آئی سی سی ( انڈین کرکٹ کونسل)

شہر خواب ۔۔۔
صفدر علی حیدری
ابو ریحان محمد بن احمد المعروف البیرونی ، ایک بہت بڑے محقق اور سائنس دان تھے۔ وہ خوارزم کے مضافات میں ایک قریہ، بیرون میں پیدا ہوئے اور اسی کی نسبت سے البیرونی کہلائے۔ البیرونی بو علی سینا کے ہم عصر تھے۔ خوارزم میں البیرونی کے سرپرستوں یعنی آلِ عراق کی حکومت ختم ہوئی تو اس نے جرجان کی جانب رخت سفر باندھا ۔حالات سازگار ہونے پر البیرونی دوبارہ وطن لوٹے اور وہیں دربار میں عظیم بو علی سینا سے ملاقات ہوئی۔ کتاب الہند اس کی ایک معروف تصنیف ہے۔ اس کتاب قدیم میں ہندوستان کی تاریخ، رسوم و رواج اور مذہبی روایات کے ذیل میں صدیوں سے مورخین کا ماخذ رہی ہے اور آج بھی اسے وہی اہمیت حاصل ہے ۔ ایڈورڈ سخائو نے سب سے پہلے اس کا جرمن ترجمہ شائع کیا، بعد ازاں Albiruni’s Indiaکے نام سے انگریزی میں پیش کیا جبکہ پہلا اردو ترجمہ سید اصغر حسین نے کیا جو انجمن ترقی اردو سے شائع ہوا۔
کتاب الہند لکھنے کے لیے البیرونی نے سال ہا سال تک پنجاب میں مشہور ہندو مراکز کی سیاحت کی،سنسکرت جیسی مشکل زبان سیکھ کر قدیم سنسکرت ادب کا براہ راست خود مطالعہ کیا ۔ پھر ہر قسم کی مذہبی، تہذیبی اور معاشرتی معلومات کو ، جو اہل ہند کے بارے میں اسے حاصل ہوئيں ، اس کتاب میں قلم بند کیں ۔ اس کتاب میں ہندو عقائد ، رسم و رواج کا غیر جانبدرانہ اور تعصب سے پاک انداز میں جائزہ لیا گیا ہے ۔ یہ پہلی کتاب ہے جس کے ذریعے عربی دان طبقہ تک ہندو مت کے عقائد و دیگر معلومات اپنے اصل مآخذ کے حوالے سے پہنچیں ۔ البیرونی کی ہندوستان آمد1019ئ میں ہوئی ۔ ہندوستان میں البیرونی نے کم و بیش دس سال گزارے اور اس دوران ہندو مذہب کے متعلق بہت سی معلومات حاصل کیں۔ یہ تمام معلومات زیر مطالعہ کتاب کا حصہ ہیں۔ ہندوئوں کے ہاں تصور خدا کیا ہے؟ دنیا سے نجات پانے کے کیا راستے ہیں؟ ہندوئوں کے دیگر مذاہب کے بارے میں کیا نظریات ہیں؟ اور بیوی کو خاوند کے ساتھ ستی کرنے کی کیا وجہ ہے؟ ہندو ازم سے متعلق یہ اور اس طرح کے دیگر بہت سے حقائق کو نہایت عرق ریزی کے ساتھ اس کتاب میں بیان کر دیا گیا ہے۔ اس کتاب کو ہندوئوں سے متعلق معلومات کا انسائیکلو پیڈیا کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
تاریخی قلعہ نندنا ضلع جہلم کی تحصیل پنڈ دادن خان میں واقع ہے جہاں اس نے محیط ارض معلوم کیا تھا ۔ جدید تحقیق ناسا کے مطابق یہ ریڈئیس تقریباً 6371کلومیٹر مانا جاتا ہے۔ البیرونی نے زمین کا ریڈئیس 6335کلو میٹر ناپا تھا جو ناسا کی موجودہ اور نئی تحقیق کے مطابق کچھ فرق کے ساتھ درست مانا جاتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کے بقول ہندو یہ یقین رکھتے ہیں کہ نہ ان کے ملک کے علاوہ کوئی ملک ہے نہ کوئی قوم آباد ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ علم و عقل دشمن نظریہ اب بھی جنونی ہندوئوں میں موجود ہے۔ یقین نہ آئے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ کی تاریخ پر ایک نظر ڈال لیجئے، پاک بھارت تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے۔ جنگوں کو تو چھوڑیے ، دور امن میں بھی یہ کشیدگی کا شکار کا رہے ہیں۔ بھارت گزشتہ 14سال سے پاکستان کی سر زمین پر کوئی میچ نہیں کھیلا ہے ۔ آخری بار انڈیا کی ٹیم ایشیا کپ 2008ء میں پاکستان آئی تھی ، جب کہ پاکستان نے 2012ء میں ایک روزہ میچوں کی سیریز انڈیا میں کھیلی تھی۔ اس لحاظ سے دونوں ممالک کو آپس میں کوئی میچ کھیلے ہوئے دس برس بیت چکے ہیں۔ البتہ آئی سی سی کے کسی بھی ایونٹ میں دونوں ممالک بارہا سامنے آ چکے ہیں ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان اب تک کل پندرہ سیریز کھیلی گئی ہیں ۔ بھارت نے آخری بار دو ہزار چار پانچ میں پاکستان میں کوئی سیریز کھیلی تھی ۔ جب کہ پاکستان نے دو ہزار سات آٹھ میں دورہ بھارت کیا تھا ۔ پاکستان آٹھ مرتبہ انڈیا گیا جب کہ سات بار انڈیا کی ٹیم سیریز کھیلنے پاکستان آئی ۔پاکستان کا انڈیا کے خلاف ٹیسٹ اور ون ڈے ریکارڈ بہت اچھا ہے ۔ ہم نے 59ٹیسٹ میچوں میں سے 12جیتے ہیں اور 9ہارے ہیں، ون ڈے میچ 135کھیلے ہیں جن میں سے 73جیتے ہیں اور 57ہارے ہیں ۔ البتہ ٹی ٹونٹی میں ہمارا ریکارڈ برا ہے ۔ ہم نے 3میچ جیتے جبکہ 8میں شکست کھائی ہے۔ یوں تو بھارت کی ہٹ دھرمی کی تاریخ خاصی پرانی ہے لیکن ہم شارجہ کپ سے بات کا آغاز کرتے ہیں۔ انیس سو پچاسی چھیاسی میں پاکستان نے میاں داد کے تاریخی چھکے کی بدولت کپ جیتا ۔ یہ تاریخی فتح وہ آج تک نہیں بھولے ۔ شارجہ میں کرکٹ کی رونقیں شائقین کو خوش کرتی تھیں ۔ پاک بھارت مقابلے اس گرائونڈ کی جان تھے مگر پے در پے شکست کھانے کے بعد بھارت نے یہ کہہ کر شارجہ کپ کا بائیکاٹ کر دیا کہ یہ مقابلے پاکستان کو جتوانے کی غرض سے منعقد ہوتے ہیں۔ یوں بھارت کی ہٹ دھرمی کے سبب ایک تاریخی گرانڈ اجڑ کر رہ گیا ۔ آج بھی اس گرائونڈ نے سب سے زیادہ میچوں کی میزبانی کی ہے ۔
گزشتہ کچھ عرصے سے بھارت نے ایک اور تماشا لگا رکھا ہے۔ وہ آئی سی سی ٹورنامنٹس میں بھی اپنی ٹیم بھجوانے سے انکار کرنے لگا ہے۔ گزشتہ ایشیا کپ میں بھی اس نے یہی کیا تھا ۔ ادھر ہمارے بورڈ کی کم ہمتی اور ملاحظہ ہو کہ ہم میزبان ہونے کے باوجود بھارت سے میچ کھیلنے سری لنکا پہنچ گئے ۔ نجم سیٹھی جیسے بزدل آدمی سے اور کس بات کی امید کی جا سکتی تھی ۔ اب جب کہ چیمپئن ٹرافی پاکستان میں ہونی ہے تو بھارت نے ایک بار پھر پاکستان آنے سے انکار کر دیا ہے۔ حالاں کہ ظ نے انھیں یہ آفر بھی کی ہے کہ میچ کے فوراً بعد ٹیم اپنے ملک روانہ ہو جائے مگر بھارت کی ہٹ دھرمی برقرار ہے ۔ ایک نئی بات یہ ہوئی ہے کہ پاکستان نے بھی ’’ دھمکی ‘‘ دے ڈالی ہے کہ وہ آئندہ کسی آئی سی سی ٹورنامنٹ میں بھارت کے ساتھ کوئی میچ نہیں کھیلے گا ۔ یہ بات یقینی ہے کہ پاکستان ایسا نہیں کر پائے گا پھر یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ ہم بھی بولے تو سہی ۔ ویسے ایسی دھمکیاں نجم سیٹھی بھی دیا کرتے تھے مگر جب وقت آیا تو چڑیا تو ایک طرف اس کے ہاتھوں کے توتے اڑ گئے ۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے آئی سی سی کہاں ہے ، کیا کر رہا ہے ۔ بول کیوں نہیں رہا ۔ صرف اور صرف اس لیے کہ بھارتی بورڈ دنیا کا امیر ترین بورڈ ہے اور اس کا منہ بھر دیا جاتا ہے ۔ جبھی تو آئی سی سی سے یار لوگ انڈین کرکٹ بورڈ مراد لیتے ہیں ۔
اگر آئی سی سی کو اس کھیل کا تحفظ عزیز ہے اور وہ چاہتا ہے کہ دنیا میں یہ کھیل دل چسپی سے دیکھا جائے تو اسے اپنی خاموشی توڑنی ہو گی ۔ اسے سخت ایکشن لینا ہو گا ۔ اپنی اتھارٹی ثابت کرنا ہو گی ۔ سب جانتے ہیں کہ پاک بھارت کا ایک میچ پورے ایونٹ کا چرچا نکال دیتا ہے۔ آئی سی سی تو باہمی سیریزوں کے لیے بھی کوئی فارمولا طے کرنا پڑے گا تاکہ کرکٹ کا کھیل باقاعدگی سے کرکٹ کھیلنے والے ممالک میں کھیلا جاتا رہے ۔
سابق انگلش کرکٹر معین علی کی اس بات سے کلی اتفاق کرتے ہیں کہ اگر انڈین کرکٹ ٹیم چمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان نہیں جاتی تو ICCانٹرنیشنل کرکٹ کونسل بھارتی ٹیم پر پابندی لگائے۔





