تمام معاشی مشکلات کا واحد!

عابد ضمیر ہاشمی
پاکستان اس وقت معاشی مشکلات کا شکار ہو چکا، دن بدن قرضوں میں اضافہ ہوتا جا رہا۔ ہر فرد معاشی مشکلات سے دوچار ہو چکا۔ اس کی جہاں اور بہت ساری وجوہات ہیں، وہاں ہی اسلامی دستورِ حیات، معاشی پالیسیوں سے انحراف، میانہ روی سے تجاوز جیسے بنیادی مسائل ہیں، جن کی وجہ سے ہم دن بدن تنزلی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اسلام صرف عبادات کا نام ہی نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ ِ حیات ہے۔ جتنا عظیم دستور، شریعت ہمارے پاس موجود ہے اس کی مثال نہیں اس کے باوجود ہم بے بسی کی تصویر ہیں۔1924ء میں خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد مغربی طاقتوں نے اسلامی اقتصادی نظام کو مکمل طور پر تباہ کر دیا اور اس کی جگہ مغربی نظام معیشت کو ہر نئے آزاد ہونے والے اسلامی ملک میں نافذ کر دیا۔ مغربی طاقتوں نے خلافت کے بعد نئی مسلم دُنیا کو چھ بڑے تحفے دئیے۔ پہلا سود، دوسرا کاغذی کرنسی، تیسرا مرکزی بینک، چوتھا قومی قرضہ، پانچواں دستور اور چھٹا جمہوریت، جب رب کا قرآن موجود ہو تو کسی دوسرے آئین کی ضرورت نہیں۔ اسلام کی 13سو سال کی تاریخ میں قرآن کے علاوہ کوئی دوسرا آئین یا دستور نہیں تھا۔ لیکن مغربی قوتوں نے آئین کو سب سے اوپر کا درجہ دیا جس کی رُو سے انہوں نے اسلامی دنیا میں سود، کاغذی کرنسی، مرکزی بینک، قومی قرضہ وغیرہ سب کو حلال کر دیا۔ دنیا میں دو ہی ایسے ملک ہیں جہاں پر تحریری آئین موجود نہیں ہیں۔ ایک کا نام ہے برطانیہ اور دوسرے کا نام ہے اسرائیل۔ دنیا میں دو سو سے زیادہ ممالک ہیں لیکن ان سب کا آئین اور دستور اقتصادی لحاظ سے ایک جیسا ہے مثلاً دنیا کے سارے ممالک کے آئینوں میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ملک میں ایک مرکزی بینک ہو نا چاہیے۔ ملک کی تمام کرنسی یہی مرکزی بینک چھاپے گا، مرکزی بینک جو چیز چاہے اُسے کرنسی کے طور پر استعمال کر سکتی ہیں مثلاً کاغذ، پلاسٹک وغیرہ، دنیا کا کوئی ملک سونے کو بطور کرنسی استعمال نہیں کر سکتی، ملک کی ضروریات کے پیشِ نظر حکومت قرضہ لے سکتی ہے۔ ساری دنیا کو آئین دے کر وہ خود آئین کے پابند نہیں ہیں اور موجودہ جمہوریت کی بنیاد فرانس اور برطانیہ نے رکھی۔ مغربی نظام کا گڑھ بینک ہے تو انہوں نے اسلامی بینک ایجاد کیا۔ اسی طرح اسلامی بیمہ، اسلامی کریڈٹ کارڈ، اسلامی جمہوریت وغیرہ کے غیر اسلامی اداروں کی بنیاد رکھیں۔1903ء میں پہلی مرتبہ محمد عبدو نے خلافت عثمانیہ میں یہ فتویٰ دیا کہ بینک میں جاری کھاتہ (Current Account)کھلوانا حرام نہیں بلکہ حلال ہے۔ پھر بعد میں اس کے شاگرد راشد رضا نے یہ فتویٰ دیا کہ اسلام میں جس سود سے منع کیا گیا ہے وہ موجودہ دَور کے
ربوٰ سے مختلف ہے لہٰذا اگر نیت صحیح ہو تو بینک میں رقم جمع کرکے اس پر سود لینے میں کوئی قباحت نہیں۔ اسی لیے موجودہ اقتصاد کی جتنی کتابیں دنیا بھر کے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہے، اس میں اسلام کا اقتصادی نظام سرے سے موجود ہی نہیں۔ بلکہ سرمایہ دارانہ نظام میں کچھ ردّ و بدل کرکے اس کو اسلامی معیشت قرار دیا گیا۔ ہماری تین چار نسلیں یہی سمجھتی ہیں کہ اسلام کا کوئی معاشی نظام نہیں ہے۔ مغربی نظامِ معیشت کے بغیر اسلام اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ یا دوسرے لفظوں میں وہ نظام اس جدید دَور میں چل نہیں سکتا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا اپنا اقتصادی نظام ہے جس کو اب بھی اگر نافذ کیا جائے تو مغربی نظام کی ایک ستون پر عمل کیے بغیر مسلمان نہ صرف اپنے ممالک کے اقتصادی نظام کو بطریق اَحسن چلا سکتے ہیں بلکہ دنیا میں پھر سے سُپر پاور(Super Power) بن سکتے ہیں۔ اللہ کے مال میں بنیادی طور پر تمام انسانوں کو یکساں حق تصرف حاصل ہے، تمام چیزیں جو زمین سے نکلتی ہیں یا دنیا میں پائی جاتی ہیں، سب کی سب بنی نوع انسان کی نفع رسائی کے لئے پیدا کی گئی ہیں۔ اسلام نے معاشی آزادی کے ساتھ انفرادی ملکیت کا بھی حق دیا ہے،اس لئے کہ انفرادی ملکیت ایک ایسا جذبہ ہے جو فطرت انسانی ہے اور اسلام اپنے تمام شعبہ ہائے حیات میں فطرت کا ہمنوا ہے، چنانچہ ارشاد الٰہی ہے: ’’ آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھا جائو اور نہ حاکموں کو بطور رشوت دو تاکہ لوگوں کے مال میں سے جو کچھ ہاتھ لگے خورد بُرد کرنے لگ جائو، حالانکہ تم جانتے ہو‘‘۔
اسلام نے ملکیت کے تحفظ و احترام پر بھی زور دیا ہے، چنانچہ غصب، خیانت اور چوری ڈکیتی پر سزا لازم قرار دی ہے۔ اسلام کا عدل پسند مزاج یہ گوارا نہیں کرتا کہ کسی کا مال اس کے مالک کی رضا مندی کے بغیر استعمال کیا جائے۔ ارشاد رسول اکرمؐ ہے: ’’ کسی شخص کا مال اس کی رضا مندی کے بغیر جائز نہیں‘‘۔ ۔
فتنہ و فساد برپا ہوتا ہے، جو امن عامہ کو خراب کرتا ہے، اسی لئے قرآن مجید میں اس کو عمل شیطان قرار دیا گیا ہے۔
’’ جب اللہ کسی چیز کو حرام بتاتا ہے تو اس کے معاوضے میں حاصل ہونے والا مال بھی حرام قرار دیتا ہے‘‘۔ معاشی نظام کی اصلاح میں میانہ روی کو بڑا دخل ہے۔ اگر خرچ کو آمدن سے بڑھنے نہ دیا جائے، تو ذہنی و معاشی پریشانیوں سے چھٹکارا حاصل ہوتا ہے۔
ارشاد رب العزت ہے: ’’ بے موقع و بے ضرورت مال ضائع کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں‘‘۔
اس بے ضرورت صرف سے روکنے کا مقصد یہ ہے کہ غریب اور نادار لوگوں میں احساس محرومی پیدا نہ ہو اور اگر کوئی شخص مالدار ہے، تو اس کو چاہئے کہ اپنے غریب بھائی کی مدد کرے تاکہ دولت کے انبار جمع نہ ہوں اور سب مسلمان اچھی اور بہتر زندگی بسر کریں، یعنی اسلام یہ چاہتا ہے کہ سونا چاندی جمع کرنے کے بجائے گردش میں رکھا جائے، تو صاحب مال کے مال میں بھی وسعت ہو گی اور دوسرے اس گردش زر سے فائدہ اُٹھا کر بے روز گاری سے بچیں گے۔ اگر ہم عہد امیر المومنین کے معاشی نظام کا جائزہ لیں تو بالکل روشن ہو جائے گا کہ کاروباری آزادی کے ساتھ پیداواری وسائل عوام کی ملکیت تھے، ہر شخص معیشت کے مختلف ذرائع زراعت، تجارت، دستکاری وغیرہ اختیار کرنے میں آزاد تھا، جس کے نتیجے میں ہر شخص مطمئن ہو کر جدوجہد میں لگا ہوا تھا اور معاشرے میں سکون تھا۔
ذخیرہ اندوزی کر کے مصنوعی قلت اور گرانی پیدا کرنا ایک معاشرتی جرم ہے۔ حضرت علی ؓ نے اس کی روک تھام کے لئے عام اعلان کر دیا تھا کہ کوئی شخص ذخیرہ اندوزی نہ کرے، ورنہ وہ مناسب سزا کا مستحق ہو گا۔ معاشی نظام میں توازن اسی صورت قائم رہ سکتا ہے جب اسراف، یعنی ضرورت سے زیادہ خرچ نہ کیا جائے۔
یعنی آپؓ فرماتے ہیں: ’’ میانہ روی اختیار کرتے ہوئے فضول خرچی سے باز آئو، آج کے دن کل کو بھول نہ جائو‘‘۔
اور بغیر ضرورت چیزوں کو سمیٹنے کے بارے میں فرمایا، ’’ جس چیز کی ضرورت نہ ہو، اُسے چھوڑ دو اور اُسی چیز کو حاصل کرو، جس کی ضرورت ہو‘‘۔
یہ بات اظہر من شمس ہے کہ سود یعنی اللہ اور رسولؐ سے جنگ کر کے ہم معیشت مضبوط نہیں کر سکتے، بلکہ اسلامی نظام معیشت ہی واحد حل ہے جس سے ان شاء اللہ ایک مستحکم معاشی نظام قائم ہو گا۔





