حسد ایک موذی مرض اور معاشرے کیلئے زہر قاتل

باغ و بہار
ایم فاروق قمر
حسد عربی کا لفظ ہے۔ اس کے لغوی معنی کینہ، جلن، ڈاہ، بدخواہی یا کسی کا زوال چاہنے کے ہیں۔ اصطلاحِ عام میں حسد ان خداداد نعمتوں اور ترقیات و بلندی مدارج کے عروج یا ان کے اپنی طرف منتقلی کی آرزو و تمنا یا سعی و کوشش کو کہتے ہیں۔ حسد کا مفہوم کسی کی نعمت یا خوبی کا زوال چاہنا یا اس کے چھننے کی خواہش کرنا ہے۔ جبکہ رشک میں کسی شخص کی خوبی سے متاثر ہونا اور اس جیسا بننے کی کوشش کرنا ہے، لیکن رشک میں وہ نعمت محسود ( جس سے حسد کیا جائے) سے چھن جانے یا اس نعمت کو نقصان پہنچ جانے کی کوئی خواہش نہیں ہوتی۔ چنانچہ حسد ایک منفی جبکہ رشک ایک مثبت جذبہ ہے۔ دوسرے کی اچھی قسمت کی وجہ سے پہنچے والی تکلیف کو حسد کہتے ہیں۔ بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ کی تقسیم سے اختلاف رکھنا حسد کہلاتا ہے۔ یہ خصلت کسی کی ترقی و شہرت، کامیابی و مقبولیت، مقام و منصب کی بلندی اور عام انسانوں میں اس کی عزت و نام وری کے نتیجے میں پروان چڑھتی ہے۔ اس لیے کہ حاسد اپنے یا اپنے متعلقین کے علاوہ کسی کی عزت و سرخ روئی یا ترقی و بلندی کو برداشت نہیں کر پاتا۔ وہ ہر قسم کی عزت و سرخ روئی یا ترقی و سر بلندی کا مستحق صرف اور صرف خود کو سمجھتا ہے۔ اس وجہ سے وہ محسود ( جس سے حسد ہو) میں طرح طرح کے عیب نکالتا ہے، اس کی خوبیوں اور ہنر مندیوں کو خامیوں سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کی نیکی، تقویٰ اور حسن اخلاق و کردار کو ریاکاری، خود پسندی اور نام و نمود کا مظہر قرار دیتا ہے۔ اس کے علمی و فکری کارناموں اور قومی وملّی خدمات کے حوالے سے لوگوں کو طرح طرح سے بدگمان کرتا ہے۔ اس کے بارے میں لوگوں کی آرا خراب کرتا ہے۔ اس لیے کہ خود وہ ان اعلیٰ محاسن و فضائل تک نہیں پہنچ پاتا۔ وہ چاہتا ہے کہ ’’ محسود ‘‘کے سلسلے میں ایسی فضا بنا دے کہ لوگ اس سے نفرت کرنے لگیں اور چھوٹا یا بڑا جو مقام و مرتبہ اس کو ملاہے، وہ چھن جائے۔ وہ ہر وقت اپنی تمام تر صلاحیتوں کو ’’ محسود ‘‘ کو زیرو پست کرنے میں صرف کرتا ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ عزت و ذلت اور ترقی و تنزلی اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت صاف اور واضح طورپر ارشاد فرمایا ہے:
’’ کہو : اے اللہ! ملک کے مالک!! تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے، جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کر دے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
حسد ایک مہلک مرض ہے۔ یہ ایک ایسی باطنی اور روحانی بیماری ہے جو انسان کے سینے میں کینہ، بغض اور کھوٹ کا بیج بو دیتی ہے، جس سے انسان کے تمام نیک اعمال تلف ہو جاتے ہیں۔
نبی کریمؐ نے حسد اور بغض سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔
چنانچہ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ حسد نہ کرو، نہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بغض رکھو، اور نہ ہی آپس میں ایک دوسرے سے قطع تعلق کرو، اور اللہ کے بندوں بھائی بھائی ہو جائو‘‘ ( صحیح مسلم، ج: 4، ص1983)۔
ایک دوسری روایت میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا : ’’ حسد سے بچو، کیوں کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوںکو کھا جاتی ہے‘‘۔
ایک اور روایت میں آیا ہے کہ ’’ حسد نیکیوں کے نور کو بجھا دیتا ہے‘‘ ( سنن ابی دائود)
امام ابن عیینہ فرماتے ہیں کہ ’’ حسد وہ پہلا گناہ ہے جو آسمان پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے کیا گیا‘‘۔ یعنی شیطان نے حضرت آدمٌ ’’ پر حسد کیا، اور یہی وہ پہلا گناہ ہے جو زمین پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے کیا گیا‘‘، یعنی حضرت آدمٌ کے بیٹے نے اپنے بھائی پر حسد کیا اور اس کو قتل کر دیا۔ ( المجالس وجواہر العلم، ج: 3، ص:51)۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کو حسد انتہائی ناپسند ہے۔ ہمیں ہمیشہ دوسروں کے بارے میں فراخ دلی سے کام لینا چاہیے اور کسی کو ملنے والی نعمت کو دیکھ کر حسد نہیں کرنا چاہیے۔
اس حوالے سے ایک اہم حدیث میں حضرت ابوہریرہؓ سے منقول ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’ کسی مومن کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہو سکتے‘‘۔
جب کوئی انسان کسی سے حسد کرنا شروع کرتا ہے تو اس کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کرنا شروع کر دیتا ہے، ایسی صورت میں انسان کو حاسد کے حسد سے بچنے کے لیے بعض اذکار سے تمسک اختیار کرنا چاہیے۔ جن میں آخری تین قل، بالخصوص معوذتین شامل ہیں۔
صحیح مسلم میں حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نبی ؐ کے پاس آئے اور کہا: ’’ اے محمدؐ! کیا آپ بیمار ہو گئے ہیں؟، آپ ؐ نے فرمایا: ہاں! حضرت جبرائیل علیہ السلام نے یہ کلمات کہے: ’’ میں اللہ کے نام سے آپ کو دَم کرتا ہوں‘‘ ہر اس چیز سے ( حفاظت کے لیے) جو آپ کو تکلیف دے، ہر نفس اور ہر حسد کرنے والی آنکھ کے شر سے اللہ آپ کو شفا دے ’’ میں اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں‘‘۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں حسد کی بیماری سے پاک کر دے اور ہر حاسد کے حسد سے محفوظ فرما دے۔ آمین!





