غلام عباس اردو افسانے کی سلطنت کے معمار

تحریر : ایم فاروق قمر
17 نومبر 1909 ء کو امرتسر کے علمی گھرانے میں پیدا ہونے والے غلام عباس کا شمار ارد افسانے کی سلطنت کے معماروں میں ہوتا ہے۔ اگر اردو افسانے کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو ہمیں عظیم افسانہ نگاروں کی طویل فہرست نظر آتی ہے۔ حقیقت پسندانہ یا براہ راست ابلاغ کے حوالے سے جو افسانہ نگار شہرت کے آسمان پر پہنچے ان میں سے ایک نام غلام عباس کا بھی ہے۔ غلام عباس نے کبھی اپنے آپ کو کسی مخصوص نظریے کے تابع نہیں کیا۔ سعادت حسن منٹو کی طرح انسان اور انسانی صورت حال ان کا موضوع ہے۔ ان کے مشاہدے کی بے پناہ قوت نے ان کے افسانوں کو امر کر دیا ۔ انسان کے اندر ایک انسان تلاش کرنا غلام عباس کا پسندیدہ طریقہ کار ہے۔ اُن کے بیشتر افسانوں میں یہی انداز نمایاں ہے۔ انسانی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو ہر انسان کا ایک ظاہر ہوتا ہے ایک باطن ہوتا ہے۔ غلام عباس کے افسانوں میں مجبور طبقے کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں ۔ اور لوگوں پر حقیقت واضح کرتے ہیں کہ جرم کرنے والے آزاد ہیں اور مجبور طبقہ ساری عمر کیے گئے گناہوں کا ازالہ کرتے زندگی گزار دیتا ہے۔ سماجی بہروپ بھی غلام عباس کے افسانوں کا بنیادی موضوع رہا ہے اس حوالے سے ان کا افسانہ ’’ اوور کوٹ‘‘ اہم ہے۔ افسانے کی تمام محض خوبیاں اس میں موجود نہیں ہیں۔ زندگی سے متعلق ہر طرح کی بصیرت اس افسانے میں ملتی ہے۔ اوور کورٹ بظاہر ایک سیدھا سادہ سا بیانیہ ہے۔
غلام عباس کے اکثر افسانوں میں معاشرتی حقیقت نگاری کھل کر سامنے آتی ہے۔ نچلا اور متوسط طبقہ معاشرتی محرومیوں کے باعث اپنی خواہشات اپنے سینے میں دفن کر کے قبر میں چلا جاتا ہے۔ اس طبقے می محرومی اس کے نفسیاتی بحران کو جنم دیتی ہے۔ اس کشمکش میں انسان سوچتا ہے کہ وہ دنیا میں کیوں آیا یا دنیا میں آنے کا اس کا مقصد کیا تھا۔ اس حقیقت نگاری پر غلام عباس کا لکھا گیا افسانہ ’’ کتبہ‘‘ اہم ہے۔ شریف حسین کے ذریعے انہوں نے متوسط طبقے کی حقیقت کا نقشہ کھینچا ہے۔ ان کے افسانوں کی خوبیاں درج ذیل ہیں۔
حقیقت پسندی: غلام عباس کی تحریروں میں حقیقت پسندی کی جھلک نمایاں ہے۔ ان کے افسانے عام لوگوں کی زندگیوں پر مبنی ہوتے ہیں اور وہ معاشرتی اور سماجی مسائل کو بڑی دیانت داری سے بیان کرتے ہیں۔ ان کے افسانے سادہ لیکن زندگی کی حقیقتوں پر مبنی ہوتے ہیں۔
موضوعات کی وسعت: غلام عباس کے افسانوں کے موضوعات وسیع ہیں۔ ان کے یہاں معاشرتی مسائل، طبقاتی کشمکش، سیاسی طنز، انسانی فطرت، محبت اور نفرت، غم اور خوشی، سبھی کچھ موجود ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں زندگی کے ہر پہلو کو بڑی گہرائی سے پیش کرتے ہیں۔
فنی چابکدستی: غلام عباس نے افسانہ نگاری کے فن میں ایک خاص مہارت حاصل کی تھی۔ ان کے افسانے فنی اعتبار سے بے حد پختہ اور مکمل ہوتے ہیں۔ وہ کہانی کی تعمیر، کرداروں کی تخلیق اور پلاٹ کی ترتیب میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ ان کے افسانوں میں اکثر آغاز، وسط اور اختتام ایک بہترین ترتیب سے ہوتا ہے، جو کہانی کو ایک مکمل شکل دیتا ہے۔
کردار نگاری: غلام عباس کے کردار عام لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ اپنے کرداروں کو حقیقی زندگی کے لوگوں سے قریب تر رکھ کر پیش کرتے ہیں۔ ان کے کرداروں کی نفسیات اور ان کی سوچ کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے، جس سے قاری کو ان کرداروں کے ساتھ جذباتی لگاؤ محسوس ہوتا ہے۔
سادگی اور اختصار: غلام عباس کے افسانے سادہ اور مختصر ہوتے ہیں۔ وہ غیر ضروری تفصیلات سے گریز کرتے ہیں اور کہانی کے اصل جوہر پر توجہ دیتے ہیں۔ ان کی زبان سادہ اور رواں ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ان کے افسانے آسانی سے سمجھ میں آتے ہیں اور قاری کو متاثر کرتے ہیں۔
غلام عباس کے کئی افسانے اردو ادب میں کلاسیکی حیثیت اختیار کر چکے ہیں، اور ان میں ایک اوورکوٹ بھی ہے۔ اس افسانے میں ایک شخص کی کہانی بیان کی گئی ہے جو سردیوں میں ایک اوور کوٹ خریدنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ افسانہ انسانی خواہشات اور معاشرتی ناہمواریوں کی عکاسی کرتا ہی۔ اس افسانے کے ذریعے غلام عباس نے انسانی فطرت کے اندر چھپے ہوئے تضادات کو بڑی مہارت سے پیش کیا ہے۔
افسانہ کا مرکزی کردار نوجوان بھی اسی اذیت سے گزرتا ہوا نظر آتا ہے۔ جو روپ اس نے دھارا ہے وہ اس کی حقیقت نہیں ہے بلکہ اس نے خوشی سے یا مجبوری کے تحت اسے اپنایا ہے۔ بہرحال اسے اس لیے کرنا کیونکہ یہ اس کی معاشرتی ضرورت یا مجبوری ہے۔ یہ نوجوان جو شام کے وقت مال روڈ پر خراماں خراماں چل رہا ہے اس نے اپنی وضع قطع اپنے عہد کے بابو لوگوں والی بنائی ہوئی ہے۔ یعنی ایک خوبصورت اور صاف ستھرا اوور کوٹ زیب تن کیا ہوا ہے۔ سر پر فلیٹ ہیٹ ایک خاص انداز میں رکھی ہوئی ہے اور ہاتھ میں بید کی ایک چھڑی ہے۔ یہ سارا گیٹ اپ جو اس نے کیا ہوا ہے یہ اس کی اصل حقیقت نہیں ہے۔
اوور کوٹ’’ سماجی بہروپ کی‘‘ علامت ہے ۔ سماج میں انسان کی شناخت مصنوعی چہروں کی وجہ سے مشہور ہو چکی ہے۔ ہمارے سماج کا یہ المیہ ہے کہ ہم ظاہر دیکھتے ہیں باطن میں جھانکنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ جب ظاہری خول انسانی چہروں سے ہٹ جاتا ہے تو ہم خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں۔ اس افسانے کا بنیادی کردار ایک نوجوان ہے جو دیکھنے میں خوبصورت ہے لیکن جب حادثے میں اس کی موت ہوتی ہے تو اس کا اصل چہرہ سماج کے سامنے آ جاتا ہے ۔
غلام عباس اردو افسانہ نگاری کے ایک ممتاز اور اہم ستون مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی افسانہ نگاری سے اردو ادب کو نئے افق دئیے اور ان کے کام کو نہ صرف اردو ادب میں بلکہ عالمی سطح پر بھی سراہا گیا۔ غلام عباس کے افسانے مختصر ہوتے ہوئے بھی ایک مکمل دنیا کی عکاسی کرتے ہیں، جو ان کی فنی مہارت اور گہری بصیرت کا ثبوت ہے۔ غلام عباس نے کبھی اپنے آپ کو کسی مخصوص نظریے کے تابع نہیں کیا۔ سعادت حسن منٹو کی طرح انسان اور انسانی صورت حال ان کا موضوع ہے۔ ان کے مشاہدے کی بے پناہ قوت نے ان کے افسانوں کو امر کر دیا۔





