Column

ڈرامہ نگاری میں اخلاقی فقدان

تحریر : آصف علی درانی
ایک لکھاری کا قلم صرف ایک تخلیقی اوزار نہیں ہوتا، بلکہ وہ ایک معاشرتی ذمہ داری بھی ادا کرتا ہے۔ اس کا کام صرف الفاظ کے ذریعے جذبات کی عکاسی کرنا نہیں، بلکہ وہ اپنے معاشرے کی حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے اور اسے بہتر بنانے کے لئے راہ دکھاتا ہے۔
قلم ایک ایسی شے ہے جو طالب علم، استاد، ڈاکٹر، انجینئر، صحافی، مصنف، شاعر، ادیب، کلرک، آفیسر اور اس کے علاوہ بہت سے لوگ استعمال کرتے ہیں۔ قلم سے شاعر شعر لکھتا ہے، افسانہ نگار افسانہ، اور ناول نگار ناول لکھتا ہے۔ قلم ایک ایسی چیز ہے جسے ہر کوئی استعمال کرتا ہے۔ اگر لکھاری کی بات کریں تو ایک لکھاری کی بدولت معاشرہ ترقی کرتا ہے۔ ایک لکھاری جب اپنا قلم بیچتا ہے تو وہ صرف قلم ہی نہیں بیچتا بلکہ اپنے آپ کو بھی بیچتا ہے کیونکہ قلم ایک لکھاری کی تلوار ہے۔ ایک اچھا لکھاری معاشرے میں موجود مسائل کو قریب سے دیکھتا ہے اور پھر اس پر لکھنا شروع کرتا ہے۔
پرانے وقتوں میں جب ڈرامہ نویس ٹیلی ویژن ڈرامہ لکھتا تھا تو اس ڈرامے کے لیے وہ بہت تحقیق کرتا تھا، معاشرے کے مسائل کو قریب سے دیکھتا، اس کے علاوہ بڑے بڑے ادیبوں کے ساتھ بیٹھتا تھا جن موضوعات پر وہ لکھنا چاہتا تھا، تو ان کے ساتھ بیٹھ کر اس کے بارے میں بات چیت کرتا تھا، میں اس موضوع پر لکھنا چاہتا ہوں، کیا یہ درست ہے یا نہیں ؟ اس کے بعد وہ لکھنا شروع کرتا تھا۔ پھر پروڈکشن والے اس پر کام کرتے تھے اور جب ڈرامہ ٹی وی پر نشر ہوتا تو لوگ اس سے کچھ سیکھتے تھے۔ جو آج کل نظر نہیں آ رہا، وجہ یہ ہے کہ ڈرامہ نگار نے اپنا قلم بیچ دیا ہے۔ اگر ہم پرانے ڈراموں پر غور سے دیکھیں تو ان میں ایک سبق یا نصیحت ہوتی تھی۔ وہ ڈرامہ نگار ایک یا دو سال میں ایک ڈرامہ مکمل کرتا تھا۔
ڈرامے کا مقصد معاشرے کی اصلاح کرنا ہے، وہ چیزیں عوام کو بتانا یا دکھانا اور ان مسائل کے بارے میں آگاہ کرنا جو معاشرے میں ہو رہے ہیں یا موجود ہیں۔ لیکن عوام اسے دیکھ نہیں سکتے کیونکہ بعض مسائل پوشیدہ ہوتے ہیں اور ان مسائل کو ختم کرنا یا ان کا حل تلاش کرنا اور عوام کو بتانا یہ ایک ڈرامہ نویس کا کام ہے۔ اس کے علاوہ عوام میں شعور اجاگر کرنا اور انہیں غلط راستوں سے روکنا بھی ایک قابلِ ذکر ڈرامہ نگار کا کام ہے، اور وہ یہ کر سکتا ہے۔
ایک وقت تھا جب شام کو ٹیلی ویژن ڈرامہ نشر ہوتا تھا تو اس ڈرامے کو دیکھنے کے لیے بازار بند ہو جاتے تھے، گلیاں سنسان ہو جاتی تھیں، لوگ گھر میں اکٹھے بیٹھ کر ڈرامہ دیکھتے تھے۔ لیکن آج کے دور میں ڈرامہ اس قابل نہیں رہا کہ لوگ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھیں۔ آج کل کے ٹی وی ڈرامے ایک مخصوص ٹریک پر گھومتے ہیں۔ آج کے دور میں جو ڈرامے بن رہے ہیں، ان میں عورت، دولت، غربت، عشق و محبت، یہی سب دکھایا جاتا ہے اور یہ تو سب کو معلوم ہے کہ ہر کام کا ردعمل بھی ہوتا ہے، تو نوجوان نسل یہی سب دیکھتی ہے اور اسی قسم کے کام کرتی ہے۔ اب یہاں میرا ان ڈرامہ نگاروں سے یہ سوال ہے کہ کیا آپ کے پاس صرف یہی موضوعات ہیں؟ اس کے علاوہ بھی تو ملک میں کئی ایسے مسائل ہیں جنہیں ڈرامے کی شکل میں پیش کرنا ایک ڈرامہ نگار کا کام ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ لوگ صرف عشق و محبت اور دولت کے بارے میں کیوں لکھتے ہیں؟
چلیں، ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ عشق و محبت کو بھی لوگ پسند کرتے ہیں، دیکھتے ہیں۔ لیکن ہر ڈرامہ ان تین چیزوں تک محدود کیوں ہوتا ہے؟ زیادہ تر لوگ سوشل میڈیا پر بھی ان ڈراموں پر تنقید کرتے ہیں جو عشق و محبت اور دولت تک محدود ہوتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو موجودہ دور کے ہر ڈرامے کی کہانی عشق و محبت کے گرد گھومتی ہے، بس صرف زاویے یا اینگل کا فرق ہوتا ہے۔ کوئی ایک زاویے سے ان تین چیزوں کے بارے میں لکھتا ہے تو کوئی دوسرے زاویے سے۔
لیکن میں اس مخصوص موضوعات کی بات کر رہا ہوں جو آج کل کے ڈراموں میں ہر چینل پر دکھائے جاتے ہیں۔ یہ ٹی وی چینلز اپنے ڈراموں میں عشق و محبت، لڑکی اور دولت کے بارے میں کیوں دکھاتے ہیں؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا چینل والے اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے یہ حربے استعمال کر رہے ہیں؟
بہت سے موضوعات ہیں جن پر لکھنا یا انہیں ڈرامے کی شکل میں پیش کرنا ضروری ہے۔ آج کل پاکستانی ڈرامہ نگار ان موضوعات پر لکھتے ہیں جو معاشرے میں نہیں ہوتے۔ الٹا جب ڈرامہ نشر ہوتا ہے لوگ اسے دیکھتے ہیں تو وہ کام معاشرے میں شروع کر دیتے ہیں۔ آج سماج میں جو بگاڑ پیدا ہوا ہے، اس میں کچھ حصہ ان ڈرامہ نگاروں کا بھی ہے۔
آج کل نوجوان نسل کی جو عادات ہیں اور جس قسم کی زندگی وہ گزارنا چاہتے ہیں، اگر کالج و یونیورسٹی کی بات کریں تو وہاں پر لڑکیوں کے جو کرتوت ہیں اور جس طرح کی محفلوں میں وہ بیٹھنا چاہتی ہیں، کس طرح کا لباس پہنتی ہیں، یہ سب ان لڑکیوں کو کس نے سکھایا؟ یا کہاں پر ان نے یہ سب دیکھا؟ یہ بنیادی سوال ہے۔ ایک طرف تو سوشل میڈیا نے سب کچھ تبدیل کر دیا ہے اور دن بدن یہ تبدیلی بڑھ رہی ہے۔ ایک وقت تھا کہ نوجوان نسل میں شرم، حیا، احترام اور عزت تھی۔ گھر میں جب بڑے بات کرتے تھے تو چھوٹے خاموشی سے سنتے تھے، لیکن آج کل ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ نوجوان نسل کہتی ہے کہ ہم اچھی طرح سب کچھ جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔
ایک وقت تھا جب گھر میں کھانا پک رہا ہوتا تو تمام گھر والے خوشی سے کھانے کی میز پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے، لیکن آج کا نوجوان بس اپنی دنیا میں غرق ہے۔ وہ کھانے کے لیے آن لائن خوراک منگواتا ہے اور اکیلے بیٹھ کر کھاتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اکیلا پن اور یہ سب اسے کس نے سکھایا؟ لیکن وہ بھی ایک وقت تھا جب گھر میں سب شام کو کھانے کے لیے بیٹھ جاتے تو والد یا گھر کے بڑے بچوں سے پوچھتے تھے، آج کا دن کیسا گزرا؟ اس طرح پڑھائی کے بارے میں بھی پوچھتے تھے۔ ایک محبت و پیار کا رشتہ بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان تھا اور نوجوانوں کو یہ احساس ہوتا تھا کہ گھر کے بڑے نے مجھ سے تعلیم کے بارے میں بات کی ہے، ایسا نہ ہو کہ کل میں کم نمبر حاصل کروں۔

اس طرح لڑکیاں بھی یہ سوچتی تھیں۔ یہ رواج آج کل کے گھرانوں میں بھی ہے، لیکن پہلے کی نسبت کم ہے۔
موجودہ دور میں ڈرامہ ان چیزوں کے ارد گرد گھومتا ہے لڑکا، لڑکی، پیار محبت اور دولت۔ اگر پاکستانی ٹیلی ویژن ڈراموں کو دیکھیں تو لڑکا لڑکی کی عشق میں مبتلا ہوتا ہے اور لڑکی لڑکے کے عشق میں۔ ان ڈراموں میں لڑکا لڑکی کے پیچھے جانور کی طرح بھاگتا ہے۔ اس طرح کے سین بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں لڑکی دولت اور شہرت کی پیچھے جاتی ہے۔ میں زیادہ گہرائی میں نہیں جاتا، بلکہ ان ڈراموں کا سرسری حال بیان کرتا ہوں۔ آج کے ڈرامے ان مخصوص موضوعات پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ یہ ویسے خود بخود تو نشر نہیں ہوتے، بلکہ ان کو پہلے کوئی لکھتا ہے اور خاص ایجنڈے کے تحت لکھا اور بنایا جاتا ہے۔
جو یہ ڈرامہ لکھتا ہے، کیا اسے ایک لمحے کے لیے بھی یہ خیال نہیں آتا کہ میرے اس لکھے گئے ڈرامے سے معاشرے پر کیا اثر پڑے گا؟ کیا وہ یہ نہیں سوچتا اس کا نوجوان نسل پر کیا اثر پڑے گا؟ کیا وہ یہ نہیں سوچتا کہ میں نے جو لکھا ہے، کل کو میرے خاندان میں کسی کے ساتھ حقیقت میں ایسا ہو سکتا ہے؟ ہم نے تو سنا تھا کہ جو لکھاری ہوتا ہے، وہ معاشرے کا ایک اہم فرد ہوتا ہے، وہ معاشرے کے مسائل کے بارے میں سوچتا ہے اور پھر اپنا قلم اٹھا کر اس پر کچھ لکھتا ہے اور اس مسئلے کا حل نکالتا ہے، لیکن جو ہم نے سنا تھا وہ ایک افسانہ تھا۔
موجودہ دور میں جو ڈرامے بن رہے ہیں، ان کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ کسی نے لکھاری سے قلم خریدا ہے، سوچ، خیال اور فکر خریدار کا ہوتا ہے، لکھاری صرف لکھتا ہے، اور اس کا نام استعمال ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں ہر کوئی، بلکہ اکثریت لڑکیاں اور لڑکے کہتے ہیں کہ یہ ماڈرن دور ہے، وہ اس کو ماڈرنزم کہتے ہیں۔ لیکن یہ ماڈرنزم نہیں، بلکہ مائنس ماڈرنزم ہے، کیونکہ لڑکا لڑکی کی محبت اور عشق ہرگز ماڈرنزم نہیں ہے۔ پہلے وقتوں میں ڈرامے میں لڑکی کی سر پر دوپٹہ ہوتا تھا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ دوپٹہ کندھے تک آ گیا۔ جب دوپٹہ سر پر تھا تو سماج میں موجود خواتین کی سروں پر بھی دوپٹہ تھا، لیکن جب کندھے تک آیا تو معاشرے میں بھی خواتین کا دوپٹہ کندھے تک آ گیا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جب ڈرامے میں لڑکی نے دوپٹہ رسی کی طرح گلے میں ڈال لیا، اور پھر کچھ وقت بعد ڈراموں میں لڑکیاں جینز پہننے لگیں، تو معاشرے میں ایلیٹ کلاس کی لڑکیاں بھی ایسا کرنے لگیں۔ یہ آج کل ہم سماج و معاشرے میں روز دیکھتے ہیں۔
جہاں تک دوپٹے کی بات ہے، پاکستان میں غربت زیادہ ہے، دوسرا تعلیم کی کمی ہے۔ جب یہ نوجوان لڑکیاں موبائل پر اس قسم کے ڈرامے دیکھتی ہیں تو ان کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ مجھے کوئی ایسا امیر اور تعلیم یافتہ لڑکا ملے۔ بہت پہلے ایک شخص نے کہا تھا کہ آج تک کتنے بڑے بڑے اداکاروں اور اداکاراں نے پسند کی شادی کی ہے؟ اگر کی ہے تو ان میں اور دیکھنے والے اس غریب طبقے میں بہت فرق ہے۔ لڑکے بھی شریف نہیں، بلکہ وہ بھی حسین و جمیل اور مالدار لڑکی کی تلاش میں سوشل میڈیا اور عام زندگی میں مختلف حربے استعمال کرتے ہیں۔
موجودہ وقت کے نوجوانوں کو چاہیے کہ ڈرامے کو صرف ڈرامے کی نظر سے دیکھیں ڈراموں کو محض تفریح کے طور پر نہ دیکھیں، بلکہ انہیں ایک تعلیمی اور تربیتی زاویے سے دیکھیں۔ اچھے ڈراموں سے نوجوان نسل زندگی کے کچھ اہم سبق حاصل کر سکتے ہیں اس کے مقابلے میں، عشق و محبت جیسے موضوعات کی حقیقت میں کوئی خاص اہمیت نہیں، کیونکہ یہ زندگی کے حقیقی مسائل یا ترقی کے لیے اتنی بڑی ترجیح نہیں ہیں۔ نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی ذہنی اور اخلاقی نشوو نما کے لیے مفید مواد پر توجہ دیں اور جذباتی، رومانوی کہانیوں سے بچ کر حقیقت پسندانہ اور تعلیمی مواد کا انتخاب کریں۔

جواب دیں

Back to top button