عمران خان کس کیٹگری کا قیدی ہے؟

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
جیلوں میں قیدیوں کو ان کے جرائم کے اعتبار سے مختلف جگہوں پر رکھا جاتا ہے۔ عام قیدی اور حوالاتیوں کو بیرکس میں اور سنگین جرائم میں ملوث قیدیوں اور حوالاتیوں کو سیلوں میں رکھا جاتا ہے جہاں سے انہیں باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایسے تو نہیں کہا تھا ملک میں دو وزیراعظم ہوتے ہیں ان کا اشارہ جیلر کی طرف تھا۔ جہاں تک جیل مینوئل کی بات ہے ا س ناچیز کو اندرون جیلوں کے حالات بارے بہت حد تک معلومات ہیں۔ جس شخص نے زندگی کے پندرہ برس قید و بند میں گزارے ہوں جیل کے حالات سے وہ بخوبی واقف ہوتا ہے۔ سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کو جیل گئے ابھی ایک سال گزرا ہے آئے روز ان کی درخواستیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت رہتی ہیں۔ پی ٹی آئی کے حلقوں کی طرف سے عمران خان کو مروجہ سہولتوں کی عدم فراہمی اور چہل قدمی کے لئے چوبیس گھنٹے میں صرف دو گھنٹے اور ملاقاتوں کی شکایت رہتی ہے۔ پہلی بات یہ ہے سابق وزیراعظم نواز شریف اور سید یوسف رضا گیلانی سینٹرل جیل راولپنڈی میں رہ چکے ہیں وہ جیتنا عرصہ جیل میں رہے انہیں اے اور بی کلاس کے قیدیوں کے لئی مختص جگہ پر رکھا گیا۔ ہاں البتہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور عمران خان کو سزائے موت کے قیدیوں کیلئے مختص سیلوں میں جگہ دی گئی۔ راولپنڈی جیل میں ہمیشہ یہ معمول رہا ہے جب کوئی وی آئی پی حوالاتی یا قیدی آتا تھا بی کلاس والی جگہ کو خالی کراکر اسے وہاں رکھا جاتا اور بی کلاس والے قیدیوں شفٹ کرکے کسی بیرک میں بی کلاس کی سہولتیں فراہم کر دی جاتی تھیں لیکن شاہد خاقان عباسی اور عمران خان کی باری ایسا نہیں ہوا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جناب ارباب محمد طاہر نے نورین نیازی کی درخواست پر حکم جاری کیا ہے جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نے تحریری طور پر عدالت کو اس امر کی یقین دہانی کرائی ہے عمران خان کو جیل مینوئل کے مطابق تمام سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔ سوال ہے کیا عدالتی حکم سے قبل عمران خان کو جیل والوں نے بہتر کلاس کی سہولتیں مہیا نہیں کی تھیں؟ جیل سپرنٹنڈنٹ نے ڈپٹی کو بھیج کر تحریری یقین دہانی کرائی ہے ملاقاتوں پر پابندی ہٹا لی گئی ہے۔جیسا کہ خبر میں رپورٹ ہوا ہے جیل کے ڈپٹی نے عدالت کو اس امر کی یقین دہانی کرائی ہے عمران خان کو جیل مینوئل کے مطابق تمام سہولتیں مہیا کی جائیں گی ۔ کیا اس سے قبل بانی پی ٹی آئی کو بی کلاس کی سہولتیں میسر نہیں تھیں اگر مہیا کی گئیں تھیں تو کس کے حکم پر واپس لی گئی تھیں؟ جیل والوں کی رپورٹ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے بانی پی ٹی آئی کو اس سے قبل بی کلاس کی سہولتوں سے محروم رکھا گیا۔ ایک اہم بات جو اسلام آباد ہائی کورٹ کی توجہ کی متقاضی ہے۔ اس سے قبل خبروں میں کہا گیا تھا عمران خان کو چوبیس گھنٹے میں چہل قدمی کے لئے صرف دو گھنٹے کھولا جاتا ہے۔ عجیب تماشا ہے ایک طرف اسے بہتر کلاس کی سہولت دی گئی ہے دوسری طرف سابق وزیراعظم سے دہشت گردوں والا سلوک روا رکھا جاتا ہے؟ گو ہم جیل مینوئل سے بخوبی واقف ہیں تاہم اس کے باوجود جیل کے کچھ دوست افسران سے رابطہ کرکے اپنی یادداشت کو از سر نو تازہ کرنے کی کوشش کی۔ عمران خان بارے جیلوں کے افسران اور ملازمین بڑے محتاط ہیں۔ ایک جیل افسر نے مجھے قیدیوں کے چہل قدمی بارے جیل مینوئل کا وہ متعلقہ پارٹ بھیج دیا۔ ایک اور جیل افسر نے مہربانی کی اور مجھے وائس میسج پر قیدیوں اور دہشت گردوں کی ڈھلائی ( چہل قدمی) بارے رولز سے آگاہ کر دیا۔ وہ بتاتے ہیں قیدیوں کو فجر سے غروب آفتاب تک کھلا رکھا جاتا ہے لیکن انہیں اپنی بیرکس کے احاطے میں رہنا ہوتا ہے یہ اور بات ہے ہیڈ وارڈر کی مٹھی گرم کرکے کوئی قیدی دوسری بیرک میں چلا جائے۔ گویا اس کیٹگری کے قیدی پورا دن کھلے رہتے ہیں۔ سنگین جرائم میں ملوث ایسے قیدی جنہیں موت کی سزا ہوئی ہوا یا وہ اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی کے کیسز میں ملوث ہوں انہیں محدود وقت کے لئے کھولا جاتا ہے جس میں وہ اپنے پہروں کے اندر ہی چہل قدمی کر سکتے ہیں۔ اب سوال ہے بانی پی ٹی آئی کے خلاف نہ تو قتل کا مقدمہ ہے نہ اور کوئی سنگین جرم ہے جس میں اسے جیل بھیجا گیا ہے اور اگر اس کے خلاف کوئی سنگین جرم ہے تو پھر اسے بی کلاس کیسے دے دی گئی ہے؟جیل مینوئل میں بی کلاس صرف انہی قیدیوں اور حوالاتیوں کو دی جاتی ہے جن کے خلاف ماسوائے صرف دفعہ302کے کوئی اور سنگین دفعہ نہیں لگی ہوتی۔ اگر کسی قیدی کے خلاف 302کی دفعہ کے ساتھ 7ATAلگا ہو اسے بی کلاس کی سہولت نہیں دی جاتی۔ چند سال قبل نیب مقدمات کے ملزمان سے بی کلاس کی سہولت واپس لے لی گئی تھی بعد ازاں میاں شہباز شریف کے دور میں نیب ملزمان پر بی کلاس دینے کی مہربانی پھر سے کر دی گئی تھی۔ قانون کی نظر میں عمران خان قیدی اور حوالاتی بھی ہے کیونکہ اس کے خلاف ابھی بہت سے مقدمات کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ بلاشبہ بانی پی ٹی آئی معتوب وزیراعظم ہے نواز شریف سے اس کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا ۔ عمران خان نواز شریف جیسا ہوتا کب کا ملک چھوڑ چکا ہوتا۔ اگلے روز عمران خان کے بردار نسبتی حفیظ اللہ نیازی کا وی لاگ سن رہا تھا بڑ ا دلچسپ تھا مجھے ہنسی بھی بہت آئی۔ حفیظ اللہ نیازی کہہ رہا تھا اس نے طاقت ور حلقوں کو کئی سال پہلے یہ بات بتائی تھی تم عمران خان کو نہیں جانتے ایک روز آپ کو پچھتاوا ہوگا پھر آخر وہی ہوا جس سے میں ( حفیظ اللہ نیازی) انہیں پہلے آگاہ کر دیا تھا۔ بات عمران خان کو دو گھنٹے چہل قدمی کے لئے کھولنے کی ہو رہی تھی دراصل ملک میں نہ آئین نہ کوئی قانون ہے کوئی روئے تو کسی کے آگے روئے۔ کرپشن کا دور دورہ ہے ملک کیا خاک ترقی کرکے گا جس ملک کے حکمران اثاثے آئوٹ سورس کرنے میں لگے ہوں ان سے ترقی کی امید عبث ہے۔





