Column

معاشرتی ڈھانچے میں عورت کا کردار

تحریر: یاسر دانیال صابری
نقطہ نظر
آج ہمارے معاشرتی حالات میں اخلاقی انحطاط، بے حیائی اور فحاشی کا بڑھتا ہوا رجحان، دراصل ہماری معاشرتی اقدار کی کمزوری اور دین سے دوری کا نتیجہ ہے۔ اسلامی معاشرت کے اصولوں پر عمل کرنے سے ہی اس انحطاط کا تدارک ممکن ہے اور اس میں سب سے اہم کردار مسلمان خواتین کا ہے۔ عورت کا کردار نہ صرف خاندان بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے کو درست سمت دینے میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر ہر مسلمان عورت اپنی زندگی کو دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق گزارے، خصوصاً پردے اور حیاء کی تکمیل ضروری ہے۔
اسلام میں عورت کو عزت، احترام، اور تحفظ کا مقام دیا گیا ہے۔ حضرت محمدؐ نے عورتوں کے حقوق اور ان کے کردار پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ آپؐ نے خواتین کو نہ صرف ان کی ذاتی حیثیت میں بلکہ خاندان اور معاشرت میں ایک اہم مقام دیا۔ آپؐ کی تعلیمات کے مطابق، ہر مسلمان عورت پر فرض ہے کہ وہ اپنے کردار کو اسلامی اصولوں کے مطابق سنوارے، خصوصاً پردہ اور حیاء کو اپنے روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنائے۔ اگر عورت پردے اور حیاء کے اصولوں پر عمل پیرا ہو، تو وہ نہ صرف اپنی عزت و آبرو کی محافظ بنتی ہے بلکہ اس کے ذریعے معاشرت میں بے حیائی اور فحاشی کا خاتمہ بھی ممکن ہوتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ معاشرت میں اخلاقی گراوٹ کی ایک بڑی وجہ خواتین کا اپنی ذمہ داریوں کو اسلامی اصولوں کے مطابق نہ نبھانا ہے۔ جب عورت خود اپنے کردار کو اسلامی اصولوں کے مطابق بہتر بناتی ہے تو وہ اپنی خاندان اور معاشرتی نظام میں اخلاقی و روحانی توازن پیدا کرتی ہے، جو پورے معاشرے کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔
حضرت محمد ؐ کی تعلیمات میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بھائیوں کی طرح رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
آپؐ نے فرمایا: ’’ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘۔
اگر مسلمان خواتین اپنی اور اپنی اولاد کی تربیت میں اس اصول کو اپنا لیں اور اپنے معاشرتی رویے میں ایک دوسرے کے ساتھ احترام، محبت، مروّت، اور درگزر کی روش اختیار کریں، تو یہ رویہ پورے معاشرے میں اتحاد، بھائی چارے اور محبت کو فروغ دے گا۔ پاکستان میں صوبائی تعصب اور منافرت کا خاتمہ بھی اسی طرح ممکن ہو سکتا ہے۔ جب خواتین اپنے گھروں میں اپنے بچوں کو ایک دوسرے کی محبت اور احترام سکھائیں گی، تو یہ محبت پورے معاشرے میں پھیل جائے گی اور فرقہ واریت، علاقائی تعصب، اور نفرتوں کا خاتمہ ممکن ہو گا۔ اس کے نتیجے میں ایک ہم آہنگ، محبت بھرا اور بھائی چارے پر مبنی معاشرتی ڈھانچہ تشکیل پائے گا۔
آج کل نئی نسل میں منشیات کے استعمال میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے اور یہ ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ اس کے سدباب کے لیے سب سے اہم کردار ماں کا ہے۔ جب ماں اپنے بچوں کے ساتھ ایک حقیقی دوست، رہنما اور غمگسار بن جاتی ہے، تو وہ نہ صرف ان کی ذہنی و جذباتی ضروریات کو پورا کرتی ہے بلکہ ان کے اندر حوصلہ، ہمّت، اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کی طاقت بھی پیدا کرتی ہے۔ اگر مسلمان مائیں اپنے بچوں کو اس طرح کی تربیت دیں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ کریں، تو یہ بچے معاشرتی برائیوں سے محفوظ رہیں گے۔ جب بچے اپنی مائوں سے محبت، ایمانداری، اور اللہ کی رضا کی اہمیت سیکھیں گے، تو وہ کسی بھی قسم کے منفی اثرات سے بچیں گے اور اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق گزاریں گے۔ مائوں کا یہ کردار بچوں کی زندگی کی بنیاد میں ایک مضبوط ستون ثابت ہوتا ہے۔
ایک مسلمان ماں کا سب سے بڑا اور طاقتور ہتھیار اس کا ایمان اور روحانیت ہے۔ جب ماں اپنے بچوں کو اللہ پر مکمل ایمان اور اعتماد سکھاتی ہے، تو یہ ایمان ان کے دلوں میں راسخ ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور یقین کے ذریعے وہ دنیا کی ہر مشکل کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ماں جب اپنے بچوں کو نماز، روزہ، قرآن پاک کی تعلیم، اور اسلامی اقدار سکھاتی ہے تو یہ بچے کسی بھی فانی لذت یا نشے کے بجائے اپنی روحانی سکون اور سکون کے لیے اللہ کی رضا کی تلاش میں رہتے ہیں۔
آج کا معاشرہ مادہ پرستی کے بھنور میں پھنس چکا ہے، جہاں ہر چیز کا مقصد صرف دنیاوی فائدے کو حاصل کرنا بن چکا ہے۔ لیکن اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ دنیا اور آخرت کا توازن قائم رکھنا ضروری ہے۔ حضرت محمدؐ کی تعلیمات کے مطابق، ایک مسلمان کا مقصد دنیا میں بھی اللہ کی رضا کو حاصل کرنا اور آخرت میں کامیابی کے لیے عمل کرنا ہے۔ اگر ہم اپنی زندگیوں میں یہ توازن پیدا کر لیں، تو ہمارا معاشرہ صرف مادیت پرستی کی بجائے ایک روحانی معاشرت بن جائے گا، جس کا مقصد دنیا و آخرت کی فلاح ہو گی۔ آج کی مسلمان خواتین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگیوں کو نبی کریمؐ کی تعلیمات کے مطابق گزاریں، تاکہ ہمارے معاشرتی رویے اسلامی اصولوں کے مطابق ہوں اور ہم ایک صالح، متوازن اور اخلاقی طور پر مضبوط معاشرت تشکیل دے سکیں۔ مسلمان مائوں کا کردار بچوں کی تربیت میں نہایت اہم ہے، اور ان کا اخلاقی، روحانی، اور ایمانی سفر نہ صرف ان کے خاندان بلکہ پورے معاشرے کی اصلاح کا باعث بنے گا۔ اگر مائیں اپنی اولاد کو اللہ تعالیٰ کی رضا، صدقے اور ایمانداری کی تعلیم دیں تو وہ معاشرتی برائیوں اور مسائل سے بچ کر ایک اچھے اور کامیاب معاشرے کی تشکیل میں مدد گار ثابت ہوں گی۔ افسوس در افسوس! آج ڈیجیٹل میڈیا کے منفی استعمال نے معاشرے کو مختلف برائیوں میں مبتلا کر کے زوال کی طرف راغب کیا ہوا ہے۔
مخصوص نقطہ نظر۔۔۔ فطرت نے مرد و عورت میں شہوانی جذبہ اتنی شدت سے رکھا ہے کہ اس پر قابو پانا مشکل ہے۔ یہ جذبہ نسل انسانی کی افزائش کے لیے ہے، لیکن اگر اس پر قابو نہ پایا جائے تو اس کے خطرات سامنے آتے ہیں۔ ایک طرح سے یہ جذبات انسانی معاشرے کے لیے قدرتی آزمائش بن سکتے ہیں اور ان پر قابو نہ پانے سے سماج میں بے راہ روی اور فساد پیدا ہوتا ہے۔ جب مرد اور عورت نامحرم ہوتے ہیں اور ان کے درمیان مسلسل ملاقاتوں کا موقع ہوتا ہے، تو شیطان ان کے درمیان وسوسے ڈالتا ہے، جس سے وہ آوارہ گردی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ آوارگی کی ابتدا جنسی خواہشات سے ہوتی ہے، اور اگر یہ تعلقات غیر متوازن اور غیر اخلاقی طریقے سے بڑھتے ہیں تو اس کا بدترین اثر عورت پر پڑتا ہے۔ مرد کے لیے یہ تعلقات جتنا کم نقصان دہ ہو سکتے ہیں، عورت کے لیے یہ ہمیشہ کے لیے بدنامی اور رسوائی کا سبب بنتے ہیں۔
معاشرتی اور ثقافتی طور پر عورت کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ اس کی عزت اور ساکھ پر ہمیشہ کے لیے داغ لگ جاتا ہے۔ اگر ایک عورت ایسی صورتحال میں خودکشی کا راستہ اختیار کرتی ہے تو یہ اس کے لیے ایک اور سنگین مسئلہ بن جاتا ہے، کیونکہ خودکشی کا گناہ بھی عذاب کا سبب بنتا ہے اور اس سے چھٹکارا پانے کے بجائے وہ مزید عذاب میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ جیسے دریا کے سیلاب کو روکنے کے لیے بند بنائے جاتے ہیں، ویسے ہی اسلامی شریعت نے جنسی خواہشات کو قابو میں رکھنے کے لیے قوانین وضع کیے ہیں، جیسے نکاح اور خاندان کی تشکیل۔ لیکن، جب لوگ دین سے دور ہوتے ہیں اور شریعت کے قوانین کو نظر انداز کرتے ہیں، تو یہ قدرتی جذبے بے قابو ہو جاتے ہیں اور معاشرتی بے راہ روی جنم لیتی ہے ۔
مسلم سماج میں دین سے بیزاری اور غیر مسلموں کے طرز زندگی کی تقلید نے ایک گمراہ سماج کو جنم دیا ہے، جہاں لوگ اپنی دنیاوی خواہشات کے پیچھے دوڑتے ہیں۔ مسلم خاندانوں کا مقصد صرف دنیاوی کامیابیاں حاصل کرنا رہ گیا ہے، جیسے اعلیٰ تعلیم، اچھے روزگار، اور عیش و آرام کی زندگی، اور آخرت کی فکر کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔وہ مسلم لڑکیوں کا غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنا اور شادی کرنا اور یہ تعلقات دراصل آوارگی کی صورت اختیار کرتے ہیں اور مسلم لڑکیاں نہ صرف اپنی عزت اور وقار کھو بیٹھتی ہیں بلکہ ان کا استحصال بھی ہوتا ہے۔ جس طرح گرلز نامحرم دوست رکھنا وغیرہ، بعض غیر مسلم فرقے مسلم لڑکیوں کو بہکا کر ان سے شادی کرتے ہیں اور پھر انہیں معاشرتی طور پر دھوکہ دیتے ہیں یا ان کا استحصال کرتے ہیں۔ جس سے موجودہ وائرل ویڈیو جیسی واقعات نظر آتے اور جب ہوسٹل میں مقیم اور دیگر لڑکیاں فحاشی اور بدعنوانی کا شکار ہو جاتی ہیں تو وہ اپنے گھر یا خاندان میں واپس نہیں جا سکتیں۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ان لڑکیوں کی زندگی بے معنی ہو جاتی ہے اور ان کی عزت و وقار کو پھر کوئی نہیں بچا پاتا۔
اخلاقی انحطاط، سماجی و مذہبی اقدار کی کمی، اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سماجی مسائل کی تشویش کو اجاگر کرتا چلوں۔ یہاں مرد اور عورت کی خواہشات کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں قابو میں رکھنے کی ضرورت پر زور دینا چاہئے۔ شریعت کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے مسلم معاشرے میں آوارگی، بے راہ روی اور غیر اسلامی رویوں کے پھیلائو کا خطرہ ہوتا ہے اور اس کے اثرات معاشرے میں سنگین مسائل پیدا کرتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button