اب کیا بنے گا!!!

محمد مبشر انوار
کفر کا نظام چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نظام نہیں ،اس کے باوجود ازل سے یہ صورتحال رہی ہے کہ عموما اختیار و اقتدار ملنے پر مستثنیات کے علاوہ ہر صاحب اختیار و اقتدار نے ظلم کا بازار ہی گرم کئے رکھا اور اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے ظلم کی بیساکھی،سہارا لئے رکھا۔ نظام کفر کی کافرانہ نظام کی خامی کے علاوہ حکومتی کارکردگی پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت واضح رہی ہے کہ اس نظام میں انسانی حقوق کی پامالی نہیں ہوتی تھی، شہریوں کو حکومتی اقدامات پر اعتماد رہتا تھا اور معاشرے میں امن و سکون کے ساتھ زندگی گزاری جاتی تھی۔ اس عدل و انصاف و مساویانہ حقوق کی خصوصیات کے باعث نظام کفر بخوبی چلتا رہتا لیکن جیسے ہی کسی بھی نظام میں یہ خصوصیات عنقا ہوتی بتدریج اقتدار کا سورج غروب ہونا شروع ہو جاتا اور صاحب اقتدار گوشہ گمنامی میں گم ہو جاتا۔ قبل از اسلام کے نظام حکومت، جن میں بیشتر نظام کفر پر قائم رہے البتہ عدل و انصاف و مساویانہ حقوق والے حکمران آج بھی یاد کئے جاتے ہیں جبکہ ظالمانہ نظام کے سائے میں حکمرانی کرنے والوں کو کل بھی اور آج بھی نفرت سے یاد کیا جاتا ہے۔ تاریخ کا یہ سبق بڑا واضح ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس آفاقی حقیقت /اصول کو جانتے کے باوجود بھی، دور جدید میں حکمرانوں کی فطرت نہیں بدلی اور ہوس اقتدار میں ہر حد سے گزر جانے کے لئے آج بھی تیار نظر آتے ہیں بلکہ دکھائی دے رہے ہیں۔ نظام حکومت کوئی بھی ہو، بنیادی انسانی فطرت یہی ہے کہ ظلم کے خلاف کھڑا ہوتا ہے خواہ اس میں تاخیر ہو یا معاشرے میں زندگی کی رمق موجود ہو تو ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے والے فوری آواز اٹھاتے ہیں بصورت دیگر جبرو استبداد کی انتہا ہونے تک لاوا اندر ہی اندر پکتا رہتا ہے اور معاشرے سے کوئی ایک یا یکے بعد دیگرے علم حسینؓ اٹھا کر وقت کے یزید کا مقابلہ کرنے کو تیار نظر آتے ہیں۔ معاشرے کی اکثریت اگر اس ظلم کے خلاف متحد ہو جائے تو تبدیلی یقینی ہو جاتی ہے بصورت دیگر حسینؓ کی مانند چند ساتھیوں کے ساتھ ظلم و ناانصافی کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے، نہ صرف اپنا نام تاریخ میں رقم کر جاتے ہیں بلکہ آنے والوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوتے ہیں اور زندگی جینے کے ایک راستے کا تعین کر جاتے ہیں۔ آج مغربی معاشروں کی کامیابی کا راز اسی ایک اصول پر کارفرما ہے کہ ان معاشروں میں نہ صرف عدل وانصاف قائم ہے بلکہ مساویانہ حقوق کی ضمانت ان معاشروں کو میسر ہے، جس سے روگردانی کرنے کی صورت میں پورا معاشرہ اکٹھا ہو کر مقابلہ کرتا ہے اور حکمرانوں کو من مانی کرنے کی اجازت نہیں دیتا، یہ حکمران خواہ پردہ سکرین پر نظر آ رہے ہوں یا پس پردہ ہوں، ان کی حاکمیت ان بنیادی اصولوں کے خلاف نہیں چل سکتی۔
انسانی معاشرے میں ازل سے ایک اصول کارفرما رہا ہے کہ ہمیشہ طاقتور اور بااختیار کی اعلانیہ یا غیر علانیہ چودھراہٹ تسلیم کی جاتی رہی ہے اور اس کے حکم کو بجا لانا نظم و ضبط کا تقاضہ رہا ہے تا کہ معاشروں میں امن و سکون قائم رہ سکے البتہ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ رہی ہے کہ یہ چودھراہٹ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہی ہے اور کرہ ارض عموما دو یا زیادہ طاقتیں بیک وقت موجود رہی ہیں اور ریاستیں اپنے مفادات کے تحت ان طاقتوں کی حلیف و حریف رہی ہیں۔ یہی صورتحال آج بھی کرہ ارض پر موجود ہے گوکہ گزشتہ چند دہائیوں میں صرف ایک طاقت اس کرہ ارض پر بلاشرکت غیرے حکمران رہی ہے لیکن اب حالات بدل چکے ہیں اور اس وقت کرہ ارض پر طاقت کا توازن دو/تین حصوں میں منقسم نظر آتا ہے کہ اکلوتی طاقت کا وقت ختم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اکلوتی طاقت نے ایک طرف اپنی طاقت کا اظہار کرتے کرتے، اپنی طاقت کو اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کمزور کیا ہے، کہ ہوس اقتدار اندھا کر دیتی ہے اور حکمران اپنے ہر قدم کو جائز سمجھتے ہیں اور اس کا جواز ترش لیتے ہیں لیکن قانون قدرت کسی حکمران کے تابع ہرگز نہیں اور اپنے اصولوں کے مطابق بروئے کار آتے ہیں۔ اختیار و طاقت کا دائرہ کار جہاں تک ہو، اصول و ضوابط کا اطلاق بھی وہاں تک ہوتا ہے، ایسا ممکن نہیں کہ صرف اپنے خطہ تک ہی اس کا اطلاق ہو، اگر زیر اختیار و اقتدار کہیں بھی ناانصافی ہوگی تو اس کا اثر براہ راست حکمرانوں پر ہی ہوتا ہے، ایسی ہی صورتحال اس وقت امریکہ میں بھی عیاں ہے کہ پس پردہ ڈوریاں ہلانے والوں کو نو منتخب صدر نے واضح کر دیا ہے اور ان کی ناانصافیوں ، جانبداریوں پر حلف لینے سے قبل ہی استعفوں کا مطالبہ کر دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نو منتخب امریکی صدر کے مطالبے پر ، پس پردہ حکمرانوں /طاقتوروں کا ردعمل کیا ہوتا ہے، کیا وہ اس مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے، اپنے استعفے دیتے ہیں یا اپنے اقدامات کا دفاع کرتے ہیں؟ دفاع کی صورت میں نو منتخب صدر کے پاس یقینی طور پر ٹھوس شواہد موجود ہوںگے کہ جن کی بنیاد پر انہوں نے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے بصورت دیگر عدالتی کارروائی سے کیا نتائج سامنے آئیں گے، ان کا انتظار کرنا ہوگا البتہ یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ نو منتخب صدر نے نظام کے اندر رہتے ہوئے، کسی کی کٹھ پتلی بننے سے انکار کر دیا ہے۔
امریکی انتخابات کے نتائج نے پوری دنیا کی عملی سیاست کو تبدیل کر دیا ہے اور صدر ٹرمپ کی سیاسی ترجیحات کلیتا مختلف ہیں، ان کا طریقہ کار بھی مختلف ہے اور نتائج کے حصول میں وہ زیادہ تاخیر کے قائل بھی نہیں ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ مشرق وسطی میں ان کا لائحہ عمل کیا ہوگا کہ اس وقت مشرق وسطیٰ کا معاملہ انتہائی سنگین ہو چکا ہے۔ امریکی مداخلت کہیں یا اختیار سمجھیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ عالمی سیاست میں امریکی اثر و رسوخ بہر طور موجود ہے اور بیشتر معاملات میں امریکی احکامات ہی بروئے کار آتے دکھائی دیتے ہیں، بدقسمتی سے بائیڈن انتظامیہ مشرق وسطیٰ کے معاملے کو ٹھیک طریقے سے طے نہیں کر پائی اور بارہا جنگ بندی کے مختلف منصوبوں کا اعلان کرنے کے باوجود ان پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہی ہے، جس سے امریکی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے، کیا ٹرمپ اس کا منصفانہ حل کر پائیں گے؟ بظاہر تو اس کا جواب نہ میں ہی دکھائی دیتا ہے کہ امریکی اس خطے میں، اسرائیلی مفادات کے برعکس، کسی منصفانہ حل کی طرف جائیں البتہ اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف امریکی احکامات پر فوری عملدرآمد بھی فلسطینیوں کے لئے کسی رحمت سے کم نہیں ہو گا۔ اسی طرح پاکستانی حالات کا جائزہ لیں تو اس وقت صدر ٹرمپ کے ذاتی دوست کے ساتھ جو بدسلوکی و ناانصافی روا رکھی جا رہی ہے، جس کے متعلق صدر ٹرمپ اپنے مختلف بیانات میں اظہار کر چکے ہیں کہ عمران خان کے ساتھ بھی وہی سلوک رکھا جارہا ہے، حس کا سامنا انہیں بذات خود پس پردہ غیر سیاسی قوتوں رہا ہے۔ پس پردہ غیر سیاسی قوتوں کے کردار سے کبھی بھی انکار نہیں رہا لیکن ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ ان کا کردار ذاتی پسند و نا پسند کی بجائے، ملکی مفادات و مروجہ ضوابط کے تحت ہونا چاہئے، جس کی غیر سیاسی قوتوں کی جانب سے ہمیشہ نفی ہوتی ہے اور وہ ملکی مفادات کی آڑ میں ذاتی پسند ناپسند کا ایجنڈا مدنظر رکھتے ہیں، ٹرمپ کو بھی اس کا سامنا رہا ہے اور ان کی یہی رائے اپنے دوست عمران خان کے متعلق بھی ہے کہ انہیں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ ٹرمپ نے غیر سیاسی قوتوں کا مقابلہ اپنی عوام کے سہارے کیا ہے اور بہرحال انہیں شکست دی ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان میں عمران خان کے حامیوں اور مخالفین کی طرف سے یہ توقعات سامنے آ رہی ہیں کہ اب ٹرمپ اپنے دوست کی رہائی کے لئے مداخلت کریں گے۔ ان سب توقعات پر عمران خان نے دوٹوک الفاظ میں پانی پھیر دیا ہے کہ میرے خلاف قائم سیاسی انتقامی مقدمات میں انصاف مقامی عدالتوں سے لوں گا جبکہ اقتدار عوامی حمایت سے حاصل کروں گا، جو اس وقت واقعتا عمران خان کے ساتھ ہے۔ اس بیان سے عمران خان نے اپنے پرانے موقف کا اعادہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کی خودمختاری میں کسی صورت بیرونی مداخلت قبول نہیں کریں گے خواہ اس کا فائدہ براہ راست ان کی ذات اور جماعت کو ہو رہا ہو، تاہم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ ان کے مخالفین سیاسی و غیر سیاسی اپنی پوری کوشش کریں گے کہ نئی انتظامیہ کے سامنے خود کو بہتر متبادل ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور اس ضمن میں نئی امریکی انتظامیہ کی جانب سے فقط یہ کہہ دینا کہ سیاسی انتقام بند کی جائے، تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے یا کسی ایک سیاسی جماعت کی خلاف امتیازی سلوک ختم کیا جائے، اس صورت میں بائیڈن انتظامیہ کے پروردہ ’’ حکمرانوں کا کیا بنے گا!!!‘‘۔





