معاشی بہتری میں رکاوٹیں

تجمّل ہاشمی
ملک میں معاشی بہتری کب آسکتی ہے، اس بات کو لے کر ہر فرد خوف زدہ ہے کہ ہمیں کب سہولتیں میسر ہوں گی۔ سنہ 1970سے پہلے جو منصوبے قائم ہوئے آج وہ انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں ہیں، ان منصوبوں کی نجکاری کا پلان حکومتی ایوانوں میں سرفہرست ہے، سیونٹیز ( 70s) کے بعد سے ریاست کیوں کمزور ہوئی یہ اہم بلکہ غور طلب تھا لیکن غور کرنیوالوں کو ملکی معیشت کی مضبوطی سے زیادہ اپنی فیکٹریوں کا تحفظ عزیز رہا۔ ملکی نقصان کے بچائو، عوامی تحفظ کیلئے عسکری اداروں کو مارشل لاء جیسے سخت فیصلے کرنے پڑے۔ ملک میں عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ مارشل لاء کی ضرورت اس وقت پیش آئی جب عوام جمہوری حکومتوں سے تنگ آ چکے تھے۔ اس وقت جو معاشی گھٹن ہے شاید ماضی میں بھی نہیں تھی۔ جنرل ایوب، جنرل ضیاء الحق اور پھر جنرل پرویز مشرف تک نے ملکی معیشت کی بہتری کیلئے بھرپور زور لگایا لیکن وہ نتائج حاصل نہ ہوسکے بلکہ مشرف دور میں تو دولت کی غیر مساوی تقسیم میں اضافہ نے معاشرہ کی حالت بگاڑ دی۔ بیرونی امداد اور قرض کی مد میں جتنے بھی ڈالر وصول ہوئے اس سے زیادہ اپنے ملک کا نقصان کرا لیا، جس کے اثرات آج اور آنیوالی نسلوں کو بھگتنا ہوں گے۔ بے گناہ لوگ دہشتگردی کا شکار ہوئے۔ ہماری بنیادوں میں دہشتگردی گھس گئی ہے۔ عمران خان حکومت کے بعد پی ڈی ایم اور اب شہباز حکومت بیرونی سرمایہ کاری کیلئے 48کاروباری شخصیات کو سفیر کا درجہ اور بلیو پاسپورٹ جاری کر چکی ہے لیکن کچھ حاصل وثوق نظر نہیں آیا۔ اس طرح ملک کبھی بھی معاشی طور پر مضبوط نہیں ہوسکتا، یہ گمان پکا ہورہا ہے۔ لوگوں کے رویوں میں منفی رجحانات میں اضافہ ہے، ہر کام کو رشوت کے ذریعے کرانے کا ٹرینڈ بن چکا ہے، منفی گمان اچھا نہیں لیکن بہتری کیلئے طاقتور حلقوں کو اپنی منجی کے نیچے ڈنڈا پھیرنے کی ضرورت ہے۔ ملکی معیشت کی بہتری کیلئے چند ایک کام حکومتیں اور فیصلہ سازوں کو فرض سمجھ لینے چاہئیں۔ "ملک کی ترقی کیلئے جمہوری تسلسل کو لازمی قرار دینا ہوگا، انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہونے چاہئیں اور شفاف ہونے چاہئیں۔ عسکری اداروں کو اپنی اثر اندازی کو کم کرنا ہوگا، بے جا قانون سازی کے استعمال کو کم کرنا چاہئے اور ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور دینا ہوگا۔ قانون کی عمل داری میں انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں، انصاف کی فراہمی میں کوئی غفلت نہیں ہونی چاہئے۔ سب سے اہم نئی نسل کو اسمبلیوں کا حصہ بنانا چاہئے۔ ہر رکن اسمبلی کو اس کی وزارت کے مطابق ورکشاپ کرائی جائیں، اسمبلیوں میں نئے خون کی کتنی شمولیت ہے۔ اس حوالہ سے بڑے صوبے پنجاب کی اسمبلی کی ویب سائٹ پر درج ممبرز کی عمر کے جائزہ کے مطابق نئے خون کی کمی نظر آئی۔ تحریک انصاف، جو تبدیلی کے ساتھ حکمرانی کے تخت تک پہنچی لیکن وہ بھی نیا خون اسمبلی فلور تک نہ لا سکی۔ پنجاب اسمبلی میں 50سال سے 90سال تک کی عمریں رکھنے والے ممبرز کی تعداد 131درج ہے، 172ممبرز کی عمریں اسمبلی کی ویب سائٹ پر درج ہی نہیں ہیں۔ 25سے30سال کی عمروں کے ممبرز کی تعداد صرف 7ہے۔ ابھی بھی 90سال کے دو ممبرز اسمبلی کا حصہ ہیں باقی آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ملک کے دوسرے صوبوں کی اسمبلیوں میں کتنا نیا خون شامل ہوا ہوگا، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی عمر بھی ویب سائٹ پر درج نہیں، مریم اورنگزیب اور حنا بٹ کی بھی عمریں درج نہیں ہیں۔ اسمبلیوں میں بیٹھی کاروباری شخصیات نے خدمات کو بھی کاروبار میں تبدیل کرلیا ہے، سیاست خدمت ہے لیکن ہمارے ہاں کاروبار بن چکی ہے، وی پی این کیلئے فتوے جاری کر دیئے گئے ہیں، ایسے اقدامات سے معاشی پرورش نہیں ہوگی، جنرل ضیاء الحق نے ملک میں 10سال میں وی پی این جیسے کئی فیصلے نافذ کئے جن کو ناکامی ہوئی۔ اب 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کا رخ درست کرنے کے بعد ریاست ایک اور بڑا چیلنج سمجھ رہی ہے کہ کسی طرح بے لگام آزادی اظہار کو نتھ ڈال کے اجتماعی حسن اخلاق کا نمونہ بنایا جائے۔ اس بار یہ اخلاقی سدھار منصوبہ کامیاب ہوگیا تو پھر آئی ایم ایف کا کشکول بھی ٹوٹ جائیگا، 2کروڑ 60لاکھ بچے بھی سکول جانا شروع کر دیں گے، ہسپتال اتنے بن جائیں گے کہ مریضوں کہیں نظر نہیں آئیں گے۔ جعلی اور ناقص دوائوں سے نجات مل جائیگی، اشیائے خور و نوش میں ملاوٹ ختم ہو جائیگی۔ شہریوں کو گھر بیٹھے نلکے سے پینے کا صاف پانی ملنا شروع ہو جائیگا۔ قیمتیں آسمان سے زمین پر آنا شروع کر دیں گی۔ دہشت گرد ہتھیار پھینک دیں گے۔ عدالتوں میں پڑے 20لاکھ سے زائد مقدمات دنوں، ہفتوں مہینوں میں مک جائیں گے۔ کرپشن کا لفظ سنتے ہی لوگ کانوں کو ہاتھ لگائیں گے۔ خواتین گلی محلوں میں خوف کے بغیر گھومیں گی ۔





