خون چوسنے کا دورانیہ

سیدہ عنبرین
رائے ونڈ فیملی کی اہم خاتون کے بارے میں سوشل میڈیا تواتر سے خبر دے رہا ہے کہ انہیں کینسر کا عارضہ لاحق ہے۔ ان کے خاندانی ذرائع یا سرکاری ترجمان چاہتے تو ہدایت کے مطابق اس کی تصدیق یا تردید کر سکتے تھے، ان کی طرف سے اس حوالے سے مکمل خاموشی ہے، عین ممکن ہے بیرون ملک ان کے دورے سے واپسی پر کوئی بیان سامنے آئے، خبر دینے والے لاہور کے ایک ماڈرن ہسپتال میں ان کے ہونے والے متعدد ٹیسٹوں کے نتائج کی خبر دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان کے اتفاق ہسپتال جانے اور ان کی علالت کے حوالے سے علاج کی خبر قومی میڈیا میں شائع ہو چکی ہے، وہ خود بھی کچھ عرصہ قبل میڈیا کو بتا چکی تھیں کہ انہیں ایک چھوٹی سی سرجری کیلئے بیرون ملک جانا ہے۔ عین ممکن ہے ان کا یہ دورہ اسی سرجری کے سلسلے میں ہو، بے نظیر بھٹو سے لے کر آج تک جتنی خواتین سیاستدان سامنے آتی ہیں مشاہدے میں آیا کہ وہ اپنا پرس خود اٹھایا کرتی تھیں، اس پرس میں ان کی ضرورت کی ضروری ترین اشیاء ہر وقت ساتھ ہوتی ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے ہاتھ میں ان کا پرس نہیں ہوتا، یہ شاید ان کی سیکرٹری اٹھاتی ہیں لیکن ان کے ہاتھ میں ایک امپورٹڈ سلور کلر کی ’’ واٹر باٹل‘‘ ہمیشہ نظر آتی ہے، وہ چاہیں تو پانی کی یہ بوتل بھی اپنی سیکرٹری کے حوالے کر سکتی ہیں لیکن وہ اسے اپنے ہاتھ میں رکھنا ضروری سمجھتی ہیں، اپنے پانی کی بوتل خود اٹھائے رکھنا اسے کسی اور کے ہاتھ میں نہ دینا ایک اور خیال کو تقویت دیتا ہے، بوتل کا مالک سمجھتا ہے اس کی بوتل کو کسی اور کے ہاتھ لگ گئے تو اسے ہاتھ لگانے والے کے جراثیم چمٹ جائیں گے اور پھر اس بوتل کو منہ لگانے سے ہاتھ کے وہ جراثیم اس کے بدن میں منتقل ہو سکتے ہیں، بیمار شخص جو احتیاط اپنے لئے مناسب سمجھے اسے وہ سب کچھ کرنے کا حق حاصل ہے۔
ہم میں، آپ میں سے شاید ہی کوئی ہو گا جس نے اپنے بچپن کے اردو انگریزی قاعدوں میں ’’ تندرستی ہزار نعمت ہے‘‘ نہ پڑھا ہو، بچپن میں ناسمجھی کے سبب اس بات کی سمجھ نہیں آتی، جوانی دیوانی کہلاتی ہے، لہٰذا اس طرف دھیان نہیں جاتا کہ کیا منہ میں ڈالنا ہے اور کیا منہ میں نہیں ڈالنا، کہتے ہیں زبان کا چسکا بہت ظالم ہوتا ہے، اس کے اسیر ایسی غذائوں، ایسی باتوں سے پرہیز نہیں کرتے جس سے پرہیز کرنا چاہیے، جوانی ڈھل جانے کے بعد انسان خواہ کتنا ہی قابل رشک صحت کا مالک کیوں نہ ہو، جسم میں قوت مدافعت نہیں رہتی، ایسے میں جسم کے اندر چھپی ہوئی بیماریاں عود کر آتی ہیں یا کمزور مدافعتی نظام کے باعث بیماریاں حملہ آور ہوتی ہیں۔ دود سارے ہی بے چین کئے دیتے ہیں، بیماری کوئی بھی ہو وہ تکلیف دے ہوتی ہے، کینسر ایک موذی مرض ہے، اس کی کئی اقسام ہیں، یہ جسم کے کسی بھی حصے میں ہو سکتا ہے، اسے آپریشن کر کے جسم سے نکالا جا سکتا ہے، لیکن اس کی جڑیں پھیل چکی ہوں تو بعض اوقات یہ قابو میں نہیں آتا، آپریشن کر کے کینسر زدہ حصہ نکال بھی دیا جائے تو اس کی جڑیں پھیلتی رہتی ہیں ۔ جسم کے کسی حصے میں گلٹی یا گلٹیوں کی شکل میں کینسر موجود ہو تو یہ گلٹیاں تیزی سے ہو کر سامنے آ جاتی ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ یہ سخت ہوتی جاتی ہیں لیکن یہ ابتداء میں تکلیف نہیں دیتیں، کچھ عرصہ بعد یہ پھیلنا شروع کرتی ہیں اور ہاتھ لگانے یا انہیں دبانے سے تکلیف ہوتی ہے۔ اس قسم کے کینسر کا مریض اپنے آخری دم تک دیکھنے میں تر و تازہ نظر ہے، اس کا رنگ اگر گورا ہے تو وہ سرخ و سفید نظر آتا رہے گا، دیکھنے والے اسے انتہائی صحت مند سمجھتے رہتے ہیں، حتیٰ کہ اس کا آخری وقت آ جاتا ہے۔ بلڈ کینسر اس حوالے سے خطرناک مرض ہے کہ کینسر کے خلیے تیزی سے خون کو جلاتے رہتے ہیں، لہٰذا ایسے مریض کو بہت زیادہ خون کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مریض کیلئے ہر وقت اس کے گروپ کے خون کا انتظام رکھنا پڑتا ہے، جسم کے کسی حصے میں آپریشن کے ذریعے کینسر کو نکالنے کے بعد تھراپی ضروری سمجھی جاتی ہے، جو تکلیف دہ عمل ہے، آپریشن کیلئے اب ’’ سایبر نایف‘‘ ٹیکنالوجی آ چکی ہے، اس میں جسم کے کسی حصی پر کٹ نہیں لگانا پڑتا، لیکن یہ سہولت پاکستان میں عام نہیں ہے، بہت کم ہسپتالوں میں موجود ہے، اس کے ماہر بھی بس گنے چنے ہیں، نئی نسل کے نوجوان ڈاکٹر لڑکے اور لڑکیاں اب زچہ بچہ و ہڈیوں کے علاج کے علاوہ جن ماڈرن طریقوں کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں ان میں ہارٹ سرجری اور ’’ سایبر نایف‘‘ کا علم شامل ہے۔ ایک تکلیف دہ حقیقت یہ بھی ہے کہ ملک کی بعض اہم شخصیتوں نے ایک منصوبہ بندی کے تحت خبر بریک کی کہ انہیں کینسر کا موذی مرض لاحق ہو گیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانہ اقتدار میں ایک سیاسی شخصیت نے لندن جانے کی اجازت کیلئے رابطہ کیا اور بتایا کہ ان کے بیٹے کو کمر کا کینسر ہو گیا ہے، جس کا علاج وہ لندن میں کرانا چاہتے ہیں، انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر ان کی درخواست کے مطابق انہیں حجاز سے لندن جانے کی اجازت دے دی گئی، جہاں بیٹے کے علاج کے بجائے انہوں نے اپنا بند کاروبار ازسرنو شروع کیا، اسی خاندان کے ایک اور فرد کے بارے میں بھی یہ مشہور کیا گیا کہ انہیں بھی کمر کا کینسر ہو گیا ہے، یہ خبر آج سے بیس برس قبل مارکیٹ کی گئی تھی، جب سے اب تک وہ ہٹے کٹے ہیں، بھاگتے دوڑتے ہیں اور کمر پر زور پڑنے والے کسی کام سے نہیں گھبراتے، بلکہ ان کی زندگی میں جو دو چیلنج نظر آتے ہیں وہ کاروبار اور کمر کی مشقت ہے۔
ایک ماہر نفسیات نے ان حوالوں سے خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ حقیقی معنوں میں اگر کوئی کینسر یا کسی بھی موذی مرض کا شکار ہو جائے تو اس کیلئے دعائیں کی جا سکتی ہیں، دعا ضرور کرنی چاہئے لیکن بعض متنازعہ شخصیات اپنے حلقہ احباب میں اس خبر کو عام اس لئے کرتی ہیں کہ لوگوں کے دلوں میں ان کیلئے رحم کے جذبات پیدا ہوں، پھر وہ سوچنے لگیں کہ یہ شخص تکلیف میں ہے اور بس اب مختصر عرصے کا مہمان ہے، لہٰذا وہ جو کچھ کر رہا ہے، اسے کرنے دو، گویا اسے سات خون کر دو، جسے قوم سات خون معاف کر دے بعض اوقات وہ قوم کا خون چوس چوس کر پہلے سے زیادہ صحت مند ہو جاتا ہے۔ جو لوگ یہ سوچتے ہیں انہیں بیس برس بعد اندازہ ہوتا ہے ان کی سوچ غلط تھی، وہ جھانسے میں آ گئے، موذی مرض کے شکار سے جان نہیں چھوٹی، خون چوسنے کا دورانیہ بڑھ گیا ہے۔





