مسیحا چلا گیا

تحریر: رفیع صحرائی
موت برحق ہے۔ ہر ذی روح نے اس دارِ فانی سے کوچ کر جانا ہے۔ باقی صرف اللہ کا نام رہ جانا ہے۔ کتنے عظیم ہوتے ہیں وہ لوگ جو دنیا سے جانے کے بعد بھی اپنی یادوں کے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ وہ اپنے نیک اور فلاحی کاموں کی بدولت لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو جیون کا مقصد پا کر ایک نصب العین کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ ان کا نصب العین انسانوں کی فلاح اور انسانیت کا فروغ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر غلام فرید بھٹی بھی ایسے ہی درویش صفت انسان تھے جنہوں نے 54سال تک دن اور رات کی تمیز کیے بغیر اپنے آپ کو شہر اور علاقہ کے لوگوں کے لیے وقف کیے رکھا۔ وہ پانچ وقت کے نمازی اور تہجد گزار انسان تھے۔ شاید اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں اس قدر شفا رکھی تھی کہ مریض ان کے پاس پہنچتے ہی تندرست ہو جاتے تھے۔
ڈاکٹر غلام فرید بھٹی ساہیوال شہر کے رہائشی تھے۔ ان کے والد میاں غلام علی بھٹی ایک مذہبی اور دین دار شخصیت تھے۔ ڈاکٹر غلام فرید بھٹی نے میٹرک تک تعلیم ساہیوال میں حاصل کی جبکہ میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے لیے انہیں کوئٹہ میں رہنا پڑا۔ ان کی پہلی تقرری ضلع اوکاڑا کے معروف قصبے جندراکہ میں 1969ء میں ہوئی۔ دو سال بعد 1971 ء میں انہیں منڈی ہیرا سنگھ ( موجودہ منڈی احمد آباد) بنیادی مرکز صحت میں ٹرانسفر کر دیا گیا جہاں انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ 2008ء تک خدمات سرانجام دیں۔ تب تک وہ اپنی رہائش گاہ میں ہی اپنا ذاتی ہسپتال بھی قائم کر چکے تھے۔ اس طرح گورنمنٹ سروس سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ عملی طور پر ریٹائرڈ نہیں ہوئے اور ذاتی ہسپتال میں لوگوں کی خدمت کا سلسلہ شروع کر دیا جو 9نومبر 2024ء ان کی آخری سانس تک جاری رہا۔
ڈاکٹر غلام فرید بھٹی نے 54سال تک شہر اور علاقہ کی خدمت کی۔ امام احمد بن حنبل نے ارشاد فرمایا تھا ’’ ہمارے جنازے فیصلہ کریں گے کہ کون حق پر تھا‘‘۔ ڈاکٹر غلام فرید بھٹی کی نمازِ جنازہ نے ثابت کر دیا کہ لوگ ان سے کس قدر محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔ شہر کی وسیع و عریض جنازگاہ کی جگہ بہت کم پڑ گئی تھی چنانچہ مقامی سپورٹس سٹیڈیم میں ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گءی جس میں پورے علاقہ سے ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کا جمِ غفیر شامل تھا۔ اس موقع پر ہر آنکھ اشک بار تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ علاقے کے ہر گھر کا فرد تھا۔ لوگ اس کی باتیں کر رہے تھے۔ اس کی مسیحائی اور خدا ترسی کی گواہی دے رہے تھے اور دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ انہیں سینکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سپردِ خاک کر دیا گیا۔
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر غلام فرید بھٹی کو خدمتِ خلق کے لیے چنا تھا اور حق تو یہ ہے کہ انہوں نے زندگی گزارنے کا حق ادا کر دیا۔ وہ شیریں بیاں، غمگسار اور ہمدرد انسان تھے۔ مریض کا آدھا مرض تو ان سے بات کر کے ہی ٹھیک ہو جاتا تھا۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر وہ اس مقام پر پہنچ چکے تھے کہ مریض کو دیکھتے ہی مرض کی تہہ تک پہنچ جاتے تھے۔ ان کی تشخیص غضب کی تھی۔ مریض ہزاروں روپے خرچ کر کے مہنگے ٹیسٹ کروانے کے بعد جب رپورٹ دیکھتے تو حیرت سے ان کے منہ کھلے رہ جاتے تھے کہ رپورٹ میں وہی کچھ درج ہوتا تھا جو ڈاکٹر غلام فرید بھٹی نے محض نبض دیکھ کر اور اسٹیتھو سکوپ کی مدد سے تشخیص کر کے بتا دیا ہوتا تھا۔
وہ انتہائی خدا ترس انسان تھے۔ شہر کے سب سے سستے ڈاکٹر تھے۔ چیک اپ کی کوئی فیس نہیں لیتے تھے جبکہ ادویات بھی کم قیمت پر دیتے تھے۔ نادار مریضوں کو مفت ادویات بھی دے دیتے۔ ان کے ہسپتال میں مریضوں کا تانتا بندھا رہتا تھا مگر گھنٹوں کام کرنے کے باوجود ہشاش بشاش نظر آتے تھے۔ انہیں مسیحائی میں سکون ملتا تھا۔
ایک بات میں نے خصوصی طور پر نوٹ کی کہ وہ مریض کو اس کے رہائشی علاقے کی نسبت سے دوائی دیا کرتے تھے۔ شہر کے لوگوں کے لیے الگ، قریبی دیہات والوں کے لیے الگ اور دریا پار سے آنے والے مریضوں کے لیے الگ دوائی ہوتی تھی۔ میں نے ایک دن اس کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے ’’ شہر والوں نے برگر، شوارمے اور دیگر فاسٹ فوڈز کھا کھا کر اپنی قوتِ مدافعت کا ستیاناس کر لیا ہے۔ قریبی دیہات والے بھی آہستہ آہستہ اس کا شکار ہو رہے ہیں جبکہ خالص خوراک کھانے کی وجہ سے دریا پار کے لوگوں میں بہت قوتِ مدافعت ہوتی ہے۔ ان کا بخار تو ایک کپ چائے پینے سے ہی اتر جاتا جاتا ہے‘‘۔
دین سے خاص رغبت کی وجہ سے مساجد اور مدارس کی تعمیر میں ڈاکٹر غلام فرید بھٹی کو خصوصی دلچسپی رہی۔ دیگر فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔
ڈاکٹر غلام فرید بھٹی نے تمام عمر دعائیں سمیٹیں۔ لوگ ان سے محبت بھی کرتے تھے اور ان سے عقیدت بھی رکھتے تھے۔ ان کے جانے سے شہر اور علاقہ اپنے غمگسار مسیحا سے محروم ہو گیا ہے۔
سنے کون قصئہِ دردِ دل میرا غمگسار چلا گیا
جسے آشنائوں کا پاس تھا، وہ وفا شعار چلا گیا
وہی بزم ہے وہی دھوم ہے، وہی عاشقوں کا ہجوم ہے
ہے کمی تو بس میرے چاند کی، جو تہہِ مزار چلا گیا





