رموز مملکت خویش خسروان دانند

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
ویسے تو میں جیل اصلاحاتی کمیٹی کے لئے اپنی تجاویز دے رہا تھا درمیان میں بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف فوجی آپریشن کی خبر آگئی اور رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے حالات پر لکھنے کی ضرورت پڑی۔ قدرتی خزانوں سے مالا مال بلوچستان کو جانے کسی کی نظر لگ گئی۔ بدقسمتی سے ملک کے معرض وجود میں آتے ہی غیر مرئی قوتوں کے ہاتھوں بلوچستان میں شورش نے سر اٹھا لیا۔ اپیکس کمیٹی نے چار دہشت گرد تنظیموں کے خلاف فوجی آپریشن کی منظوری دے دی۔ قیام پاکستان کے بعد بلوچستان میں یہ چھٹا فوجی آپریشن ہوگا۔ سب سے پہلے ایوب خان کے دور میں فوجی آپریشن کا آغاز ہوا تو وہاں کے سرکردہ لوگ پہاڑوں پر چڑھ گئے۔ حکومت نے انہیں زندگی کا تحفظ دینے کی یقین دہانی کرانے کے باوجود پھانسی دے دی۔ اس مقصد کے لئے باقاعدہ قرآن پاک پر حلف دے کر انہیں واپس بلوا گیا۔ ہمارے خیال میں شائد یہیں سے صوبے میں شورش نے زور پکڑا جو تھمنے میں نہیں آرہا۔ ذی وقار سپہ سالار نے سیکیورٹی میں رکاوٹ ڈالنے والوں کو نتائج بھگتنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ صوبے میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تناظر میں دیکھا جائی تو یہ فوجی آپریشن ماضی کے فوجی آپریشنوں سے کچھ مختلف ہونے کی توقع ہے۔ گو اس ناچیز کا تعلق پنجاب کے علاقہ پوٹھوار سے ہے۔ ایک کالم نگار کے ناطے مجھے بلوچستان کے حالات پر اپنی رائے کا اظہار ضرور کرنا چاہیے۔ قارئین کو یاد ہوگا میں بلوچستان کے مسائل بارے کچھ نہ کچھ تحریر کرتا رہتا ہوں آخر یہ صوبہ اور وہاں کے باسی ہم سب ایک ہیں۔ اس حقیقت سے ہم سرف نظر نہیں کر سکتے بلوچستان میں اگر کوئی ترقی ہوئی ہے تو فوجی دور میں ہوئی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں گوادر اور کوسٹل ہائی وے کی تعمیر مکمل ہوئی۔ ہمیں حیرت اس پر ہے صوبے میں سیاسی حکومتوں کا راج بھی رہا وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے سیاست دانوں کو اس پسماندہ صوبے کے مسائل حل کرنے میں رکاوٹ ڈالی۔ بلوچستان کے مسائل اور ان کے حل کے سلسلے میں کئی بلوچ بیورو کریٹس سے ہماری بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ یہ کالم لکھنے سے قبل ہم نے ایک مرتبہ پھر ان عوامل کے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کی جو بلوچستان میں امن و امان قائم کرنے میں رکاوٹ ہیں۔ ہمیں بلوچستان کے بہت سے علاقے دیکھنے اور وہاں کے حالات کا مشاہدہ کرنے کے مواقع میسر ہوئے اور لوگوں کے معیار زندگی سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا سیاسی حکومتوں نے ہر لحاظ سے صوبے کو نظر انداز کیا۔ مملکت پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے بلوچستان کی ان چار ریاستوں کے ریاست پاکستان کے ساتھ الحاق کی جدوجہد شروع کی جن کا کنٹرول براہ راست برطانوی حکومت کے پاس تھا۔ قائد اور ان کے رفقاء نے ریاست قلات کے سردار نواب نوروز خان سے ملاقات کی اور انہیں ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی درخواست کی۔ خان آف قلات نے قائد کو مایوس نہیں کیا تاہم چند مطالبات ان کی خدمت میں پیش کئے جن میں وفاق کے پاس دفاع، کرنسی اور خارجہ کے امور رہنے کے سوا باقی تمام امور صوبے کے کنٹرول میں رکھنے کا معاہد ہ تحریری طور پر طے پایا جس پر بانی پاکستان کے علاوہ خان آف قلات، نواب زادہ لیاقت علی خان اور وائسرے لارڈ مائونٹ بیٹن نے دستخط کئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 1973ء کا آئین بنا جس میں قدرتی وسائل کو صوبوں کی ملکیت قرار دیا گیا۔ ریکوڈک اور سندھک کے منصوبوں کے علاوہ اور بہت معدنی وسائل صوبے میں پائے جاتے ہیں جن سے ہماری حکومتوں نے استعفادہ کرنے کی ضرور محسوس نہیں کی حالانکہ سیاسی حکومتیں اس طرح توجہ دیتی تو شائد صوبے کے حالات کچھ مختلف ہوتے۔ ایوبی دور میں ایک سردار کو ضلع چکوال کے کلر کہار ریسٹ ہائوس میں برسوں قید رکھا گیا۔ خان آف قلات جنہوں نے بانی پاکستان کی آواز پر لیبک کہا ان کے آل اولاد برطانیہ میں جلاوطنی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ایک اور بلوچ سردار نواب محمد اکبر خان بگٹی جن کی حب الوطنی کسی شک و شبہ سے بالا ہے جس بے دردی سے ان کی موت واقع ہوئی اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ نواب اکبر خان آکسفورڈ کے فارغ التحصیل تھے۔ ایک عام رائے ہے بلوچستان کے سرداروں نے صوبے میں ترقی نہیں ہونے تھی غلط ہے۔1989ء کی بات ہے ایک مہربان بیوروکریٹ ڈاکٹر ظفر اقبال قادر ڈپٹی کمشنر کولہو تھے۔ جب انہوں نے تعلیم فائونڈیشن کی بنیاد رکھی تو طالبات کا پہلا اسکول کولہو میں کھولا گیا جس میں اہم کردار نواب صاحب کا تھا۔ وہ بتا رہے تھے ایک موقع پر پولیس کو کچھ لوگ مطلوب تھے جب انہوں نے نواب صاحب سے بات کی تو انہوں نے انہیں کھانے پر مدعو کیا اور مطلوب افراد کی فہرست طلب کی جس کے چند روز بعد نواب صاحب نے مطلوبہ افراد کو پیش کر دیا۔ گوادر جو قیام پاکستان کے بعد بلوچستان کا حصہ بنا بندرگاہ پر کام شروع ہو چکا ہے۔ گوادر کا مسئلہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں آئین نے جو حقوق وہاں کے رہنے والوں کو دیئے ہیں ان سے سرف نظر کیسے کیا جا سکتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے ہمارے ہاں آئین اور قانون کی جس طرح پامالی ہورہی ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ اس ناچیز کے خیال میں ہماری حکومت آئین میں دیئے گئے صوبے کے حقوق پر عمل پیرا ہو تو یہ بات یقینی ہے وہاں کے حالات میں بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ آئین سے رو گردانی نے بیرونی قوتوں کو حالات کی خرابی کا موقع فراہم کیا ہے۔ صوبے کے لوگوں کو روز گار کے مواقع مہیا کئے جائیں۔ تعلیمی سہولتوں کے فراہمی کو ممکن بنایا جائے۔ غربت کے خاتمے کے لئے ٹھوس حکمت عملی اپنائی جائے۔ جو لوگ جلاوطنی گزار رہے ہیں ان سے بات چیت کے دروازے کھولے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کسی بیرونی طاقت کو صوبے میں انارکی پھیلانے کی جرات ہو۔ گو ہماری بہادر افواج دہشت گردی کے خلاف سینہ سپر ہیں پر یہ بھی کوئی مستقل حل نہیں ہر روز بہادر افواج کے سپوت شہید ہوتے رہیں ۔





