باتوں سے خوشبو آئے

شہر خواب۔۔۔۔
صفدر علی حیدری
حکیم اسلام مولا علیؓ ایک نابغہ روزگار شخصیت ہیں۔ انہیں رسالت مآبؐ کا شاگرد خاص ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ ان کی علمی مقام کا تعین کسی انسان کے بس سے باہر ہے ۔ ایک غزوہ سے واپسی پر نبی کریمؐ نے فرمایا تھا کہ اگر لوگوں کے گمراہ ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں تیرے وہ اوصاف بیان کرتا کہ لوگ تیرے پائوں کی مٹی کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناتے ۔
غزوہ تبوک کے موقع پر ارشاد فرمایا ’’ تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے موسیٌٰ کے نزدیک ہارونٌ کا مَقام تھا مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ‘‘۔
آپؐ کا فرمان ہے’’ علیؓ کا تعلق مجھ سے ایسا ہی ہے جیسا میرے سَر کا تعلق میرے جسم سے ہے ‘‘۔
حدیث میں آتا ہے ’’ میں حکمت کا گھر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہے ‘‘۔
آپؐ کا فرمان ذی شان ہے ’’ علی کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے، علیؓ کا ذکر عبادت ہے، علیؓ کی محبت دل میں رکھنا عبادت ہے ‘‘۔
یوم خیبر میں آپؐ نے فرمایا ’’ کل علم اس کو دوں گا جو اللہ، اس کے رسولؐ کا محبوب ترین ہو گا ‘‘۔
حدیث میں آتا ہے’’ میرے بعد جو چیزیں باعث اختلاف ہوں گی، ان میں علیؐ کی عدالت سب سے بہترین ہے‘‘ ۔
آپؐ ہی کا فرمان ہے’’ علیؐ تمہارے درمیان بہترین حاکم ہے‘‘۔
آپؐ کا ارشاد ہے ’’ میں سردار فرزندان آدم ہوں، ( علیؓ) سردار عرب ہے‘‘۔
غزوہ خندق کے موقع پر آپؐ نے فرمایا ’’ آج کے دن ضربت علیؓ، ثقلین کی عبادت سے افضل ہے‘‘۔
آپؐ کا فرمان ذی قدر ہے ’’ علیؓ مجھ سے ہے اور میں علیؓ سے ہوں‘‘۔
لشکر روانہ کرتے وقت آپؓ نے فرمایا’’ خدایا مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک علیؓ کو دوبارہ دیکھ نہ لوں‘‘۔
آپؐ نے صرف مولا علیؓ کے لیے فرمایا ’’ علیؓ حق کے ساتھ ہے اور حق علیؓ کے ساتھ ہے۔
آپؐ نے علیؓ مولا کی عظمت بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا’’ میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو علیؓ ہوتا ‘‘۔
غدیر خم پر سوا لاکھ صحابہ کرامؓ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’ جس جس کا میں مولا ، اس کا علیؓ مولا ہے‘‘۔
آپؐ کا ارشاد ہوتا ہے ’’ جس نے علیؓ کو ستایا، اس نے مجھے ستایا، جس نے علیؓ سے دشمنی کی، اس نے مجھ سے دشمنی کی ‘‘۔
مومن اور منافق کی پہچان کراتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’ اے علیؓ ! مومن کے علاوہ کوئی تم سے محبت نہیں کر سکتا، منافق کے علاوہ کوئی تم سے بغض نہیں رکھ سکتا ‘‘۔
حدیث کی کتابوں میں ملتا ہے ’’ علیؓ کی دوستی برائیوں کو یوں کھاتی ہے جیسے آگ لکڑی کو‘‘۔
آپؐ نے ایک بار ارشاد فرمایا ’’ اے علیؓ ! جو ہماری اطاعت کرے گا اس نے خدا کی اطاعت کی‘‘۔
معراج کے حوالے سے آپؐ نے ارشادِ فرمایا ’’ میرا پروردگار مجھے رات کو آسمان لے گیا اور علیؓ کے بارے میں مجھے 3چیزوں کی وحی کی ، علیؓ پرہیز گاروں کا پیشوا، مومنین کے ولی اور نورانی چہروں کے رہبر ہے‘‘ ۔
آپؐ فرماتے ہیں ’’ میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہے۔
آپؐ نے علیؓ مولا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ’’ اے علیؓ تم دنیا آخرت میں میرے بھائی ہو‘‘۔
بطور نمونہ چند احادیث پر اکتفا کیا جاتا ہے ورنہ
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے
سچ ہے بادشاہ کا کلام کلاموں کا بادشاہ ہوتا ہے،’’ کلام الامام امام الکلام ‘‘، ان کے پر از حکمت کلمات کو نہج البلاغہ میں جمع کیا گیا ہے۔ اس کتاب سے ان کا ایک فرمان نقل کیا جاتا ہے، جس کے بارے فرمایا گیا ہے کہ سارے کا سارا علم اس میں مرکوز ہے ۔
آپ فرماتے ہیں ’’ اللہ کی جتنی ضرورت ہے اتنی عبادت کرو ‘‘۔
اس ایک چھوٹے سے جملے میں علم و معرفت کا سمندر موجزن ہے۔
اللہ کی عبادت زیادہ نہیں اپنی ضرورت جتنی کرو ۔
اب ہر انسان خود اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس کی ضروریات کس قدر ہیں۔
ضرورتوں کی ایک لمبی لائن ہے جو ہمہ وقت انسان کو بے چین کیے رکھتی ہے۔
انسان سکون کی تلاش میں ہمیشہ بے سکون رہتا ہے۔
خواہش کا بے لگام گھوڑے کے پیچھے بھاگتے بھاگتے وہ ٹھوکریں کھاتا ہے اور ایک دن ایک ایسی ٹھوکر اسے لگتی ہے کہ وہ پھر اٹھ نہیں پاتا ۔ پھر فرمایا ’’ اللہ کی نافرمانی اتنی کرو جتنا تم جہنم کی آگ پر صبر کر سکتے ہو ‘‘۔
آگ کا کام جلانا ہے۔ جلا کر خاکستر کر دینا جس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ یہ خشک ہو یا تر سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ انسانی جسم تو پچاس ڈگری گرمی برداشت نہیں کر سکتا، آگ کا درجہ حرارت تو اس سے کہیں زیادہ ہے۔ سب لوگ اس کی تباہ کاریوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ یہ نیک دیکھتی ہے نہ بد ۔ ( ہاں البتہ کسی خلیل کے لیے یہ سلامتی بن جائے تو دیگر بات ہے )۔ جہنم کی آگ کو تین ہزار سال جلایا اور بھڑکایا گیا ۔ اس آگ میں جلا شخص دنیا کی آگ میں ڈالا جائے تو راحت محسوس کرے گا۔
یہاں واقعہ یہ ہے کہ انسان دنیا کی آگ میں جلا کوئی شخص دیکھ لے تو اس کی روح فنا ہو جاتی ہے۔
انسان اس کی شدت کے خوف سے اپنی دعائوں میں اس سے بچنے کی دعائیں مانگتا دکھائی پڑتا ہے۔
محمد علی کلے کے بارے میں ملتا ہے کہ وہ جیب میں لائٹر رکھتا تھا۔ گناہ کا خیال آتا تو وہ خود کو جلا کر خود سے مخاطب ہوتا کہ کیا اس آگ کو برداشت کر سکو تو گناہ ضرور کرو
فرمان کا تیسرا حصہ کہتا ہے ’’ دنیا کے لیے اتنا کوشش کرو جتنا تم نے یہاں رہنا ہے ‘‘۔
ہم دیکھتے ہیں انسان رات دن دنیا کی طلب میں سرگرداں رہتا ہے ۔ اسے رات کو چین ملتا نہ دن آرام ۔ اس کی جدوجہد پیٹ سے آگے نہیں بڑھتی۔ اس کی ہمتیں پیٹ تک محدود ہیں ۔ اس کی نظر میں کھانا پینا سونا جماع کرنا ہی انسانیت کی معراج ہے۔
چوتھے حصے کے بقول’’ آخرت کے لیے اتنا کوشش کرو جتنا تم نے وہاں رہنا ہے‘‘۔
اگر انسان یہی سوچنے لگے کہ اس کی قیامت کے بعد کی زندگی کتنی طویل ہو گی تو حیرت کے مارے اس کی گھگھی بندھ جائے۔ زندگی کی طوالت پر اس کی عقل مائوف ہونے لگتی ہے۔ وہ زندگی اتنی طویل ہے کہ اس کی طوالت کی پیمائش ناممکن ہے۔ یہ تو ایسے ہی جیسے کوئی شخص سات کو تین پر تقسیم کرنے لگے اور اس کی خواہش یہ ہو کہ وہ پورا پورا جواب نکالے گا ۔ مگر یہ غیر مختتم سلسلہ ہے۔ قیامت کے بعد جی اٹھنا ایک ایسی چیز ہے کہ انسان اس پر اعتراض کرتا دکھائی دیتا ہے کہ جب ہم مر جائیں اور ہماری ہڈیاں گل سڑ جانیں گے تو ہم جیسے دوبارہ زندہ کئے جائیں گے۔
ایک مسلمان یہ مان کر بھی کہ وہ پھر سے جی اٹھے گا اور ادبی زندگی پائے گا، اس کے لیے اتنی سی بھی کوشش نہیں کرتا جتنا وہ دنیا کی زندگی کے لیے کر رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان چار باتوں میں سارے کا سارا علم چھپا ہوا ہے۔
دعا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس دنیا کی زندگی میں بھی سرخ رو کرے اور آخرت کی زندگی میں بھی۔





