اندھوں کا دیس

علیشبا بگٹی
پلس پوائنٹ
انگریزی ناول نگار ہربرٹ جے ویلز نے اس کو پہلی مرتبہ 1936ء میں پبلش کیا تھا۔ اور آج بھی یہ پبلش ہورہی ہے۔ اس کہانی میں مصنف ہمیں ایک عجیب و غریب بیماری کے بارے میں بتاتا ہے۔ برف پوش پہاڑوں کے بیچوں بیچ دنیا سے الگ تھلگ ایک کٹے ہوئے دور افتادہ گائوں میں جوائینڈس کی بیماری پھیل گئی تھی، اور اس بیماری نے گائوں کے تمام مکینوں کو اندھے پن کی بیماری میں مبتلا کر دیا تھا۔ اس بیماری کے بعد سے اس گائوں کا دنیا سے رابطہ بالکل منقطع ہوگیا تھا۔ کوئی آنکھ سلامت نہ رہی تھی، کوئی شخص گائوں چھوڑ کر باہر نہ جاسکتا تھا۔ سو یہ تمام لوگ مکمل طور پر اندھوں میں تبدیل چکے تھے اور ان کی اولادیں بھی نسل در نسل نابینا پیدا ہونے لگی تھیں۔ گائوں کے سب مکین اندھے ہو چکے تھے اور کوئی بھی دیکھنے والا شخص اب باقی نہ بچا تھا۔ ایک دن ایک کوہ پیما نیونز غلطی سے وہاں آنکلا، جب وہ پہاڑ سر کرنے کی مشق کر رہا تھا تو اچانک اس کا پائوں پھسل گیا اور وہ پہاڑ کی ایک بلند و بالا چوٹی سے سیدھا نیچے اس گائوں میں گر گیا۔ نیونز کو کوئی تکلیف نہ پہنچی۔ کیونکہ یہ برفانی گائوں گھنے درختوں سے ڈھکا رہتا تھا، اور نیونز کو ان درختوں نے اپنی گود کا سہارا دے کر بچا لیا تھا۔ چنانچہ وہ نیچے اترا تو اس نے گائوں کا تشویشناک منظر دیکھا۔ کہ ’’ اس گائوں کے کسی بھی گھر میں روشنی کے لیے کھڑکیاں نہیں بنی ہوئی تھیں اور گھروں کی دیواروں کو مختلف رنگوں کے پینٹس سے بے ترتیب انداز میں پینٹ کیا گیا تھا‘‘۔ یہ منظر دیکھ کر نیونز نے اپنے دل میں کہا کہ ’’ جس کسی نے بھی یہ گھر بنائے ہیں وہ ضرور اندھا ہوگا‘‘۔ چنانچہ یہ کوہ پیما گائوں کے عین بیچوں بیچ پہنچ گیا اور لوگوں کو پکارنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ لوگ اس کے قریب سے گزرتے جارہے ہیں اور کوئی بھی اس کی طرف مڑ کر نہیں دیکھ رہا، یہاں تک کہ نیونز کو پتہ چل گیا کہ وہ واقعی ’’ اندھوں کے دیس ‘‘ میں موجود ہے۔ وہ گائوں کے لوگوں کے ایک گروہ کے پاس پہنچ گیا، اور انہیں جاننے کی کوشش کرنے لگا۔ کہ یہ کون لوگ ہیں۔ اور کیا حالات تھے جس کی وجہ سے یہ سب نابینا ہوگئے، یہ لوگ اب کیسے دیکھتے ہیں، کیسے زندگی گزارتے ہیں اور دوبارہ کیسے ٹھیک کئے جا سکتے ہیں۔ اس نے لوگوں کے سامنے اپنے سوالات بار بار دہرائے کہ وہ کیسے دیکھتے ہیں؟ اور آنکھوں کے بغیر کیسے رہ لیتے ہیں ؟ اندھے لوگوں نے اس کو سیدھا سادہ جواب دینے کی بجائے الٹا نیونز کا مذاق اڑایا اور وہ اس کو طنز و استہزا کا نشانہ بنانے لگے۔ یہ نابینا افراد اپنی دیوانگی کی حالت میں اس سے زیادہ آگے بڑھ گئے جب انہوں نے اس کوہ پیما کو کہا کہ وہ نارمل انسان نہیں ہے کیونکہ اس کی آنکھیں ہیں وہ دیکھ سکتا ہے، نارمل انسان تو وہ ہوتا ہے جو دیکھ ہی نہ سکتا ہو۔ اس گائوں والوں نے اسے دیوانہ بنا دیا اور کچھ لوگوں نے اس کو بتایا کہ وہ اس کا مذاق اڑانا تب ہی ترک کریں گے جب وہ اپنی آنکھیں نکال دے گا، اور ان کی طرح مکمل طور پر اندھا ہوجائے گا، سب اندھوں نے مل کر اس کو ان کی طرح اندھا ہونے کا کہا۔ بلکہ اندھے گائوں والے اس کو ایب نارمل سمجھتے ہوئے اس کو خطرناک ماننے لگے اور اس کو قتل کرنے کے درپے ہوگئے۔ اس کہانی کا ہیرو ’’ اندھوں کے دیس میں‘‘ بینائی کا مطلب سمجھانے میں بری طرح سے ناکام رہتا ہے، کیونکہ اندھا بھلا کیا سمجھے کہ بینائی کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ چنانچہ وہ اس اندھوں کے دیس سے بھاگ گیا، اس سے پہلے کہ وہ لوگ اس کی آنکھیں نکال دیتے وہ یہ دیکھ کر حیرت میں پڑ گیا تھا کہ بھلا ان بیمار لوگوں کا اندھا پن کیسے ٹھیک کیا جاسکتا ہے، جب وہ آنکھوں والے تندرست شخص کو ہی بیمار سمجھتے ہیں ؟
’’ اندھوں کا دیس‘‘ ہر وہ معاشرہ ہے جس میں جہالت، کم علمی، کرپشن ، بدعنوانی، پسماندگی، غربت، تشدد اور ہٹ دھرمی کا غلبہ ہو، اور کوئی بھی اہل بصیرت آواز جب اٹھے تو اس کو رد کر دیا جاتا ہے۔ ہر وہ دیس ’’ اندھوں کا دیس ہے‘‘ جہاں پوری قوم چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم در تقسیم ہو چکی ہو، اور لوگوں کا ہر گروہ خود کو افضل سمجھے اور دوسرے ہر گروہ سے نفرت رکھتا ہو۔ ہر وہ دیس ’’ اندھوں کا دیس ہے‘‘ جہاں خود سے مختلف ہر دوسرے شخص کو نقصان پہنچانے، تکلیف دینے کا جھوٹا جواز تلاش کرکے اس پر ظلم و ستم کیا جاتا ہو۔ اندھوں کا دیس ہر وہ معاشرہ ہے جہاں لوگوں کو بس اس چیز سے سروکار ہو کہ انہوں نے دوسروں سے کیا لینا ہے، نہ کہ انھیں کیا دینا ہے۔
بے نام سے سپنے دکھلا کر
اے دل ہرجا نہ پھسلا کر
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں
ہاں کہنے کو وہ خادم ہیں
یہاں الٹی گنگا بہتی ہے
اس دیس میں اندھے حاکم ہیں
یہ شعر ہمارے نظام کی ٹھیک عکاسی کرتا ہے۔ ہمارا معاشرہ مطلب پرستی میں دھنسا جا رہا ہے، لوگوں میں خلوص ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ریا کاری اور دکھاوا کوٹ کوٹ کر بھرا پڑا ہے۔ اگر آپ کسی سے بھلائی کرتے ہیں، تو وہی آپ کا دشمن بن جاتا ہے۔ عدم برداشت کی بات کی جائے تو معاشرے میں کسی دوسرے کی بات کو تحمل سے سننا کوئی گوارا نہیں کرتا، احساس نام کی چیز سے لوگ نا آشنا ہوتے جا رہے ہیں اور خود غرضی دلوں میں سرائیت کر چکی ہے۔ جناب حبیب جالب نے ٹھیک کہا تھا کہ یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا، اس لئے یہاں ہر دوسرا شخص دوسرے کا حق کھاتا، سفارشوں سے کام نکلواتا نظر آسکتا ہے کسی کو کسی سے غرض نہیں کہ اردگرد کیا ہو رہا ہے فقط ہر کسی کو اپنا کام ہونے سے غرض ہے، باقی جائیں بھاڑ میں ، اور جب بھی جسکی حکومت ہوتی ہے وہ تو ہوتی ہے ہی اپنے چیلوں چانٹوں اور امراء کے مفادات کے تحفظ کے لئے ۔ غریبوں سے کس کافر کو سروکار ہے ، غریب تو چلو ہوتے ہیں صرف نعروں اور جھنڈے اٹھانے سے خوش۔۔ بہرحال انسان وقت کے ساتھ ساتھ حالات میں ڈھل جاتا ہے مگر کچھ انسان اسی کو قسمت مان کر زندگی گزارنا شروع کر دیتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس حالات کی ابتری کی آفت سے نکلنے کی تگ و دو آخر وقت تک جاری رکھتے ہیں۔





