Columnمحمد مبشر انوار

فری میڈیکل کیمپ

محمد مبشر انوار
کرہ ارض پر زندگی اللہ رب العزت کی جانب سے ایک نعمت ہے اور اگر یہ نعمت مکمل صحت و تندرستی کے ساتھ نصیب ہو تو اس سے بڑھ کر خوش نصیبی کوئی دوسری ہو ہی نہیں سکتی تاہم اس کرہ ارض پر زندگی فانی ہے اور اسے بہرطور فنا ہونا ہے۔ موت اس زندگی کی ابدی حقیقت تو ہے لیکن موت سے قبل اگر انسان اپنی صحت کھو دیتا ہے تو زندگی بسا اوقات ایک بوجھ تصور ہوتی ہے اور محتاجی کا احساس انسان کو کچوکے لگاتا رہتا ہے۔ تاہم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اگر زمین پر بیماریاں رکھی ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ اس کا علاج بھی اتارا ہے تاہم اس کو تلاش کرنے کی ذمہ داری بنی نوع انسان پر رکھی ہے کہ کس طرح فکر و تدبر کے ساتھ انسان زمین سے ان بیماریوں کے لئے شفا تلاش کرتا ہے۔ گو کہ اللہ رب العزت کی ذات ہی واحد مسیحا ہے اور یہ اس کی صفت خاص ہے، حقیقت میں اللہ کی ہر صفت ہی خاص الخاص ہے جس کا ہلکا سا پرتو بھی انسان میں آ جائے تو انسان کی شخصیت مکمل طور پر بدل جاتی ہے، جبکہ اپنی اس صفت خاص کا کچھ حصہ اللہ نے زمین پر مخصوص بندوں پر اتارا ہے ،جو اللہ رب العزت کی صفت مسیحائی کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ماضی میں مسیحائوں کو طبیب کہا جاتا تھا جو حکمت کے اصولوں پر جڑی بوٹیوں سے دکھی انسانیت کی خدمت کرتے تھے، جبکہ دور جدید میں تحقیق نے اس مسیحائی کی ہئیت بدل کر رکھ دی ہے،اور علاج کی نوعیت بھی بدل چکی ہے۔ گو کہ ماضی میں مرض کی تشخیص نبض یا مریض کا معائنہ کرکے کی جاتی تھی اور حکمت میں ید طولی رکھنے والے، مرض کی صد فیصد تشخیص کرکے اس کا بخوبی علاج کر لیتے تھے لیکن آج مرض کی تشخیص کا طریقہ کار تبدیل ہو چکا ہے، آج طرز علاج سے قبل جدید مشینیں ،خونی نمونہ سے مرض کی تشخیص پر مہر ثبت کرتی ہیں اور پھر ڈاکٹرز اپنی ابتدائی تشخیص کنفرم ہونے کے بعد باقاعدہ علاج شروع کرتے ہیں، اسی طرح اب دواؤں کی ہئیت بھی بدل گئی اور مریض بسا اوقات فقط ایک چھوٹی سی گولی، پانی کے ساتھ نگل کر فوری صحتیاب ہو جاتا ہے۔ معاشرے میں آبادی بڑھنے سے، کئی ایک معاملات ایسے ہیں جو حکومتوں کے اختیار سے نکل کر، نجی شعبوں میں منتقل ہو چکے ہیں، انہی میں سے ایک شعبہ صحت کا ہے جس کا دائرہ کار وسیع ہو کر اب نجی شعبے تک پھیل چکا ہے تاہم شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنے والی حکومتوں کی نظر اس شعبہ پر رہتی ہے کہ کہیں حفظان صحت کے اصولوں پر سمجھوتے نہ ہوں اور شہریوں کی جان کا تحفظ ہو سکے۔ بدقسمتی سے پاکستان ان ریاستوں میں نہیں آتا کہ جہاں شہریوں کے جان و مال کا تحفظ کما حقہ کی کیا جاتا ہے، کہ یہاں دیگر اور کئی حقوق کے ساتھ ساتھ شعبہ صحت میں بھی حکومتی کارکردگی قابل ستائش ہرگز نہیں اور نہ ہی طبی سہولتوں کا معیار بہت اچھا ہے کہ شہری اس پر مطمئن ہوں، ماضی میں کبھی شعبہ صحت واقعتا بہت اچھا رہا ہے لیکن اب وہ معیار نہیں رہا۔
بہرحال آج کا موضوع قدرے مختلف حوالے سے ہے کہ اس میں ریاست پاکستان کے کارنامے زیر بحث نہیں بلکہ بیرون ملک ’’ پاکستانی سپوتوں‘‘ کا ذکر ہے جو پوری دنیا میں ’’ مٹی کا قرض‘‘ کسی نہ کسی حوالے سے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے مسلسل ادا کرنے میں مشغول ہیں۔ اچھے وقتوں میں پاکستانی ڈاکٹرز کی طلب دنیا بھر میں رہی ہے کہ ان ڈاکٹرز کا طرز عمل مریضوں کے ساتھ انتہائی مشفقانہ و ہمدردانہ دیکھنے میں آیا ہے اور اللہ رب العزت نے ان کے ہاتھ میں خصوصی شفا رکھی ہے، اپنی مسیحائی کا وصف پاکستانی ڈاکٹرز کے ہاتھوں میں رکھ چھوڑا ہے اور آفرین ہے پاکستانی ڈاکٹرز پر ، جو اپنے طرز عمل سے اللہ کی اس عنایت کا بھرپور شکریہ ادا کرتے نظر آتے ہیں، خواہ دنیا کا کوئی بھی ملک ہو۔ دیگر ممالک کے متعلق میڈیا کے حوالے سے خبریں دیکھتا رہتا ہوں لیکن سعودی عرب میں بالعموم جبکہ ریاض میں بالخصوص اس کاچشم دید گواہ ہوں کہ کس طرح پاکستانی ڈاکٹرز مریضوں کا علاج کرتے ہیں، وہ نہ صرف قابل ستائش و تحسین ہے بلکہ قابل تقلید بھی ہے، تاہم مستثنیات ہر جگہ اور ہر شعبہ میں پائی جاتی ہیں ۔PDGR، پاکستانی ڈاکٹرز گروپ ریاض بھی ایسی ہی ایک سوشل تنظیم ہے جو ریاض میں مقیم پاکستانی ڈاکٹرز نے قائم کر رکھی ہے، جس کا مقصد خالصتا بلا امتیاز مستحق پاکستانی مریضوں کا مفت علاج کرنا ہے، اس مقصد کے لئے یہ تنظیم اپنے وسائل سے ہی ادویات تک مستحقین کو فراہم کرتی ہے۔ گذشتہ پچیس سال سے اس کا عملی مظاہرہ بذات خود دیکھ رہا ہوں کہ سال میں کم از کم دو مرتبہ پاکستانی ڈاکٹرز کی یہ تنظیم ، سفارت خانہ پاکستان کی عمارت میں ’’ فری میڈیکل کیمپ‘‘ کا انعقاد کرتی ہے جس میں ریاض میں مقیم ڈاکٹرز کی کثیر تعداد رضاکارانہ طور پر شریک ہوتی ہے، سیکڑوں مریضوں کا چیک اپ کرتی ہے اور انہیں مفت ادویات کی فراہمی ممکن بناتی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایک طرف سفیر پاکستان ،جو بھی تعینات ہوں، بذات خود اس کیمپ کا معائنہ و افتتاح کرتے ہیں تو دوسری طرف سفارت خانہ پاکستان کی عمارت و عملہ اس کارخیر میں ڈاکٹرز کا ہاتھ بٹاتے نظر آتے ہیں تو تیسری طرف ایسی ہی ایک اور رضاکارانہ تنظیم پاکستان حج رضاکار، بطور نظم و ضبط کے معاون اس کیمپ میں بروئے کار دکھائی دیتی ہے۔ مریض کی رجسٹریشن سے متعلقہ ڈیسک تک رہنمائی و تعاون کے ساتھ اس کا چیک اپ، اس کو ادویات /فارمیسی تک پہچانا اور نظم و ضبط کو قائم رکھنا، یہ سب حج رضا کاروں کے ذمہ ہے تو دوسری طرف ریفریشمنٹ کے انتظام انصرام میں بھی یہ رضاکار پیش پیش نظر آتے ہیں۔ جبکہ NUSTیونیورسٹی کا گروپ ، اس کیمپ میں نیا اضافہ ہے جنہوں نے کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ کی ذمہ داری سنبھال رکھی تھی اور ڈاکٹرز اور مریضوں کو کاغذ کی جھنجھٹ سے آزاد کرنے کے علاوہ مریضوں کا ریکارڈ بھی کمپیوٹرائزڈ کر دیا ۔ مخلوق خدا کی خدمت ،رضائے الٰہی کے جذبہ سے کرتے ڈاکٹرز، سفارت خانہ کا عملہ اور یہ رضاکار، اجر الٰہی پر قانع دکھائی دیتے ہیں، انہیں کسی دنیاوی حرص و طمع کا لالچ قطعا نہیں، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پچیس برسوں سے میں بذات خود اس فری کیمپ کا عینی شاہد ہوں، جو انتہائی پر سکون انداز سے بروئے کار ہے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ڈاکٹرز گروپ ریاض کا یہ کارواں اسی طرح کامیابی و کامرانی سے رضائے الٰہی کے لئے رواں دواں رہے۔
ایک اور اہم بات جس کی تھوڑی سی تفصیل ضروری ہے، بیان کرنا چاہوں گا کہ مملکت سعودی عرب میں صحت کا ایک مربوط نظام موجود ہے، جس کے ہوتے ہوئے ایسے فری کیمپ کا بروئے کار آنا چہ معنی دارد؟ کسی بھی باشعور کے ذہن میں یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ جو سعودی عرب یا ترقی یافتہ معاشروں سے واقف ہیں، انہیں علم ہے کہ ان معاشروں میں نظام صحت موجود ہے اور حکومتیں علاج معالجے کی سہولتوں کو یقینی بناتی ہیں تو پھر ایسے فری کیمپ کی کیا ضرورت ہے؟ جوابا عرض ہے کہ ان معاشروں میں علاج معالجے کی سہولت واقعتا موجود ہے لیکن بسا اوقات ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ یہاں مقیم غیر ملکی اپنا علاج مروجہ نظام کے اندر رہتے ہوئے کروانے سے قاصر ہوتے ہیں، اس میں سرفہرست اقامتی رہائش کا تجدید نہ ہونا ہے، جس کی کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں، اسی طرح بوجوہ میڈیکل انشورنش کی عدم موجودگی بھی مریضوں کو علاج کی سہولت سے محروم کر دیتی ہے۔اس صورت حال میں ایسے پاکستانیوں کے لئے یہ میڈیکل کیمپ کسی نعمت غیر متبرکہ سے کم نہیں ہوتا گو کہ اس تنظیم کی جانب سے مستقلا ایک ڈاکٹر سفارت خانہ پاکستان میں متعین ہوتا ہے جو روزانہ کی بنیادوں پر بھی فوری طبی امداد فراہم کرتا رہتا ہے تاہم سال میں دو مرتبہ اس کیمپ سے سینکڑوں کی تعداد میں مریض فیض یاب ہوتے ہیں، جس کی حالیہ میڈیکل کیمپ میں تفصیل کچھ یوں ہے۔
ڈاکٹرز گروپ کے موجودہ روح رواں ڈاکٹر اسد رومی کی کال پر اس کیمپ کے لئے مختلف شعبہ جات سے 250ڈاکٹرز نے رضاکارانہ خدمات پیش کی، جبکہ 100حج رضاکار اس کیمپ کے لئے دستیاب رہے۔ مزید تفصیل، جو مجھے ڈاکٹر شہباز سے فراہم کی، انگلش میں درج کر رہا ہوں تا کہ کسی غلطی کا امکان نہ رہے۔Demography registration – Blood sugar Testing – Health Awareness talks for World COPD Day – Triage by family Medicine Physicians – Internal Medicine, Cardiology, Diabetology and allied disciplines – General Surgery, Urology and allied disciplines – Dentistry – Pain Management – Physiotherapy – ECG, ECHO and other sonography – External Laboratry and Radiology referrals – Free medication for those eligibleعلاوہ ازیں! سعودی وزارت صحت کی کولیگز کی جانب سے 560فلو ویکسین بھی متاثرین کو لگائی گئی۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ پاکستان کے یہ قابل فخر سپوت، اسی طرح ’’ مٹی کا قرض‘‘ اتارتے رہیں اور اللہ کریم ان کے مزید توفیق کے علاوہ تقویت بھی عطا کرے۔ یہاں یہ امر بھی واضح کردوں کہ ان میں سے کئی ایک ایسے ہیں کہ جو خاموشی سے اپنے وسائل میں رہتے ہوئے پاکستانیوں کی مدد کر رہے ہیں تو کئی ایسے بھی ہیں جو اپنے شعبہ میں اپنی مہارتوں کو اپنے زور بازو پر پاکستان منتقل کر رہے ہیں، جب کبھی تفصیلات میسر ہوئی، ان نابغہ روزگار سپوتوں کے کارہائے نمایاں پر لکھنا فخر سمجھوں گا۔

جواب دیں

Back to top button