سکھ کی بانسری

تحریر : صفدر علی حیدری
روم کے شہنشاہ نیرو کے بارے میں یہ ضرب المثل مشہور ہے ۔
’’ جب روم جل رہا تھا تو نیرو سُکھ اور چین کی بانسری بجا رہا تھا ‘‘
روم کو آگ لگانے کا الزام بھی نیرو کو ہی دیا جاتا ہے اور یہ کہ اس نے ایسا جان بوجھ کر کیا تھا۔ نیرو کو تاریخ کے ایک ایسے سفاک حکمران کے طور پر جانا جاتا ہے جس نے اپنی ماں، سوتیلے بھائی اور بیویوں کو قتل کرایا اور اپنے دربار میں موجود خواجہ سرائوں سے شادیاں کیں ۔ سنہ 54عیسوی میں صرف سولہ برس کی عمر میں اپنی ماں کی کاوشوں کی وجہ سے وہ ایک ایسی سلطنت کا سربراہ بنا جس کی سرحدیں ہسپانیہ سے لے کر شمال میں برطانیہ اور مشرق میں شام تک پھیلی ہوئی تھیں ۔ نیرو کو تخت کی بھوکی اس کی ماں اگرپینا نے محلاتی سازشیں اور جوڑ توڑ کر کے اقتدار دلا ویا۔ اگرپینا نے اپنے ’ انکل‘ شہنشاہ کلاڈیئس سے شادی کی اور پھر نیرو کی شادی بادشاہ کی بیٹی سے کرائی جس سے وہ شاہی خاندان کا ایک رکن بننے کے علاوہ بادشاہ کا وارث بھی بن گیا باوجود اس کے کہ بادشاہ کا اپنا ایک بیٹا تھا۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اگرپینا نے بادشاہ کلاڈیئس کو زہر آلود ’ مشروم‘ یا کھمبیاں کھلا کر قتل کیا لیکن یہ روایت کس حد تک درست ہے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ نیرو نے جب اقتدار سنبھالا تھا تو اس کی ماں اگرپینا اس کی سب سے قریبی مشیر تھیں یہاں تک کے روم کے سکوں پر نیرو کی تصویر کے ساتھ ان کی تصویر بھی ہوتی تھی۔ لیکن نیرو نے اقتدار سنبھالنے کے تقریباً پانچ برس بعد اپنی ماں کو قتل کروا دیا۔ غالباً اس لیے کہ وہ زیادہ اختیار اور آزادی کی ہوس میں مبتلا تھا۔ نیرو کی جانب سے اپنی ماں پر کروایا جانے والا پہلا قاتلانہ حملہ ناکام رہا تھا۔ نیرو نے ساحل سمندر پر ایک تقریب میں اپنی ماں کو مدعو کیا اور اس کے بعد انھیں ایک ایسے بحری جہاز میں واپس بھیجنے کا منصوبہ بنایا جس کے راستے ہی میں ڈوب جانے کی سازش کی گئی تھی لیکن اس قاتلانہ حملے میں وہ بچ گئیں ۔ اس کے بعد نیرو نے اپنی ماں پر بغاوت کا الزام لگایا اور لوگوں کو بھیج کر اس کو مروا دیا ۔ قدیم روم کی ماہر پروفیسر ماریا وائیک کہتی ہیں ’’ نیرو کی ماں کا رویہ بہت حاکمانہ تھا اور ایک روایت کے مطابق وہ اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوشش میں اس حد تک آگے بڑھ گئیں کہ بیٹے کے ساتھ جنسی فعل سے بھی گریز نہیں کیا ‘‘، ان کے مطابق نیرو اور اس کی ماں کے جنسی تعلقات کے بارے میں کوئی تاریخی ثبوت موجود نہیں ہے لیکن روایات کے مطابق نیرو کی طرف سے بھیجے گئے جلاد جب اگرپینا کے پاس پہنچے تو اس نے اپنے پیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انھیں وہاں چاقو مارا جائے، ’’ جہاں نیرو کا گناہ پل رہا ہے ‘‘، کہتے ہیں نیرو نے اپنے بچپن میں اقتدار کی رسہ کشی کا ماحول دیکھا جس سے اس کی شخصیت اور سوچ پر گہرا اثر پڑا۔ ماریا وائیک نے اس دور پر جس میں نیرو نے ہوش سنبھالا روشنی ڈالتے ہوئے کہا ’’ ہم پہلی صدی کی بات کر رہے ہیں جب روم کی سلطنت یورپ میں برطانیہ سے لے کر ایشیا میں شام تک پھیلی ہوئی تھی۔ لیکن یہ وسیع و عریض سلطنت عدم استحکام کا شکار تھی اور ایک خود مختار سربراہ سینیٹ کی معاونت سے اس کو چلاتا تھا۔ سلطنت روم کے پہلے شہنشاہ آگسٹس نے اس سلطنت میں اقتدار میں شامل افراد میں برابری کا ایک تصور پیش کیا تھا۔
روم کے پہلے شہنشاہ آگسٹس سیزر نے جو نظام متعارف کروایا تھا اس میں وہ پشت در پشت اقتدار ایک ہی جولیس کلاڈیئس بھی سیزر خاندان میں رکھنا چاہتے تھے۔ اس کے نتیجے میں خاندان کے اندر اقتدار کے حصول کے لیے کشمکش پیدا ہو گئی۔ اقتدار کے حصول کے لیے خاندان میں شادیاں، بچوں کو گود لینا، طلاقیں، ملک بدری، جلاوطنی کے علاوہ اپنے مد مقابل کو راستے سے ہٹانے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کیے جاتے تھے۔ سلطنت روم کے دوسرے بادشاہ ٹائبیریس کے دور میں نیرو کی دادی کو زنداں میں ڈال دیا گیا۔ تیسرے بادشاہ کے دور میں نیرو کی ماں کو جلا وطن کر دیا گیا۔ کلاڈیس کے دور میں نیرو کی ماں کی واپسی ممکن ہوئی اور انہوں نے بادشاہ سے جو کہ ان کے ’ انکل‘ بھی تھے ، شادی کر کے شاہی خاندان میں اپنی جگہ بنائی ۔ سلطنت روم کے چوتھے شہنشاہ کلاڈیئس سنہ 41سے 54عیسوی تک اقتدار میں رہے۔ کلاڈیس اپنے اقتدار کے آخری دور میں اپنی بیویوں پر بہت انحصار کرنے لگے تھے جن میں نیرو کی والدہ اگرپینا بھی شامل تھیں۔ ان بیویوں میں ’ ایک نہایت ہی بدنام خاتون‘ مسلینا کے بارے تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس نے کلاڈیس کے گرد اپنے حواریوں کا جال بچھایا ہوا تھا ۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سینیٹروں کے ساتھ جسمانی مراسم رکھتی تھیں اور اپنی ہوس کی تسکین کے لیے اپنے مرتبے کا خیال بھی نہیں رکھتی تھیں ۔ تاریخ بتاتی ہی کہ کلاڈیس بڑی حد تک اس کے زیر اثر تھے ۔ نیرو کے ابتدائی دنوں میں ان کے ارد گرد کچھ اچھے لوگ تھے جن میں سینیکا اور ایفریکس بروس نام کے ایک پریفیکٹ شامل تھے۔ سینیکا ایک فلسفی اور نیرو کی تقاریر لکھنے والے شخص تھے۔ جب نیرو اپنی پہلی بیوی اوکٹیویا سے تنگ آ گیا تو اس نے اسے جلا وطن کر دیا اور اسے قتل کرنے کا حکم دیا۔اس کے بعد نیرو کو پوپیا سے محبت ہوئی اور دونوں کی شادی ہوگئی۔ پوپیا جب حاملہ تھی تو نیرو نے ایک دن طیش میں اسے بھی قتل کر دیا۔ نیرو کے اقتدار کے پہلے پانچ برسوں کو روم کے لوگوں کے لیے سنہری دور قرار دیا جاتا ہے۔قدیم روم میں سینیٹ انتظامی اور مشاورتی ادارہ تھا۔ نیرو نے روم کی سینیٹ کو مزید اختیارات دئیے ، روم کی افواج کو اپنے ساتھ اور مطمئن رکھا اور کھیلوں کے مقابلے منعقد کروا کے عام عوام میں مقبولیت حاصل کی ۔ لیکن یہ ابتدائی کامیابیاں نیرو کے اقتدار کے باقی دور میں ہولناک تشدد کی وجہ سے ماند پڑ گئیں۔
نیرو اپنے کردار کی وجہ سے تاریخ اور ادب میں برائی اور بدکرداری کی ایک علامت بن کر رہ گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ نیرو نے اپنے ابتدائی دنوں میں سینیٹ کو یقین دلایا کہ کلاڈیس کے دور میں سینیٹ کو جس طرح نظر انداز کیا جاتا رہا ان کے دور میں ایسا نہیں ہو گا اور امور مملکت میں اس ادارے کی اہمیت بحال ہو گی ۔ اس نے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ روم کی فوج ’’ پریٹورین گارڈ‘‘ کو تنخواہوں کی ادائیگی وقت پر کی جائے گی ۔ ان ابتدائی دنوں میں نیرو نے روم کے بہت سے معاملات سینیٹ پر چھوڑ دئیے۔ نیرو نے یہ باور کرانے کی کوشش بھی کی کہ وہ ’’ بغاوت کے مقدمات‘‘ نہیں کیے جائیں گے جن کے ذریعے سینیٹ کے ارکان ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتے تھے ۔ اپنے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں سینیٹ کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کی اور یہ یقین دلانا چاہا کہ وہ ان کے لیے اور روم کے لیے ایک بہتر حکمران ثابت ہوں گے ۔ اس کے ساتھ ہی نیرو نے روم کے عوام کو خوش کرنے کے لیے سنہ 54عیسوی میں یونان کی طرز پر بہت بڑے پیمانے پر کھیلوں کا انعقاد کروایا ۔ ان کھیلوں میں عوام کی تفریح کیلئے بھی بہت سی چیزیں مثلاً سرکس وغیرہ خصوصی طور پر شامل کیے گئے تھے۔ جدید دور میں بھی جیسے حکمران اپنے ابتدائی دنوں میں بہت سے ایسے اقدامات لیتے ہیں جو عوام میں ان کی مقبولیت میں اضافہ کرتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ اپنی طرز حکمرانی سے وہ زوال کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ نیرو کی عوامی مقبولیت کافی حد تک ان کے آخری دنوں تک برقرار رہی تھی ۔ وہ جولیس کلاڈیئس خاندان کے پانچویں اور آخری بادشاہ تھے ۔ جب نیرو اقتدار میں آئے تو ان کے سامنے مسائل کا ایک انبار تھا ۔ بظاہر انہوں نے انتقال اقتدار کے ایک مستحکم نظام کے تسلسل میں اقتدار سنبھالا تھا ۔ لیکن اقتدار کے حصول کے لیے خاندان کے اندر شدید کشمکش پائی جاتی تھی۔ خاندانی سیاست اور سازشیں عروج پر تھیں۔ اس کے علاوہ سینیٹ کی اشرافیہ تھی جس کو مطمئن رکھنا ضروری تھا اس کے علاوہ صوبائی گورنر تھے جن کے پاس فوج بھی ہوا کرتی تھی ۔ سب سے بڑھ کر روم کے عوام تھے اور ان کی کھیلوں اور میلوں میں دلچسپی تھی ۔ نیرو کے دور میں سلطنت وسیع تو نہیں ہوئی لیکن اس میں استحکام قائم رکھنا بھی ایک بڑا چیلنج تھا ۔ فتوحات نہ ہونے کی وجہ سے مال غنیمت آنا بھی بند ہو گیا تھا اور ایسی صورت حال میں استحکام برقرار رکھنا مزید دشوار ہو جاتا ہے ۔ سنہ 64عیسوی میں روم جل کر راکھ ہو گیا تھا۔ افواہیں یہ تھیں کہ سلطنت کے شہنشاہ نیرو نے خود یہ آگ لگوائی تھی اور بعد میں یہ کہا جانے لگا کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ کہا جاتا ہے نیرو نے خود روم میں آگ لگوائی تھی تاکہ اس کی تعمیر نو کی جا سکے۔ نیرو اپنا مشہور گولڈن ہائوس تعمیر کرنا چاہتا تھا۔ لیکن بعض تاریخ داں نیرو کے حق میں یہ دلیل استعمال کرتے ہیں کہ یہ آگ اس نے نہیں لگوائی تھی کیوں کہ اس کا اپنا محل اس آگ کی زد میں آ گیا تھا۔ جو لوگ نیرو کو قصور وار کہتے ہیں، ان کی دلیل یہ ہے کہ جب شہر جل رہا تھا تو نیرو نے خصوصی لباس پہن کر گانا شروع کر دیا تھا۔ نیرو نے بعد میں شہر کی تعمیر نو بہت بہتر انداز میں کی۔ کشادہ سڑکیں بنائی گئیں تا کہ دربارہ آگ اتنی تیزی سے نہ پھیل سکے اور بہتر تعمیراتی سامان استعمال کیا گیا ۔یہ بات کس حد تک درست ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا، اس بارے میں میتھیو کا کہنا ہے کہ بانسری تو ساتویں صدی کی ایجاد ہے اور نیرو کے دور میں بانسری نہیں ہوتی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نیرو ایک ساز بجاتا ضرور تھا جسے Lyre کہا جاتا ہے۔ اس دور میں روم میں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد بہت کم تھی اور عام لوگوں کو مسیحیوں کے مذہبی عقائد کے بارے میں بہت کم علم تھا اور ان کے بارے میں نفرت انگیز جذبات پائے جاتے تھے۔ اسی وجہ سے مسیحیوں کو مورد الزام ٹھہرانا بہت آسان تھا جس پر عام عوام نے بڑی آسانی سے یقین کر لیا۔ نیرو نے اس کے بعد مسیحی برادری کے افراد کو آگ لگانے کی سزا کے طور پر ظلم کا نشانہ بنایا ۔ ان کو سرے عام پھانسیاں دی گئیں، جنگلی بھیڑیوں کے آگے ڈالا گیا، رات کے وقت ان کو زندہ جلایا جاتا تھا اور عوام کو یہ نظارہ دیکھنے کے لیے جمع کیا جاتا تھا۔
اس واقعے کے بعد نیرو نے ایک عالیشان محل تعمیر کروایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں ایک ’’ گولڈن روم‘‘ تھا جس میں پرتعیش فرنیچر اور اس کمرے میں خوشبو کے لیے دیواروں کے اندر پرفیوم کے پائپ نصب کیے گئے تھے ۔ اس محل کی تعمیر پر وسیع ذخائر خرچ ہوئے لیکن یہ کبھی مکمل نہیں ہو سکا۔ ایک ایسا شہر جو راکھ کے ڈھیر سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا وہاں کے عوام اس محل کی تعمیر سے خوش نہیں تھے جن سے بظاہر یہ کہا گیا تھا کہ اسے ان کے لیے کھولا جائے گا اور وہاں کھیل اور تقریبات منعقد ہوں گی ۔ نیرو نے اداکاری کے لیے یونان کا رخ کیا ۔ اسے آلہ موسیقی لائر
بجانے اور گانے کا شوق تھا ۔ نیرو نے سٹیج پر اداکاری بھی کی اور شہنشاہ کا یہ شوق سینیٹ کی نظر میں ایک رومن رہنما کے شایان شان نہیں تھا ۔ لیکن نیرو کو کسی کی سوچ کی فکر نہیں تھی اور وہ ایک سال کی رخصت لے کر یونان چلا گیا جہاں اس نے تھیٹرز میں اداکاری کے مقابلوں میں حصہ لیا ۔ کہا جاتا ہے کہ نیرو جب بھی سٹیج پر کسی المناک کہانی کو پیش کرتے ہوئے ہیروئن کا کردار ادا کرتا تھا تو اپنی دوسری بیوی پوپیا کا ماسک پہن لیتا تھا، جس کا بظاہر مقصد یہ تھا کہ وہ اس کے قتل پر جرم کے احساس اور غم میں مبتلا ہے ۔ 30برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے نیرو کی مخالفت اور بدنامی میں بہت اضافہ ہو چکا تھا۔ فوج کی حمایت سے سینیٹ نے نیرو کو عوام کا دشمن قرار دے دیا جو ایک طرح سے اس کی موت کا فرمان تھا۔ مطلب یہ کہ نیرو کہیں بھی نظر آئے تو اسے مار دیا جائے ۔ سکیورٹی حکام تعاقب میں تھے ، نیرو رات کی تاریکی میں بھاگ کر شہر کے مضافات میں واقع اپنے ایک محل میں چھپ گیا اور خودکشی کر لی۔
کہا جاتا ہے کہ اس کے آخری الفاظ تھے Qualis artifex pereo۔ ماہرین کہتے ہیں کہ نیرو کے آخری لمحات میں کہے گئے ان الفاظ کا عین مطلب اخذ کرنا مشکل ہے لیکن اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں: ’’ میں اپنی موت میں بھی ایک فنکار ہوں ‘‘، ’’ وہ کیا ہی فنکار ہے جو میرے ساتھ مر رہا ہے ‘‘، ’’ میں ایک تاجر کی طرح مر رہا ہوں ‘‘۔
نیرو کے ان الفاظ کا مطلب جو بھی ہو لیکن اس کے آخری الفاظ اس کے کردار کی طرح ہی ڈرامائی تھے ۔ نیرو کو چھوڑ کر پاکستان کا رخ کرتے ہیں، جہاں سموگ کی وجہ سے عوام پریشان ہیں مگر حکمران نیرو کی طرح سکھ چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ کبھی خبر آتی ہے کہ سرجری کرانے گئے ہیں۔ کبھی خاندان کے مالی معاملات کی بات کی جاتی ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ گلے میں کچھ مسئلہ ہے۔ خود تو گئے ہی تھے ، پرس اٹھانے کے لیے ایک خاتون وزیر بھی ساتھ لے گئے۔ اتنے برس حکومت کی مگر ایک بھی ایسا ہسپتال نہ بنوا سکے جس میں خود ان کا علاج ہو سکتا۔ کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت تھی کہ وہاں ایک بار ڈینگی وائرس کا حملہ ہوا۔ کپتان کچھ دن پہاڑ پر چھٹیاں منانے گیا ہوا تھا تو ایک بڑبولے سیاست دان نے یہی کہا تھا کہ روم جل رہا ہے مگر نیرو چین کی بانسری بجا رہا ہے۔
سیانے سچ کہتے ہیں کہ بڑے بول نہیں بولنے چاہئیں، اسی لاکھ ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کے سامنے جھکنے کا طعنہ دینے والے آج آئی ایم ایف کے سامنے لیٹ چکے ہیں۔ تمام مطالبات مان چکے ہیں۔ یہ تک کہہ چکے ہیں کہ سارے کا سارا بجٹ آئی ایم ایف نے بنایا ہے۔ صوبے سموگ کی لپیٹ میں ہے اور سب سے بڑے صوبے کی وزیر اعلیٰ بیرون ملک۔ ہمیں اپنے کام سے غرض ہے، عوام جائیں بھاڑ میں۔
خواجہ آصف اب کیوں نہیں کہتے
’’ کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوئی ہے ۔۔۔ پر ہمیں کیا پتہ کہ وہ کیا ہوتی ہے ‘‘







