غیر متوازن حج پالیسی

امتیاز عاصی
حج ایک مجاہدہ ہے جو زندگی میں صاحب استطاعت لوگوں پر ایک مرتبہ فرض کیا گیا ہے۔ یہ حج کے فیوض و برکات ہیں عالم اسلام سے لاکھوں فرزندان اسلام ہر سال حج کا قصد کرتے ہیں جنہیں راستے میں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا اور وہ پرامن طریقہ سے منعم حقیقی کی بارگاہ میں حاضری دے کر وطن لوٹ جاتے ہیں۔ سرور کائناتؐ سے صحابہؓ میں سے کسی نے پوچھا تھا یا رسولؐ حج زندگی میں کتنی بار فرض ہے سرکار دو عالمؐ خاموش رہے جب تیسری مرتبہ یہی سوال دہرایا گیا تو فرمایا ایک بار۔ اگر حج مسلمانوں پر کئی بار فرض ہو جاتا تو امت کی مشکلات بڑھ جاتیں یہ علیحدہ بات ہے صاحب ثروت لوگ زندگی میں کئی مرتبہ حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ اس ناچیز کا شمار ان خوش قسمت لوگوں میں ہوتا ہے جسے دس بار حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ گو حج پالیسی کا باضابطہ اعلان تو نہیں ہوا ہے کابینہ نے حج پالیسی کی منظوری دی ہے۔ جہاں تک سعودی عرب میں حج انتظامات کا تعلق ہے تمام ملکوں کو سعودی تعلیمات پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو حج پالیسی میں ہر سال کوئی نئی تبدیلی نہیں ہوتی ماسوائے حج کے واجبات میں کمی یا زیادتی کے کوئی اہم تبدیلی نہیں ہوتی البتہ سعودی حکومت حج انتظامات میں تبدیلیاں کرتی رہتی ہے ۔ جیسا کہ کسی زمانے میں مشاعر مقدسہ میں خیموں کی کوئی کیٹگری نہیں ہوا کرتی تھی آج کل خیموں کی کئی کیٹگریاں متعارف کرائی گئی ہیں۔ ہم گزشتہ برس کے حج انتظامات پر نظر ڈالیں تو سعودی عرب میں قائم حج مشن کی سست روی اور وزارت مذہبی امور میں مبینہ طور پر بدانتظامی سے پرائیویٹ گروپس لے جانے والے گروپ آرگنائزروں کو منیٰ میں کیٹگری اے میں خیموں سے محروم رہنا پڑا جس سے نجی گروپ میں جانے والوں کو جمرات سے خاصی مسافت پر خیموں کی فراہمی کی گئی حالانکہ نجی گروپ لے جانے والے گروپ آرگنائزروں کو اپنے کوٹہ کے حجاج کے لئے رقم بروقت بھیجنے کے باوجود زون ون میں خیموں کے حصول سے محروم رکھنے کی ذمہ داری کا تعین نہیں کیا گیا۔ امسال وزارت مذہبی امور نے پرائیویٹ گروپس آرگنائزوں کو منیٰ کے خیموں کی کیٹگری ون کے حصول کے لئے رقم بھیجنے کی اجازت دے کر ٹور آپرٹیروں کو انتظامات کرنے میں آسانی پیدا کر دی۔ گزشتہ برس وزارت مذہبی امور نے سرکاری کوٹہ میں جانے والے عازمین حج کی بکنگ مکمل کرنے کے باوجود نجی گروپس لے جانے والوں کو بکنگ کی اجازت تاخیر سے دی جس حجاج کو مشکلات سے دوچار ہونا پڑا۔ گزشتہ برس ٹور آپرٹروں کو اپنے طور پر حج پیکیج بنانے کی اجازت دے دی گئی تھی تاہم نئی حج پالیسی میں وفاقی کابینہ نے اس امر کی اجازت نہیں دی حج گروپ آرگنائزروں کو اپنے پیکیج سے قبل از وقت وزارت مذہبی امور کو آگاہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جو اس اعتبار سے احسن اقدام ہے جس سے چیک اینڈ بیلنس کا پہلو ملحوظ رہے گا۔ گزشتہ برس حج گروپ آرگنائزروں کو یہ شکایت تھی سعودی عرب میں ان کے اکائونٹس بینک الرجعی میں تھے لیکن انہیں خیموں کے واجبات بینک الریاض میں بھیجنے سے مشاعر مقدسہ کے انتظامات کرنے میں دشواری پیش آئی تھی۔ سعودی عرب میں ایک معمول ہے جب کوئی کسی بینک میں بڑا اکائونٹس رکھتا ہے یا جیسا کہ حاجیوں کے لئے رہائشی انتظامات کا حصول ہو تو اندرون خانہ بخشیش کے پہلو کو ضرور مدنظر رکھا جاتا ہے لہذا وزارت مذہبی امور کے حکام کو رہائشی معاہدوں میں ہونے والی مبینہ کرپشن کو روکنے کے لئے بھی اقدامات کرنے ہوں گیا اس مقصد کے لئے ہوٹلز مالکان سے براہ راست معاہدے ہوں یا سعودی مستاجروں سے براہ راست معاہدہ کیا جائے تو ایجنٹ مافیا کا خاتمہ ممکن ہے۔ ہمیں حیرت اس پر ہے ماضی میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں سرکاری سکیم میں جانے والے عازمین حج کے رہائشی کرایوں سے عازمین حج کو حج پالیسی کا اعلان کرتے وقت آگاہ کر دیا جاتا تھا کچھ سالوں سے وزارت مذہبی امور نے نہ جانے کن وجوہات کی بنا کرایوں کی شرح کو مخفی رکھنا شروع کر دیا ہے۔ سوال ہے سعودی عرب میں اتنا بڑا حج مشن
کس مقصد کے لئے قائم کیا گیا ہے ماسوائے حج موسم کے وہاں کا عملہ پورا سال فارغ رہتا ہے لہذا رہائشی کرایوں کی شرح سے عازمین حج کو قبل از وقت بتانا ضروری ہے۔ رہائش ، ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولتوں کے لئے واجبات کی ادائیگی کو خفیہ رکھنے کے بعد حج پالیسی کا اعلان بے معانی ہو جاتا ہے۔ حج پالیسی میں سرکاری اسکیم میں جانے والے عازمین حج کو رہائشی کرایوں کی طرح ان کے قیام کی مدت حتمی طور پر نہیں بتائی گئی ہے ۔ نہ عازمین حج کو حج درخواستیں جمع کرانے کے لئے قومی بینکوں کے ناموں سے آگاہ کیا گیا ہے۔ سعودی حکومت کا یہ طریقہ کار رہاہے وہ حج انتظامات سے متعلق تمام ملکوں کو کئی ماہ قبل آگاہ کر دیتی ہے جیسا کہ سعودی وزارت حج کے ٹائم فریم کے مطابق آئندہ سال حج انتظامات اسلامی ماہ کی 23ربیع ثانی سے شروع ہو چکے ہیں۔ ہمیں تو سمجھ نہیں آرہا ہے وزارت مذہبی امور نے کیسی حج پالیسی بنائی ہے جس میں حج واجبات کا حتمی طور پر تعین نہیں ہو سکا ہے۔ ہمیں یاد ہے گزشتہ برسوں میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں رہائشی کرایوں اور ائر لائنز کے ٹکٹوں کی شرح سے عازمین حج کو حج درخواستیں جمع کراتے وقت بتا دیا جاتا تھا۔ ہمارا ملک معاشی مسائل سے دوچار ہے دوسری طرف حکومت پاکستان حج مشن میں افسران کی فوج ظفر موج بھیجے جا رہی ہے جو قومی خزانے کا ضیاع نہیں تو اور کیا ہے۔ وزارت مذہبی امور کا یہ معمول رہا ہے وہ وزارت خزانہ اور سٹیٹ بنک حکام سے بات چیت کرکے ڈالر کی شرع کو فکس کر کے رہائشی اور ہوائی جہاز کے کرایوں سے عازمین حج کو قبل از وقت آگاہ کر دیتی تھی۔ عجیب تماشا ہے بجائے کرایوں میں رعایت دینے کے حج واجبات قسطوں میں وصول کرکے عازمین حج کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سوال ہے ہر سال رہائشی کرایوں کی رقم سعودی مالکان کو ادا کی جاتی ہے اگر کوئی رہائشی جگہ خالی رہ جائے تو وزارت مذہبی امور مالکان سے کرایوں کی رقم کی واپسی کے لئے کوئی اقدامات کرتی ہے؟ ۔





