ColumnRoshan Lal

کھیل، سیاست اور آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی

کھیل، سیاست اور آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی
روشن لعل
کھیلوں سے وابستہ افعال ایسی انسانی سرگرمیاں ہیں جنہیں اقوام عالم کی غیر متنازعہ مشترکہ ثقافت قرار دیا جاتا ہے۔ دنیا کے معروف کھیلوں میں شمار ہونے کی وجہ سے کرکٹ بھی مشترکہ انسانی ثقافت کا باوقار حصہ ہے۔ مشترکہ انسانی ثقافت کا باوقار حصہ ہونے کے باوجود کرکٹ کا کھیل آج کل سنسنی خیز خبروں کی زد میں ہے۔ کرکٹ سے وابستہ حالیہ سنسنی خیزی کا تعلق اس کھیل میں مقابلہ کرنے والے ٹیموں اور کھلاڑیوں سے نہیں بلکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان طویل عرصہ سے جاری مخاصمت سے ہے۔ کرکٹ کے کھیل سے وابستہ تازہ ترین سنسنی خیز خبر یہ ہے کہ بھارت نے فروری ، مارچ 2025ء کے دوران پاکستان میں منعقدہ کرکٹ چیمپئنز ٹرافی کے میچوں میں شرکت سے انکار کردیا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت نے کرکٹ چیمپئنز کا بائیکاٹ نہیں کیا بلکہ یہ کہا ہے کہ اس کی ٹیم ٹورنامنٹ کے پاکستان میں منعقدہ میچ نہیں کھیلے گی۔ بھارت کے اس موقف کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیمپئنز ٹرافی کے میچ کھیلنے کے لیے پاکستان نہیں آسکتا لہذا اس کے تمام میچ ہائبرڈ ماڈل کے تحت اسی طرح کسی دوسرے ملک منتقل کیے جائیں جس طرح 2023ء کے دوران پاکستان میں منعقدہ ایشیا کرکٹ کپ کے میچ سری لنکا منتقل کر دیئے گئے تھے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ ایشیا کپ میں تو بھارتی ٹیم کے میچ سری لنکامنتقل کرنے پر رضامند ہو گیا تھا لیکن چیمپئنز ٹرافی کے معاملے میں پی سی بی کے چیئرمین محسن نقوی نے بھارتی ٹیم کے میچ ہائبرڈ ماڈل کے تحت کہیں اور منتقل کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ بھارت کا پاکستان میں میچ کھیلنے اور پاکستان کا بھارتی ٹیم کے میچ کسی دوسرے ملک منتقل کرنے سے انکار کے بعد چیمپئنز کرکٹ ٹرافی ٹورنامنٹ کا انعقاد متنازعہ بن چکا ہے۔ اپنے انعقاد سے تین ماہ قبل متنازعہ ہونے کے بعد چیمپئنز ٹرافی کے حوالے سے جو خبریں سامنے آرہی ہیں وہ کسی کھیل کی بجائے تماشے سے برآمد ہونے والی خبریں لگ رہی ہیں۔
گو کہ کرکٹ چیمپئنز ٹرافی میں بھارتی ٹیم کی عدم شرکت کا عندیہ کشیدہ پاک بھارت تعلقات میں مزید کشیدگی کا باعث بن رہا ہے لیکن تہذیب یافتہ لوگ اب بھی مشترکہ عالمی ثقافت ہونے کے ناطے، کھیلوں کو دنیا میں مختلف اقوام اور لوگوں کو قریب لانے اور جوڑنے کا ایک اہم ذریعہ سمجھتے ہیں۔ مہذب لوگوں کا تو یہ بھی خیال ہے کہ جوڑنے کی صلاحیت رکھنے کی وجہ سے، عالمی سطح پر قیام امن کے لیے کھیل کسی بھی دوسری سرگرمی سے زیادہ معاون ثابت ہو سکتے ہیں ۔ پاک بھارت کشیدگی کو ایک طرف رکھتے ہوئے اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو انسانوں کے لیے کھیل صرف جسمانی طور پر فائدہ مند ثابت نہیں ہوتے بلکہ سماجی اور اخلاقی لحاظ سے بھی ہر شعبہ زندگی پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔ کچھ، صاحب علم لوگوں کے مطابق کھیلوں سے وابستہ سرگرمیاں نفسیاتی محرکات کی طرح انسانوں کے رویوں اور ذہنی سمت کا تعین کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ کھیلوں کے مقابلوں سے قبل کی جانے والی ٹریننگ کے دوران جہاں کھلاڑیوں کو اپنا جسم مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے مواقع میسر آتے ہیں، وہاں انہیں یہ تربیت بھی دی جاتی ہے مقابلوں کے اختتام پر کامیابی یا ناکامی کی صورت میں ظاہر ہونے والے کسی بھی نتیجے کو وہ ہر صورت مہذب انداز میں قبول کریں گے۔ کسی بھی خطے میں بسنے والے لوگوں کا اپنے ملک کے قومی کھلاڑیوں سے خاص جذباتی تعلق بن جاتا ہے، اس تعلق کے سبب کھلاڑیوں کے مثبت رویے عام لوگوں کے لیے رجحان ساز ثابت ہوتے ہیں۔ کھیل اور کھلاڑیوں کی مذکورہ افادیت کے سبب کھیلوں کو سپورٹس سوشیالوجی کا نام دیتے ہوئے سائنس کی شاخ کہا جانے لگا ہے۔
ایک طرف تو یہ بات ثابت شدہ ہے کہ کھیل اور کھلاڑی قیام امن کے لیے اقوام عالم پر مثبت اثرات مرتب کر سکتے ہیں مگر دوسری طرف تاریخ میں کینہ پروری پر مبنی سیاسی مفادات کے حصول کے لیے کھیلوں کو استعمال کرنے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ کھیلوں کے ذریعے امن ، محبت اور بھائی چارے کو فروغ دینے کی بجائے نفرت کے اظہار کی مثال انیسویں صدی کے آئرلینڈ میں ملتی ہے جہاںگائلک اتھیلٹک کے نام سے کھیلی جانے والی آئرش قومی کھیلوں کے مقابلوں میں ان کھلاڑیوں کے حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی جو تاج برطانیہ کے تحت منعقدہ کھیلوں میں شرکت کرتے تھے۔ اٹلی میں منعقدہ 1934ء کے ورلڈ کپ کے دوران وہاں کے آمر مسولینی نے دنیا کو یہ باور کرایا کہ اس کی حکومت کس حد تک فاشسٹ ہے۔ اسی طرح جرمنی میں منعقدہ 1936ء کے سرمائی اور گرمائی اولمپک کو ہٹلر نے نازی ازم کا پرچار کرنے کے لیے استعمال کیا۔ سرد جنگ کے دوران کئی مواقع پر امریکہ اور مرحوم سوویت یونین نے کھیلوں کے اولمپک جیسے مقابلوں کے دوران ایک دوسرے کے لیے خیر سگالی کے جذبات ظاہر کرنے کی بجائے نفرت اور عداوت کو فروغ دینے کی بھر پور کوشش کی۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان شروع د دن سے موجود دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔ جنم گھٹی کے طور پر ملنے والی دشمنی کے باوجود ماضی میں جب بھی پاک بھارت کرکٹ ٹیموں اور دونوں ملکوں کے شہریوں کو کرکٹ میچ کھیلنے ور دیکھنے کے لیے ایک دوسرے کے ہاں جانے کا موقع ملا تب گرائونڈ سے باہر محبتیں بانٹنے کے ایسے ایسے مناظر دیکھنے ملے کہ انہیں یاد کر کے دل اب بھی باغ باغ ہو جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں نے صرف ایک دوسرے کے ہاں جاکر صرف میچ ہی نہیں کھیلے بلکہ دو مرتبہ کرکٹ ورلڈ کپ کی مشترکہ طور پر میزبانی بھی کر رکھی ہے۔ ہر دو مواقع پر جب پاکستان اور بھارت نے کرکٹ ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی کی اس وقت دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات موجودہ دور سے کچھ کم کشیدہ نہیں تھے۔ پہلی مرتبہ 1987ء کے کرکٹ ورلڈ کپ مشترکہ میزبانی کے دوران بھارتی کشمیر میں گورنر راج کے تحت جگ موہن کی حکمرانی تھی اور وہاں آئے روز احتجاج کرنے والے کشمیریوں پر سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے واقعات رونما ہوتے رہتے تھے۔ ان واقعات کے رد عمل کے طور پر پاکستان میں جگ موہن اور بھارت کی مرکزی حکومت کے خلاف سخت بیان بازی کی جاتی تھی۔ دوسری مرتبہ پاکستان اور بھارت نے 1996ء میں ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی کی ، یہ وہ سال تھا جب بے نظیر بھٹو شہید ، کشمیر کا مسئلہ ایک عرصہ کے بعد اقوام متحدہ لے کر گئی تھی، کشمیر کا مسئلہ یو این میں لے جانے کی وجہ سے ان دنوں پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی محاذ آرائی اور چپقلش عروج پر تھی لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کے کرکٹ بورڈز نے سیاست ایک طرف رکھ کر صرف اور صرف کھیل کی سپرٹ پر توجہ دیتے ہوئے ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کا کامیاب انعقاد ممکن بنایا۔
ماضی میں سخت کشیدگی اور محاذ آرائی کے باوجود پاکستان اور بھارت نے کرکٹ کے میدانوں میں ایک دوسرے کے ساتھ جو تعاون کیا وہ اب بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ چیمپئنز ٹرافی کے انعقاد کے موقع پر درکار تعاون کے لیے گیند اس وقت بھارت کے کورٹ میں ہے ۔ اگر بھارت نے فائول پلے کھیل کر پاکستان میں منعقدہ چیمپئنز ٹرافی کو متنازعہ بنانے کی کوششیں جاری رکھیں تو اسے پھر 2031ء تک انڈیا میں منعقدہ چار انٹرنیشنل کرکٹ ٹورنامنٹس کے لیے پاکستان سے بہتر رویے کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button