Column

گندم کی کاشت اور کسانوں کے مسائل

تحریر : امتیاز یٰسین
روئے زمین پر نہ صرف عالم انسانی بلکہ جانوروں کے چارہ جات میں غذائی اعتبار سے سب سے زیادہ استعمال ہونے والی چاولوں کے بعد گندم اہم ترین اجناس ہے ۔ پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر گندم بطور آٹا سمیت متعدد بیکری آٹیمز اور دیگر ضروریات کے اعتبار سے گیہوں کو بنیادی اہمیت حاصل اور پاکستان کی میجر کراپ شمار ہوتی ہے۔ پاکستان گندم پیدا کرنے والے ممالک میں دنیا کے ساتویں نمبر پر ہے جہاں نو ملین ہیکٹر سے زائد رقبہ پر گندم کاشت ہوتی ہے جو اس کے کل رقبہ کا 80فیصد بنتا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے بھی شہریوں کو ماضی سے بدستور انہی اجناس جس میں چینی کو بھی شامل کیا جائے بحران، بلیک فروخت، مہنگائی اور قلت کا سامنا رہا ہے۔ جس کی بڑی وجہ حکومت کی کسانوں کو زرعی انقلاب کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سہولیات اور سرپرستی کے حوالے سے فرضی دعوے اور ناقص حکمتِ عملی ہے۔ مایوس کن مثال ماضی میں دیکھنے میں آئی جب پنجاب حکومت نے گندم کی امدادی قیمت 3900روپے من متعین کرنے کے باوجود سرکاری سطح پر خریداری کا عمل نہ کیا جس سے کسانوں کا مہنگے داموں گندم کی تیاری پر اٹھنے والے اخراجات اور دیگر ضروریات پوری کرنے کے لئے بھاری خسارے میں مڈل مینوں کو اونے پونے فروخت کرنا پڑی۔ محکمہ فوڈ نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سرکاری سطح پر گندم کی خریداری نہ کی جبکہ پاسکو ( پاکستان ایگری کلچرل سٹوریج اینڈ سروس کارپوریشن) نے جزوی محدود خریداری کی جب کسان دور دراز کے پاسکو سینٹرز پارلیمینٹرین کے سفارشوں کے ساتھ حصول باردانہ کے لئے مارا مارا پھرتا دکھائی دیا۔ فصلِ ربیع 2024/25کی اہم ترین فصل گندم کی کاشت کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ حکومت کی طرف سے حالیہ سیزن میں بھی گزشتہ سال کی طرح پنجاب میں ایک کروڑ چونسٹھ لاکھ ایکٹر وسیع رقبہ پر گندم کاشت کا ہدف دیا گیا ہے اور پیداوار گزشتہ سال کی نسبت تیس فیصد زیادہ توقع کی جارہی ہے جبکہ کہ گزشتہ سال چالیس من فی ایکٹر پیداوار کے ساتھ دو کروڑ چھپن لاکھ میٹرک ٹن پیداوار کی امیدیں لگائی گئی تھی۔ لیکن کسانوں کے لئے جو تشویش ناک امر ہے ابھی تک حکومت کا گندم کی منافع بخش امدادی قیمت مختص کرنا نہ ہی خریداری ہدف مقرر کا اعلان کرنا ہے جبکہ ماضی کی امدادی قیمت پر اگر خریداری کر بھی لی جائے تو پیداوار کسانوں کے فی ایکٹر ڈیڑھ لاکھ کے قریب تیاری اخراجات کو بھی پورا نہیں کرتے۔ اس غیر یقینی صورتِ حال میں جب گندم پر اٹھنے والے اخراجات دیگر تمام فصلات سے سب سے زیادہ ہیں کسان ربیع کی دیگر فصلات جس میں سرسوں، چنے، جو، دال مسور، سورج مکھی وغیرہ میں زیادہ دلچسپی لیتے دکھائی دیتے ہیں ۔ایسی بے یقینی میں مستقبل میں گندم کا بحران نمایاں ہوتا دکھائی دے رہا ہے جس کا اشارہ حالیہ گندم کی کم کاشت کے پیش نظر غذائی تحفظ کے سیکرٹری نے بھی دیا ہے۔انہی تحفظات کے پیش نظر گند برآمدات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ کسانوں کو امسال بلا سود کسان کارڈ کے ذریعے زرعی مداخل کی خریداری پر امداد دی گئی ہے لیکن زرعی مداخل جس میں ڈی اے پی، پیسٹی و ہربی سائیڈز اور فاسفورس، نائیٹروجنی، یوریا کھادیں سر فہرست ہیں اپنی انتہائی قیمتوں پر ہیں جس میں حالیہ ریٹس پچیس سو روپئے من میں فروخت ہونے والی گندم اپنی تیاری پر اٹھنے والے اخراجات بھی پورے کرنے سے قاصر ہے۔ حکومت نے کاشت کاروں کی حوصلہ افزائی کے لئے بارہ سے پچیس ایکٹر گندم کاشتہ کسانوں کے لئے 1000لیولرز جبکہ پچیس ایکڑ سے زائد گندم کاشتہ کسانوں کے لئے 1000ٹریکٹرز بذریعہ قرعہ اندازی مفت فراہمی کا اعلان کر رکھا ہے۔ لیکن امدادی اعلان کارگر دکھائی نہیں دے رہے ۔ آئی ایم ایف کی زرعی منڈیوں میں مخل کی شرائط سے قطع نظر فوری طور پر گندم کی حوصلہ افزا امدادی قیمت اور خریداری ہدف کا اعلان کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ گندم ہماری خوراک کا لازمہ ہے اس کا بحران ایک زرعی ملک کی ناقص زرعی پالیسیوں کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ ملکی غذائی ضرورت کا زیادہ تر انحصار پنجاب پر ہی ہے۔ ماضی کی طرح مارکیٹس میں دو نمبر کھادوں کی باز گشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ گندم کاشت اور منظم آبپاشی کے لئے متعدد نہریں نومبر کے اوائل سے ہی جزوی بندش کا شکار چلی آ رہی ہیں۔ ڈیزل کی قیمتیں بلند ترین سطح پر ہونے سے کسانوں کی پہنچ سے دور ہیں البتہ سولر کی استعمال سے کسانوں کے پانی کے مسائل کسی قدر کم ہوئے ہیں لیکن مسلسل موسمی دھند کے آگے سولر بے بسی کے عالم میں ہیں۔ کچھ علاقوں کا زیر زمین پانی بھی فصلات کے لئے غیر موزوں ہے جہاں نہری پانی ناگزیر ہوتا ہے۔ فصل خریف کی فصلات جن کا معاشی اعتبار سے فصل ربیع کی کاشت سے گہرا تعلق ہے باجرہ، مکئی، کپاس اور مونگ وغیرہ کے نرخ بھی انتہائی کم رہے ہیں۔ ترقی دادہ اقسام کو متعارف نہ کروانے اور محکمہ زراعت عملہ کا اپنے دفاتر تک محدود رہنے سے کاشتکار روایتی طریقہ کاشت استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ پرانے اور کم پیداوار والے بیج کاشت کر رہے ہیں۔ اکثر کسان مہنگی کھادوں پر قوت خرید مفلوج ہونے پر بغیر ڈی اے پی کے کاشت کر رہے ہیں جو کہ فصل کے لئے بنیادی غذائی ضروریات کے لئے اہم اور ناگزیر تھی۔ کاشتکار کو ایڈوائزی کے فقدان کا یہ عالم ہے کہ کسانوں کی آگہی کے لئے کوئی زرعی سیمینار نہیں رکھے گئے ہیں نہ ہی کھبی کسانوں نے زراعت عملہ کا چہرہ دیکھا، کسان کو آگہی کے پروگرام گراس روٹ لیول کی بجائے ہائی سطح پر رکھے جاتے ہیں جو عام کسانوں کی پہنچ سے دور ہیں۔ میڈیا یا سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی آگہی مہم سے صرف پچیس فیصد کاشتکار ہی مستفید ہو پاتے ہیں بقیہ سادہ لوح تُنک مایہ کاشتکاروں کا سوشل میڈیا سے کیا لینا دینا؟ جنوبی پنجاب میں خصوصاً سرگودھا، بھکر، لیہ جہاں ترشاوہ پھلوں کی مارکیٹ ہے ان پھلوں کی کساد بازاری سے باغات کے سودے نہیں ہو سکے، ایک ماہ سے زائد برداشت کا موسم شروع ہونے کو باوجود بھی پودے پھل سے لدے ہیں۔ ایڈوانس ہونے والے سودے مندے کی بنا پر بیوپاری حضرات چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں، مایوس کن صورتِ حال میں گزشتہ سال سے ہی باغبانوں نے باغات کو ٹمبر ڈیلر، لکڑ ہاروں کے ہاتھوں فروخت سے وسیع پیمانہ پر پودوں سمیت تلف کرنا شروع کر رکھا ہے جس سے ان علاقوں میں ترشاوہ پھلوں کے اتلاف سے مارکیٹ مستقبل میں معدوم و متروک اور جنگلی جانوروں کا اپنی بقا اور تولید کے لئے مسکن تباہ ہو جائے گا۔ ایسی بے قدری کی بڑی وجہ حکومت کا ترشاوہ پھلوں کے لئے نئی منڈیوں کا تلاش نہ کرنا ہے اور برآمدات کے لئے تاجروں کو سہولیات مفقود ہونا ہے۔ باغات کے مندے کے اثرات سے جہاں کسانوں کی معاشی کمر ٹوٹ گئی وہاں اس کے منفی اثرات گندم کر زرعی مداخل پورے نہ کر سکنے پر براہ راست گندم کی مناسب تیاری نہ ہو سکنے پر پیداوار پر بھی پڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ شعبہ زراعت سے ہمارا ستر فیصد طبقہ منسلک ہے اور اس سے ہی ہماری صنعتی ترقی کا دارومدار ہے، کسان خوشحال تو ملک خوشحال۔ فرضی و کاغذی پالیسیوں سے نکل کر موثر اور دور رس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ اس اہم مسئلے پر توجہ مذکور نہ کرنا مزید بدحالی و غذائی بحران کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

جواب دیں

Back to top button