اسلامی سربراہان اور اسرائیل مظالم

ندیم اختر ندیم
ہماری بیگم صاحبہ کو زعم ہے کہ ہمارے کہنے پر بہت سے کام ہو جاتے ہیں مثلآ بعض اوقات بجلی کا جانا بیگم صاحبہ نے ہم سے فون کرانا اور لائٹ کے آنے پر بیگم صاحبہ کا اترانا کہ ہمارے کہنے پر فوری بجلی آجاتی ہے یوں محلے میں ہم اس بابت شہرت رکھتے ہیں ٹھیک ہے بعض اوقات کسی معمولی وجہ سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر ہمارے فون پر بجلی کا آنا تو درست ہے لیکن گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کسی خاص وجہ سے ہوتی کل ہی علاقہ بھر میں لائٹ نہ تھی بیگم صاحبہ نے فون پر کہا کہ جہاں آپ ہیں وہاں بجلی ہے؟ ہم نے بتایا کہ نہیں تو گویا ہوئیں کہ یہاں بھی چار گھنٹے سے بجلی نہیں ہم نے کہا کہ آجاتی ہے فون بند ہوا تو اتفاق سے دس منٹ بعد بجلی آگئی جہاں ہم تھے لوڈ شیڈنگ وہاں بھی تھی ہم نے فوری بیگم صاحبہ کو کال کی اور دریافت کیا کہ بجلی آگئی؟ کہنے لگیں جی آگئی بیگم صاحبہ نے ہمارا شکریہ ادا کیا وہ سمجھیں شائد لائٹ ہمارے کہنے پر آئی ہے اور یوں ہماری تمکنت میں اضافہ ہوا اسی طرح ہمارے ملک میں کئی کام خود بخود ہو جاتے ہیں لیکن بھولے بھالے عوام سمجھتے ہیں کہ ان کے یہ کام فلاں سرکاری بندے یا کسی سیاسی شخصیت کے کہنے پر ہورہے ہیں حالانکہ اگر ملک کی سیاسی شخصیات یا ہمارے سرکاری افسر قیام پاکستان کے بعد دیانتداری سے کام کرتے تو کیا بعید تھا کہ ملک کا کوئی مسئلہ باقی رہتا یا عوام کی حالت ایسے ہوتی بے روزگاری رہتی یا عوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم رہتے یا قیام پاکستان کے آج 77سال بعد بھی سہولیات کا فقدان ہوتا ہم تو آج بھی اپنے معمولی سے معمولی کاموں کے لیے سیاسی شخصیات کے رہن منت ہیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہوتا ترقی پذیر ممالک بھی ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں اسی وقت شامل ہوتے ہیں جب ان کے معاشروں میں سب کے حقوق کو مساوی سمجھا جائے سب کو یکساں بلا تفریق انصاف کیا جائے سب کو تعلیم اور صحت میں آسانیاں میسر ہوں سب کے کام میرٹ پر ہوں لیکن ہم نے اپنے آپ میں وہ کمال پیدا نہیں کئے یا ہم اپنے اسلاف کے ان رہنما اصولوں پر نہیں چلے جن پہ چل کر ہمیں منزل مقصود ملتی۔ بانی پاکستان سے کسی نے پوچھا پاکستان کس کیلئے بنا رہے ہیں قائد اعظمؒ نے جواب دیا کہ میں پاکستان غریبوں کے لئے بنا رہا ہوں جہاں امیر و غریب میں ان شاء اللہ کوئی فرق نہ ہوگا لیکن آج قائد کے پاکستان کو سیاستدانوں نے صرف امیروں کا ملک بنا دیا ہے۔
قائد اعظمؒ نے گورنر جنرل کی حیثیت سے پہلی وفاقی کابینہ تشکیل دی تو کابینہ صرف دس شخصیات پر مشتمل تھی جو صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر تھی حالانکہ مشرقی پاکستان بھی اس وقت پاکستان کا حصہ تھا اب قائد کے پاکستان میں آج کی کابینہ کی تعداد دیکھئے اور سوچئیے کیا پاکستان ایسے ترقی کرسکتا ہے یا پاکستان کے مسائل ایسے حل ہوسکتے ہیں ایسے تو مسائل اور بھی زیادہ ہونگے ہم نے دوسروں پر اکتفا کیا دوسروں کے آگے دست طلب دراز کیا اور دوسروں کے ہو کر رہ گئے نتیجتاً آج ہمارے ملک کی پالیسیوں کو دوسروں کے جنبش ابرو پر وضع کیا جارہا ہے عالمی مالیاتی ادارہ جیسے چاہتا ہے ہم ویسا کر دیتے ہیں قیام پاکستان کے بعد ہم نے گیارہ سال بعد 1958ء میں پہلی بار آئی ایم سے قرض لیا تب سے لے کر آج تک قرض کے دریا میں بہتے جارہے ہیں ہر حکومت اس بات کا اعادہ کرتی ہے کہ یہ اس کا آخری قرض ہوگا اور یہ کہتے ہم یہاں تک آ پہنچے ہیں ایک سابق وزیراعظم تو یہ تک کہہ اٹھے تھے کہ میں قرض سے خود کشی کو ترجیح دوں گا اور پھر منتخب ہو کر اس قدر قرض لیا کہ تاریخ کو مات کر دیا یوں ہمارے حالات جھوٹ سچ اور وہم و گماں کے درمیان ہیں کل ایک جماعت کے بانی امریکی غلامی نامنظور کے نعرے لگاتے رہے آج اسی جماعت کے جلسوں میں امریکی پرچم سربلند نظر آئے اور نو منتخب امریکی صدر سے بہت سی توقعات وابستہ کر لی گئی ہیں کہ وہ پاکستان کے ایک اسیر کو آزادیوں کی دولت سے مالامال کر دیں گے ہمارا یہ دہرا معیار ہی ہماری ناکامیوں کا شاخسانہ ہے یعنی ہم نے ہر معاملے میں اغیار پر بھروسہ کیا۔
ہماری ایک سیاسی جماعت اقتدار میں آتی ہے تو دوسری جماعت یہ کہنا شروع ہو جاتی ہے کہ بس یہ حکومت جا رہی ہے اور ہماری حکومت آرہی ہے دوسری حکومت آتی ہے تو پہلی کہنا شروع کر دیتی ہے ک یہ حکومت جا رہی ہے اور ہماری حکومت آرہی ہے بس حکومتوں کے اسی آنے اور جانے پر عوام کے حالات روز بروز خراب سے خراب تر ہوتے گئے سیاست دانوں نے سیاست کو ملک کی ترقی عوام کی خوشحالی کے لیے استعمال نہیں کیا بلکہ سیاستدان اپنی سیاست کو ذاتی رنجشوں یا مفادات کے لیے استعمال کرتے رہے ایک طرف پاکستان کے حکمران ہیں اور دوسری طرف پاکستان کے مسائل ہیں اور ملک کے سیاستدانوں اور مسائل کے مابین عوام پس رہی ہیں ہمارے سیاستدانوں نے 50سال پہلے جو وعدے کئے تھے وہی وعدے یہ سیاستدان آج بھی کر رہے ہیں یعنی جو مسائل 50سال پہلے ہمیں درپیش تھے آج بھی وہی ہیں نہ تو عوام کا چلن بدلا نہ حکمرانوں نے اپنی روش بدلی نہ ہمارے حالات بدلے جب تک عوام خود کو بدلنا نہیں چاہیں گے حالات جوں کے توں رہیں گے وہی لوگ ہم پر مسلط رہیں گے جو ہمیں اس حال تک کے آئے ہیں ۔ سعودی عرب کے دارالحکومت الریاض میں عرب ممالک کے سربراہان کا اجلاس ہوا جس میں اسرائیلی مظالم کی کھل کر مذمت کی گئی وزیراعظم شہباز شریف نے توانا آواز کے ساتھ فلسطین کے بھرپور ساتھ کا عزم اور اسرائیل کے پیہم جبر کا ذکر اور اس جبر کو روکنے کیلئے عالمی دنیا تک اپنا واضح پیغام پہنچا دیا لیکن بات اتنی سی ہے دنیا نے کچھ نہیں کرنا جو کرنا ہے عالم اسلام کے رہنمائوں نے کرنا ہے دنیا تو ہمارا تماشا دیکھتی رہی بلکہ اسرائیل کے ساتھ مل کر دنیا نے مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ روا رکھا ہوا ہے ۔
اب گوجرانوالہ سے انسپکٹر مکرم حسین اعوان کی بھیجی ہوئی نعت رسول مقبول:
عدم وجود سے پہلے تھے نعت کے چرچے
خدا کے نور، محمد کی ذات کے چرچے
سکھائے آدم و حوا کو پنجتن کے نام
بنائے بعد میں اس کائنات کے چرچے
فلک پہ ایک ملاقات ہے سرِ پردہ
زمیں پہ پھیل گیے ایک ہاتھ کے چرچے
فلک شگاف ہے تکبیر کی صدا ہر سو
زمین بوس ہیں لات و منات کے چرچے
زماں سمیٹے ہوئے تھا رموزِ کن فیکون
حضور آئے تو پھیلے جہات کے چرچے
ہے ایک اسم محمد لسانیات کی رمز
ہیں ایک اسم سے سارے لغات کے چرچے
خدا اگرچہ وعید اس پہ سخت کرتا ہے
سلام و نعت سے ہیں شعریات کے چرچے





