کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہوتی جیلوں میں میڈیکل آفیسر کا طوطی بولتا ہے۔ سزائے موت کے قیدیوں نے اڑتی رکوانی ہو تو میڈیکل آفیسر کی چٹ کافی ہے لیکن ایسی پرچی ویسے تو نہیں مل جاتی اس مقصد کے لئے مٹھی گرم کرنا ضرور ی ہوتا ہے۔ ستم ظرفی تو یہ ہے علیل قیدیوں کو جیل ہسپتال جانے کے لئے ہیڈ وارڈرز کو کچھ نہ کچھ نذرانہ دینا پڑتا ہے ورنہ کوئی کتنا علیل کیوں نہ ہو جیل کے ڈسپنسر کو بیرکس میں بلا لیا جاتا ہے۔ ہمیں یاد ہے سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے قریبی دوست سابق اٹارنی جنرل سردار خان کے قتل میں ملوث حوالاتی روح اللہ کو جیل سے باہر علاج کے بہانے بھیجا گیا جہاں سے وہ فرار ہو گیا اور چیف جسٹس اس کی گرفتاری کا شور و غوغا کرتے رہ گئے پولیس ملزم کو گرفتار کرکے سپریم کورٹ میں پیش نہیں کر سکی۔ حوالاتی کے فرار میں میڈیکل آفیسر کے خلاف مقدمہ درج ہو گیا لیکن سپرنٹنڈنٹ جیل کو کسی نے پوچھا تک نہیں۔ اصلاحاتی کمیٹی کو جیلوں میں ہونے والی مبینہ بے قاعدگیوں کے سدباب کے لئے اقدامات کرنے کی سفارشات دینی ہوں گی۔ ( جاری ہے )۔





