کیا مسلم ممالک بہت دیر کے بعد بیدار نہیں ہوئے ؟

تحریر: عبدالرزاق برق
موجودہ دور میں پہلی بار سعودی عرب کے شہر ریاض میں گزشتہ روز فلسطین لبنان اور غزہ کی صورتحال پر اسلامی عرب سربراہی کانفرنس بلائی گئی، اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے تمام شرکاء نے بڑی اعلیٰ قسم کی تقاریر کیں، سب سے زیادہ دلچسپ تقریر ترکیہ کے صدر رجب طیب اردون نے کی، انہوں نے کہا کہ اسرائیل فلسطین کا وجود ختم کر رہا ہے، جس کے خلاف تمام مسلم ممالک متحد ہو کر آواز اٹھائیں اور اپنے اختلافات بھلاکر ایک ہوجائیں۔ کانفرنس میں ہمارے وزیراعظم شہباز شریف نے واحد جاندار تقریر کے دوران القدس کے فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہونے کا اعلان کیا۔ کانفرنس میں مشترکہ حکمت عملی اپنانے پر زور دیا گیا تاکہ دنیا میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک روکا جا سکے۔ اجلاس میں شرکت کرنے والوں نے آپس میں تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے اور اقتصادی منصوبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دیا، اسلامی ممالک کے درمیان آزادانہ تجارتی معاہدے اور سرمایہ کاری میں اضافے کے لئے مختلف تجاویز پر بھی غور کیا گیا۔ مشترکہ اعلامیے میں تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور تحقیقی شعبوں میں تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ اگرچہ کانفرنس اسرائیل کے حملوں کو روکنے کے لئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کرنے میں ناکام رہی مگر سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کا غزہ میں جنگ کے آغاز سے لیکر اب تک سب سے زیادہ سخت بیان اسرائیل کے خلاف سامنے آیا، جس میں انہوں نے کہا کہ وہ مزید اقدامات سے باز رہے، انہوں نے لبنان اور غزہ پر اسرائیلی حملوں کی سخت مذمت کی۔ کانفرنس کا انعقاد اور اس میں اسرائیل کے خلاف تقاریر ایک اہم کامیابی کی دلیل ہیں اور مسلم ممالک کی حکومتوں نے بہت پرکشش الفاظ میں اپنے عوام کی نمائندگی کی ہے مگر اہم سوال یہ ہے کہ اگر اسرائیل اور اس کے سرپرست ممالک ریاض کانفرنس کے اعلامیہ کو اہمیت نہیں دیتے تو پھر اسلامی ممالک کا اگلالائحہ عمل کیا ہوگا؟۔ ریاض کانفرنس کے بارے میں دوسرا اہم سوال یہ ہیے کہ یہ کانفرنس سوا سال گزرنے کے بعد کیوں بلائی گئی ؟ اگر کانفرنس پہلے بلائی جاتی تو شاہد 43ہزار فلسطینی امت مسلمہ سے شکایت کرتے دنیا سے رخصت نہ ہوتے ؟ آخر ایک سال سے یہ اسلامی ممالک کے سربراہ کہاں سوئے ہوئے تھے؟ آج کہاں سے مظلوم فلسطینیوں کے لئے ہمدردی کیسے جاگ اٹھی ؟ ایک سال فلسطینی مرتے رہے، اس کو روکنے کے لئے اسلامی ممالک نے کچھ نہیں کیا۔ خدا کرے کہ عقل آجائے اور امت مسلمہ متحد ہو جائے۔ کیا اس کانفرنس کے شرکا کی دھوم دھام تقاریر کرنے سے اب آئندہ فلسطینی نہیں مرتے رہے گے؟ کیا اسرائیل کی طرف غزہ میں قتل و غارت گری کا سلسلہ بند ہوجائے گا، یہ قتل و غارت گری کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اسرائیل کی صیہونی قیادت چاہے گی، جب تک وہ طے شدہ مقاصد پوری نہیں کر لیتے اور جب تک انہیں اپنے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہوجاتے۔
جب 7اکتوبر2023ء سے لیکر آج تک امریکہ اور دیگر مغربی ممالک جہاز اسلحہ و گولہ بارود سے بھر بھرکر اسرائیل کو پہنچاتے رہے، اس وقت اسلامی ممالک کاضمیرکہاں اور کیوں سوئی ہوا تھا ؟، اگر اسلامی ممالک صحیح وقت پر اجلاس بلاتے تو شاہد اتنے زیادہ فلسطینی نہیں مرتے اور اس کے گھر، سڑکیں، ہسپتال، سکول، یونیورسٹیاں تباہ نہیں ہوتیں۔ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ریاض اجلاس نے آنے والے امریکی صدر ٹرمپ کو واضح اشارہ دیا ہے کہ وہ خطے میں امریکی مفادات کو بڑھانے کے لئے ایک مضبوط پارٹنر کے طورپر ان پر بھروسہ کر سکتے ہیں، سربراہی اجلاس نے جنگ کو ختم کرنے کے بجائے سب سے زیادہ زور امریکی فائدہ اٹھانے پر دیا لیکن ایک بات واضح ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ فلسطینی ریاست کے قیام زور نہیں دے گی، جیسا کہ بین الاقوامی اتحاد نے تصور کیا ہے۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ او آئی سی اسلامی ممالک کا ایک مضبوط اتحاد رکھتی ہے، لیگ میں علاقائی ممالک بھی شامل ہیں، مگر اس کی فعالیت پر آج بھی ایک سوالیہ نشان ہے کیونکہ مسلم ریاستوں کی قیادت اپنے عوام کی ترجمانی سے عاری نظر آتی ہے اور مسلم قیادت دور حاضر کے چیلنجز کو سمجھنے اور ان سے مقابلہ کی حکمت عملی ترتیب دینے کی صلاحیت سے محروم دکھائی دیتی ہے، جس نے پوری امت مسلمہ کو پس ماندہ اور کمزور بنا دیا ہے۔ خود بعض عرب ممالک میں کہیں بادشاہت ہے کہیں فوجی آمریت اور کہیں دو نمبر جمہوریت۔ جو ممالک اپنے عوام پر ظلم کریں اور انہیں حقوق نہ دیں ان کی بات دنیا میں وزن نہیں رکھتی ۔ یہی نا اتفاقی ہے جو اسرائیل اور بھارت جیسے ممالک کو فلسطینیوں اور کشمیریوں پر مظالم کا حوصلہ دے رہی ہے۔ او آئی سی کو پوری طرح فعال کرنے ضرورت ہے کیونکہ اگر یہی عرب لیگ کے رکن ممالک عملی اقدامات پر متفق ہوجائیں تو اسرائیل کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں بچتی۔ اس بات کی تاریخ گواہ ہے کہ 1973ء میں صرف تین ممالک نے اسرائیل کو نکیل ڈال دی تھی۔ مصر کی شرائط کے تحت ہی کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر اسرائیل دستخط کرنے پر تیار ہوا تھا۔ ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا جب اسرائیل نے دفاع کے نام پر نہتے فلسطینیوں پر حملے شروع کئے، اب یہ حملے لبنان، شام، عراق اور ایران تک پھیل چکے ہیں۔ اسلامی ممالک کی کانفرنس کے شرکا نے اجلاس میں پرجوش تقاریر تو کر دیں مگر اسی اسلامی تعاون کی تنظیم میں نمائندگی کرنے والے زیادہ تر مسلم ممالک نے غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ کے خلاف سڑکوں پر ہونے والے کسی بھی عوامی احتجاج کو انتہائی مستعدی اور بے رحمی سے کچل دیا ہے، کون جانتا ہے کہ یہ ہمدردی کی کمی ہے یا خوف ہے کہ اسرائیل مخالف مظاہرے جابرانہ حکمرانی کے خلاف مظاہروں میں نہ بدل جائیں۔ برطانیہ میں مظاہرین اپنی اسرائیل نواز حکومتوں کے خلاف بھی آواز بلند کر رہے ہیں، سپین، ناروے، آئر لینڈ یہاں کہ چھوٹے سے سلوینیا جسے ممالک میں گزشتہ 10مہینوں سے تقریباً ہر ہفتے کے آخر میں مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ ریاض کانفرنس میں یہ بات اعلامیے میں نظر نہیں آئی کہ بعض عرب ممالک میں امریکی فوجی اڈے آج بھی قائم ہیں، ان اڈوں کے بارے عرب ممالک میں یہ خدشات پائے جاتے ہیں کہ وہ ان اڈوں سے اسرائیل کو اسلحہ فراہم کیا جا سکتا ہے، لیکن ان اسلامی ممالک نے ان اڈوں کے استعمال پابندی نہیں لگائی۔
ریاض کانفرنس سے قبل جنوبی افریقہ ملک نے فلسطین میں نسل کشی روکنے اور اسرائیل کے خلاف بہت ہی اچھا کردار ادا کرتے ہوئے ہیگ میں واقع بین الاقوامی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کیا، بین الاقوامی عدالت کا آخری فیصلہ ابھی تک نہیں آیا لیکن اس مقدمے کا اسرائیل پر اس لئے کوئی اثر نہیں ہورہا کیونکہ اس کو امریکہ اور مغربی ممالک خصوصاً جرمنی اور برطانیہ کی پوری تائید حاصل ہے۔ اس جنگ کے دوران اسرائیل کو بچانے کے لئے امریکہ چار بار اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد کے خلاف ویٹو کر چکا ہے اور جنگ کے دوران اسرائیل کی بھرپور جنگی اور مالی امداد کر رہاہے۔ جنگ شروع ہوتے ہی امریکہ نے اپنے دو بحری بیڑے علاقے میں بھج دیئے تھے تاکہ کوئی بھی ملک اسرائیل کے خلاف جنگ میں شامل نہ ہوسکے۔ امریکہ نے ہوائی، بحری جہازوں کے ذریعے مسلسل اسرائیل کو اسلحہ فراہم کیا۔ فلسطینیوں کو مارنے کے عمل کے خلاف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی کھل کر بولے ہیں، فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے بھی یورپی ممالک کی طرف سے اسرائیل کو ہتھیار سپلائی کرنے پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ نسل کشی کے مقدمے کے علاوہ دنیا کے 52ممالک نے بین الاقوامی عدالت میں اسرائیل کے خلاف ایک اور مقدمہ دائر کیا ہے کہ غزہ، مغربی پٹی اور بیت المقدس پر جاری اسرائیلی قبضہ ہٹایا جائے۔
افسوس ہے کہ یہ مقدمہ غیر عرب اور غیر مسلم ملکوں نے دائر کیا ہے، یہ توفیق کسی مسلم ملک کو حاصل نہیں ہو سکی، غزہ پر جارحیت کی وجہ سے متعدد غیر مسلم ملکوں نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات توڑ لئے ہیں لیکن کسی عرب یا مسلم ملک کو یہ توفیق نہیں ہوئی، بلکہ کچھ درپردہ اسرائیل کی مددکر رہے ہیں جبکہ عرب دنیا میں عوامی رائے اسرائیل کے سخت خلاف ہے۔ موجودہ دور میں فلسطینی اور کشمیر ایسی بد قسمت قومیں ہیں جو غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں، فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ کے طویل ترین امن مشن میں شامل ہے، 24اکتوبر1945ء کو جب اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا، اس وقت سے آج تک مسئلہ فلسطین اور کشمیر اقوام متحدہ کی تمام کوششوں کے باوجود حل نہیں ہوسکی، حالانکہ اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی متفقہ قرار دادیں منظور ہوچکی ہیں۔ اس کے باوجود اسرائیل ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے جنگ بندی پر تیار نظر نہیں آتا، آج ایک مسلم ملک سلامتی کونسل کا مستقل رکن نہیں ہے مگر ویٹو پاور رکھنے والے دو ملک روس اور چین فلسطین اسرائیل جنگ میں اسرائیل کی جارحیت کے خلاف مسلمان ممالک کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہاہے، سردست اسرائیل کے مظالم کے خاتمے کے لئے جنگ بندی کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف پابندی لگانے کی ضرورت ہے، یہ پابندیاں اقوام متحدہ کے ذریعے لگائی جائیں اور مسلم ممالک کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ پابندیوں پر عمل درآمد کے لئے عالمی برادری کو آن بورڈ لینا ہوگا، اگر اب بھی اس کی جارحیت کونہ روکا گیا تو کرہ ارض کی تباہی نوشتہ دیوار ہے۔





