حکمرانوں کے لئے متنازعہ آئینی شقیں اور نااہلی کے سرٹیفکیٹ

تحریر: محمد حنیف میمن
میں کوئی دانشور تو نہیں اور نہ ہی کوئی بڑا فلاسفر ہوں۔ میں ایک ادنا سا طالبعلم ہوں، جب کبھی مجھے کوئی اچھا آئیڈیا ذہن میں آتا ہے، اس پر تھوڑی سی محنت کے بعد ایک مکمل کالم کیف شکل میں ڈھالنا میرے لئے کوئی مشکل نہیں ہوتا۔ یہاں تمام آئیڈیاز خاص طور پر سیاست پر ہوتے ہیں جن کو فوکس کرنا میرے ذہن کی دلچسپی کا مظہر ہیں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ سیاست کے ان گوشوں پر طبع آزمائی کروں جن پر لکھنے والوں نے کم ہی لکھا ہو۔ یورپی ممالک کی جمہوریت اور ہماری جمہوریت کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہمیں جمہوریت کی اصل روح تک پہنچنے میں 200برس لگ سکتے ہیں۔ کہاں یورپ کی صاف شفاف جمہوریت اور کہاں ہماری جمہوریت۔ یورپ میں لوگ اپنا ووٹ بریانی کی ایک پلیٹ یا قیمہ پراٹھا پر نہیں دیتے بلکہ امیدوار کی قابلیت اور ایمانداری پر دیتے ہیں۔ اس کے لئے دو طرح کے محاورے دئیے جا سکتے ہیں۔ پہلا کچھ یوں ہے، ’’ جیسا راجا، ویسی پرجا‘‘۔ یعنی جیسا سردار ویسے ہی اس کے ماتحت بھی ہوتے ہیں۔ حاکم وقت کی نیت اور طرز عمل کا اثر رعایا پر کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے۔ اس طرح کا دوسرا محاورہ کچھ یوں ہے کہ ’’ جیسی رعایا ویسے ہی حکمران ہوتے ہیں‘‘، یعنی جیسے ہمارے اعمال ویسے ہمارے حکمران ۔ ہم اکثر سنتے ہیں کہ جیسی رعایا ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ ان پر ویسے ہی حکمران نافذ کرتا ہے۔ اس وقت ہمیں حیرانی ہوتی ہے، جب ہمارے عوام ایک طرف ملک میں مارشل لاء لگنے پر مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں تو دوسری طرف ملک میں جمہوریت آنے پر بھنگڑے ڈالتے ہیں۔ اس لئے عوام کی سوچ اور مزاج جمہوری اور غیر جمہوری حکمرانوں کے لئے ہمیشہ تیار رہتا ہے۔





