ColumnImtiaz Aasi

جیل اصلاحاتی کمیٹی سے توقعات ( پہلا حصہ )

نقارہ
امتیاز عاصی
جناب چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے جیلوں میں اصلاحات کے لئے کمیٹی قائم کی ہے جس میں توازن رکھنے کے لئے احد چیمہ اور خدیجہ شاہ کو کمیٹی کا رکن نامزد کیا گیا ہے۔ پنجاب کی جیلوں میں قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر اصلاحات کی اشد ضرورت تھی۔ اگرچہ جیلوں میں قیدیوں کے گوناگوں مسائل سے احد چیمہ اور خدیجہ شاہ کو اتنی معلومات نہیں ہوں گی کیونکہ وہ جیتنا عرصہ جیل میں رہے ہوںگے انہیں بیرکس کی بجائے کسی نہ کسی سیل میں رکھا ہوگا جہاں سے قیدیوں اور حوالاتیوں کو بیرکس میں رہنے والے عام قیدیوں کی طرح باہر نکلنے کی آزادی نہیں ہوتی ۔ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ تعداد میں قیدیوں کے رکھنے سے بہت سے مسائل نے جنم لیا ہے۔ جیلوں میں قیدیوں کے درمیان آئے روز لڑائی جھگڑوں کی بڑی وجہ مقررہ تعداد سے زیادہ قیدیوں کو رکھنا ہے۔ اس وقت جو صورت حال ہے کسی بیرک کے کمرہ میں سو قیدیوں کے رہنے کی گنجائش ہے وہاں دو سو قیدی رہ رہے ہیں۔ بیرکس کے کمروں میں قیام کے لئے مختص جگہوں کی بجائے قیدی تھڑوں سے نیچے والی جگہوں جنہیں جیل کی زبان میں موٹر وے کہا جاتا ہے رہ رہے ہیں قیدیوں کو موٹر وے پر سونے والے قیدیوں کے اوپر سے گزر کر واش رومز تک جانا پڑتا ہے۔ پنجاب کی جیلوں میں مبینہ کرپشن کا آغاز بیرکس میں رہنے کی جگہوں سے شروع ہو جاتا ہے۔ ایسے قیدی اور حوالاتی جن کی جیل ملازمین سے باقاعدہ انڈرسٹینگ ہوتی ہے وہ بیرکس میں اپنے اپنے ڈیرے بنا لیتے ہیں ۔ جب کوئی کھاتا پیتا حوالاتی جیل آجائے تو جیل ملازمین سے مبینہ ساز باز کے نتیجہ میں ایسے حوالاتی کی گنتی اسی ڈیرے دار قیدی کی بیرک میں ڈال دی جاتی ہے اس طرح نئے آنے والے حوالاتی سے ڈیرے دار قیدی اور جیل ملازمین دونوں مستفید ہوتے ہیں۔ یوں تو جیلوں کے حالات بارے تفصیلات میں جائیں تو کتاب لکھی جا سکتی ہے البتہ ہم چیدہ چیدہ باتوں کو جیل اصلاحاتی کمیٹی کے علم میں لانے کی کوشش کریں گے۔ گو جیلوں میں کرپشن ایک بہت بڑا مسئلہ ہے آگے چل کر کرپشن اور اس کے خاتمے کے لئے چند تجاویز دینے کی کوشش کریں گے۔ اسلام آباد کو ضلع کا درجہ دیئے کئی عشرے ہو چکے ہیں اٹھائیس لاکھ کی آبادی کے لئے وہاں کوئی جیل نہیں ہے لامحالہ وفاقی دارالحکومت سے گرفتار ہونے والوں کو سینٹرل جیل راولپنڈی میں رکھا جاتا ہے۔ سترہ سو قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش والی جیل میں سات ہزار قیدی رکھے جائیں گے تو مسائل کا پیدا ہونا قدرتی امر ہے۔ محکمہ جیل خانہ جات نے اپنے محکمہ کو وسعت دینے کے لئے اقدامات تو کئے ہیں نئی نئی اسامیاں تخلیق کی لیکن نئی جیلوں کی تعمیر پر خاطر خواہ توجہ نہ دینے سے جیلوں میں مقررہ تعداد سے زائدover crowding ہو گئی ہے۔ ایک براہ راست بھرتی ہونے والا سپرنٹنڈنٹ جیل گریڈ اکیس تک پہنچ جاتا ہے۔ ایک زمانے میں پنجاب میں ایک ڈی آئی جیل ہوا کرتا تھا اب کئی ڈی آئی جیل کام کر رہے ہیں نئے نئے ریجن بنانے کے بعد ڈی آئی جیل کی گریڈ بیس میں اسامیاں پیدا کی گئی ہیں۔ پنجاب میں محکمہ جیل خانہ جات کے افسران میں سے آئی جی جیل خانہ جات کے علاوہ پی ایس پی افسران کو بھی انسپکٹر جنرل مقرر کیا جاتا رہا کسی نے نئی جیلوں کی تعمیر پر توجہ دینے کی کوشش نہیں کی جس کے نتیجہ میں اب جیلوں میں گنجائش سے کئی گنا زیادہ قیدی رکھے گئے ہیں۔ ہمیں اس بات کی خوشی ہے سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری نے اپنے دور میں جیلوں کے ملازمین کے پے سکیل بہتر کئے ۔ انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات کی اسامی کو گریڈ اکیس میں انہی کے دور میں آپ گریڈ کیا گیا، اس کے ساتھ نچلے درجے کے ملازمین کے پے سکیل کو انہی کے دور میں بہتر بنایا گیا۔ گویا جیلوں کے ملازمین کی فلاح و بہبود کے لئے اقدامات کا کریڈٹ سابق چیف جسٹس آف پاکستان کو جاتا ہے۔ قیدیوں اور ان کے اہل خانہ کو سب سے بڑی جس مشکل کا سامنا ہوتا ہے جیل افسران معمولی معمولی باتوں پر قیدیوں کو اپنی ضلعی جیلوں سے دور دراز دوسری جیلوں میں بھیج دیتے ہیں حالانکہ قیدیوں کو کسی جرم کی پاداش میں سزا دینے کے لئے جیلوں میں قصوری بلاک Punishment Block ہوتے ہیں جہاں قیدیوں اور حوالاتیوں کو کم از کم ایک ماہ کے لئے دیگر قیدیوں سے الگ رکھا جاتا ہے۔ ایسے قیدیوں کو جیتنے عرصہ کے لئے قصوری بلاک میں بند کیا جاتا ہے انہیں وہاں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی اور انہیں لنگر خانہ سے آنے والے کھانے پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ قیدیوں کو دوسری جیلوں میں بھیجنے کے لئے اجازت آئی جی جیل خانہ جات اور سزائے موت کے قیدیوں کو شفٹ کرنے کے لئے صوبائی سیکرٹری داخلہ سے منظوری لینا ہوتی ہے۔ عجیب تماشا ہے جس قیدی کو دوسری جیل میں شفٹ کیا جاتا ہے اس کے ہسٹری کارڈ پر اس کے جرم کی تفصیل لکھنے کی بجائے صرف انتظامی امور لکھ دیا جاتا ہے۔ جن قیدیوں کے ہسٹری کارڈ پر انتظامی امور لکھا ہوتا ہے جس جیل میں جاتے ہیں ان کی خوب درگت بنائی جاتی ہے۔ ایسے قیدیوں کا شمار خطرناک قیدیوں میں ہوتا ہے۔ ایک جیل افسر جو شہرت کے لحاظ سے انتہائی بری شہرت کا حامل تھا سابق چیف جسٹس کے احکامات پر اسے راولپنڈی سینٹرل جیل سے تبدیل کرتے ہوئے ساتھ یہ حکم تھا اسے آئندہ کبھی اڈیالہ جیل تعینات نہیں کیا جائے گا۔ یہ بری شہرت رکھنے والا افسر قیدیوں سے مبینہ طور پر رشوت لے کر مخالف قیدیوں کے چالان دوسری جیلوں میں بھیجنے کی شہرت رکھتا تھا۔ اصلاحاتی کمیٹی کو قیدیوں کے اس بڑے مسئلے کی طرف خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ جیل والوں کا یہ وتیرہ ہے وہ معمولی جرم کی پاداش میں قیدیوں کو دور دراز جیلوں میں بھیج دیتے ہیں جس سے قیدیوں سے زیادہ ان کے لواحقین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عجیب تماشا ہے جس قیدی کا چالان بھیجا جاتا ہے اس کے گھر والوں کو خبر نہیں ہوتی جب وہ ملاقات کے لئے جیل آتے ہیں تو انہیں اس بات کا علم ہوتا ہے قیدی کو کسی دوسری جیل میں بھیج دیا گیا ہے۔ ( جاری ہے)

جواب دیں

Back to top button