کامیابی سے کیسے بچائیں

تحریر : سیدہ عنبرین
امریکی انتخابات اپنے انجام کو پہنچے، ڈونلڈ ٹرمپ کامیاب ٹھہرے، خیال کیا جا رہا تھا اس حوالے سے بلند ہونے والے غلغلے میں کچھ کمی آئے گی لیکن سیاسی شور شراپا بڑھتا چلا جا رہا ہے اور ٹرمپ کے وائٹ ہائوس میں داخلے کے بعد مزید بڑھے گا۔ دنیا کے طاقتور ترین ممالک میں سے ایک کا صدر ہونا جہاں بے حد اہمیت کا حامل ہے وہاں اس کی ذمہ داریاں اور فیصلوں کی بھی بہت اہمیت ہے، اس کے فیصلے اس کی پالیسیاں اس کے حریفوں کے ساتھ ساتھ اس کے حلیفوں کو متاثر کرتی ہیں، امریکی انتخابات کے نتیجے میں ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ بحیثیت ملک اس کی پالیسیاں تبدیل نہیں ہوتیں لیکن اس حقیقت سے جڑی ایک اور حقیقت یہ ہے کہ صدر تبدیل ہونے کے بعد کم از کم پانچ ہزار ذمہ دار اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جاتے ہیں اور اتنی ہی تعداد میں نئے چہرے ان کی جگہ سنبھالتے ہیں، نیا آنے والا صدر اپنی ٹیم لاتا ہے، پرانی ٹیم ماضی بن جاتی ہے، تمام دنیا میں اسی طرح ہوتا ہے، ٹرمپ نے اپنی ٹیم میں نئے کھلاڑیوں کا انتخاب شروع کر دیا ہے، ان نئے کھلاڑیوں نے نہایت خاموش سے نئی ہدایات پر عمل بھی شروع کر دیا ہے، اہم ملکوں میں سفیر، پینٹاگون میں عہدیدار تبدیل ہوں گے، کثیر سرمائے کے بل بوتے پر امریکی صدر کا قرب حاصل کرنے والے نہیں بلکہ یہ قرب خریدنے والے ایلون مسک دنیا بھر کی کاروباری شخصیات کی توجہ کا مرکز ہیں، ٹرمپ نے انہیں نیا ستارہ قرار دیا ہے، جبکہ ایلون مسک کی لابی سے تعلق رکھنے والے انہیں قطبتی ستارہ قرار دے رہے ہیں، جو اندھیری راتوں میں اپنی چمک برقرار رکھتا ہے اور صحرائوں میں راہیں کھو دینے والوں کو درست سمت کا تعین کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ایلون مسک کی ایرانی سفیر سے ملاقات کو خفیہ رکھا گیا، یہ ملاقات کسی خفیہ مقام پر ہوئی، لیکن اڑتی اڑتی خبر کسی نہ کسی انداز میں بین الاقوامی میڈیا تک پہنچ گئی، عین ممکن ہے یہ سب کچھ اسی طرح ہوا ہو جس طرح ترقی پذیر ملکوں اور معاشروں میں بالخصوص پاکستان میں ہوتا ہے۔ صیغہ راز میں رکھنے والی بات ایک خاتون اپنی عزیز ترین سہیلی کے کان میں کہتی ہے اور ساتھ ہی تاکید کرتی ہے یہ بات میں صرف تم سے کہہ رہی ہوں، بس اسے اپنے تک ہی رکھنا، وہ سہیلی یہ بات اپنی ایک اور سہیلی سے کہتی ہے، وہاں سے اور پھر کئی سہیلیوں سے ہوتی ہوئی وہ راز کی بات پورے شہر کرے علم میں آ جاتی ہے۔ گمان ہے ملاقات کی بات ایلون مسک کی طرف سے باہر آئی ہے یا منصوبے کے تحت باہر نکالی گئی ہے، کیونکہ ایرانی سفارتکاروں کی تربیت مختلف قسم کی ہوتی ہے، وہ بات اس وقت منہ سے نکالتے ہیں جب وہ ضروری ہو۔ اس ملاقات میں قیاس کے مطابق جنگ فلسطین تو یقینا مرکز گفتگو ہو گی، اس کے علاوہ ایران پر عرصہ دراز سے عائد پابندیوں کے حوالے سے بھی کچھ نہ کچھ ضرور کیا اور سنا گیا ہو گا۔
ٹرمپ کوارٹرز سے تعلق رکھنے والی ایک اور اہم شخصیت ہاپکنز یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ولی نصر پاکستان کے دورے پر ہیں، انہیں صرف واشنگٹن ہی نہیں ڈونلڈ ٹرمپ سے تعلق کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔ ولی نصر کی پاکستان میں اہم شخصیات سے ملاقاتوں کا شیڈول کسی کے علم میں نہیں لیکن ان کے پاکستان آنے کی ٹائمنگ کے حوالے سے ان کے دور ے کو اہم کہا جا سکتا ہے، وہ پاکستان میں کسی ایک شخصیت سے ملاقات کرنے نہیں آئے بلکہ وہ نوری اور ناری دونوں طبقات کے نمائندوں سے ملیں گے، بعض حلقے ان کی آمد کو اپوزیشن راہنما کی 24 نومبر کیلئے دی گئی کال اور دوسری طرح انہیں اس کال کو واپس لینے والوں کے حوالے سے جوڑ کر نتیجہ نکالتے نظر آتے ہیں، اس حوالے سے اگر دال میں کچھ کالا ہے بھی تو فی الفور سامنے نظر نہیں آئے گا بلکہ پردے میں چھپا رہے گا، امریکی ذرائع سے ملنے والی خبروں کے مطابق ایک کو نہیں تمام فریقین کو فیس سوینگ ملے گی، یوں کہا جا سکے گا میچ میں نہ کوئی جیتا نہ کوئی ہارا، میچ برابری پر ختم ہوا، میچ کا فیصلہ جس وجہ سے بھی نہ ہو سکے کریڈٹ موسم اور موسمی بارش کو دیا جائے گا، فیصلے کے بعد ہی سیاسی سموگ چھٹ سکے گا، ان کے علاوہ کوئی اور صورت نظر نہیں آتی، سیاسی سموگ کا بدترین اثر ملک کی اقتصادیات میں نمایاں ہونے لگا ہے، قرضے ری شیڈول کرانے والے اور نئے قرضوں کے حصول میں کامیاب ہونے والے تہہ دل سے مانتے ہیں کہ معاشی حالات دگرگوں ہیں۔ صورت وہی ہے جسے کہتے ہیں ’’ گلی میں آیا تلی پہ کھایا‘‘، اس طرح مزید چند ماہ تو شاید گزر جائیں لیکن اس سے زیادہ نہیں گزر ممکن نہیں۔
24نومبر کی کال کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے یا مس کال ثابت ہوتی ہے، سب جانتے ہیں انجام کیا ہو گا لیکن گونگے بنے بیٹھے ہیں، کوئی لب کشائی کو تیار نہیں، پاکستان ٹیلی ویژن کے مشہور زمانہ ڈرامے ففٹی ففٹی کے ایک ایپی سوڈ میں دکھایا گیا کہ ماواڈی سیٹھ فلم کے پراجیکٹ پر اپنی ٹیم کے ساتھ مشاورت کر رہا ہے، فلم کے ڈائریکٹر اور کہانی کار ساتھ بیٹھے ہیں، سیٹھ صاحب فلم کا سکرپٹ پڑھ کر کہتے ہیں اوے یار یہ تو ایک دم ٹھنڈا سکرپٹ ہے، اس پر فلم بنائی تو میرا تمام سرمایہ ڈوب جائے گا، ان کی بات سن کر رائٹر اور ڈائریکٹر پریشان ہو جاتے ہیں کہ فلمساز سیٹھ صاحب کہیں فلم بنانے کا آئیڈیا ہی ترک نہ کر دیں، وہ صورتحال سنبھالنے کی کوششیں کرنے لگتے ہیں لیکن سیٹھ صاحب کی تسلی نہیں ہوتی، سیٹھ صاحب اپنے دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر جھلا کر کہتے ہیں اوے بابا یہ بہت ہی ٹھنڈا فلم ہے، اس میں کچھ ’’ قتل متل‘‘ ڈالو، کچھ ’’ ایکشن میکشن‘‘ ڈالو، ڈائریکٹر سکرپٹ میں کچھ ایکشن اور ایکشن کے نتیجے میں ہیرو، ہیروئن دونوں کے قتل کا سین ڈال دیتا ہے۔ سیٹھ صاحب خوش ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں اب فلم دیکھنے والے سینما ہال سے روتے ہوئے نکلیں گے اور ہم ہنستے ہوئے۔
حکومت کی پریشانی 24نومبر کے حوالے سے صرف یہی ہے کہ اگر دو چار ’’ قتل متل‘‘، یعنی ماڈل ٹائون والا سین ہو گیا تو پھر کیا ہو گا، سب سر کر بیٹھے ہیں اور سوچ رہے ہیں فلم کو کامیابی سے کیسے بچائیں۔





