خواجہ آصف کو داد دینی چاہیے

تحریر : امتیاز عاصی
ہمیں ہنسی اس بات پر آرہی ہے اسد قیصر کی قیادت میں پی ٹی آئی وفد نے جے یوآئی کے امیر مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی جس میں قانون سازی پر مشاورت ہوئی البتہ آئینی ترامیم کے خلاف تحریک پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چودھری نے اخباری نمائندوں کو بتایا قانون سازی پردونوں جماعتوں کا موقف ایک ہے۔تعجب ہے دونوں جماعتوں کے رہنمائوں کے مابین قانون سازی پر کیا بات چیت ہوئی ہوگی جب حکومت نے اپنے تمام مسائل حل کرلئے ہیں ۔ہاں ایک بات رہ گئی ہے وہ بھی آنے والے دنوں میں ہو جائے گی۔عمران خان کے دیرینہ ساتھی اور موجودہ حکومت کے حلیف نور عالم اور مسلم لیگ ضیاء الحق کے صدر اعجاز الحق فوجی عدالتوں کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے فوجی عدالتوں کی اشد ضرورت ہے۔وقتی طور پر حکومت نے فوجی عدالتوں کی بجائے دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم کرکے کسی حد تک مقصد پورا کر لیا ہے تاوقتیکہ کے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں نہیں لایا جاتا کم ازکم مطلوبہ لوگوں کو حراست میں تو رکھا جا سکے گا۔حکومت نے آئینی ترامیم کے دوران صبر وتحمل سے کام لیتے ہوئے پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے بندوں کو مہمان بنا کر مقاصد پور ے کر لئے جس کے بعد حکومت کو مولانا کی شائد ضرورت نہیں رہے گی۔حکومت کو اس بات کی داد دینی چاہیے سروسز چیفس کی مدت ملازمت والا مسئلہ اس طرح حل کیا جیسے کہا جائے سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی نہیں ٹوٹی والی بات مقصد پورا ہو گیا اور ساتھ منہ بند ہو جائیں گے۔ اگر آرمی چیف کی مدت ملازمت بڑھائی جاتی تو حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔سیاسی جماعتوں نے بادل نخواستہ کڑوا گھونٹ پی لیا اور چپ سادھ لی۔سوال ہے اپوزیشن کو پہلے اتنا چمپئن بننے کی کیا ضرورت تھی۔آئینی ترامیم اور دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم کا سہرا وزیراعظم شہباز شریف کو جاتا ہے ۔پنجاب میں وزیراعلیٰ تھے تو علی الصبح آفس چلے جانا ان کا معمول تھا۔اب بھی اسی جذبے کے ساتھ کام کر رہے ہیں ۔ ان کے دیرینہ ساتھی احد چیمہ کے ہوتے ہوئے انہیں معاشی مسائل کے سلسلے میں کسی اور سے مشاورت اتنی ضرورت نہیں رہی ہو گی۔ قربانی کی بھی حد ہوتی ہے سول سروس کو خیر آباد کہہ کر سیاست دانوں کے ساتھ کام کرنا دل گردے کا کام ہے بقول ان کے ایک قریبی دوست انہیں سرکاری ملازمت کی ویسے بھی ضرورت نہیں رہی تھی۔جے یو آئی کے امیر لندن روانہ ہو چکے ہیں عین ممکن ہے وہاں ان کی ملاقات قائد جمہوریت نواز شریف سے ہو جائے جس میں عہدوں کے سلسلے میں کچھ نہ کچھ مشاورت ہو سکتی ہے۔خواجہ آصف بڑے سمجھدار وزیر ہیں اپنی حکومت کادفاع کرنا جانتے ہیں۔بے چاری عثمان ڈار کی اماں دیکھتی رہ گئی اور خواجہ صاحب وفاقی وزیر دفاع بن گئے۔ خواجہ آصف کوئی نہ کوئی بات کرکے اخباری شہ سرخیوں کی زینت بنے رہتے ہیں ۔ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے پی ٹی آئی کے لوگ عمران خان کو باہر لے جانا چا ہا رہے ہیں۔خواجہ آصف کے بیان کی داد دینی چاہیے عمران خان جیل میں مرنے کو تیار ہے اور آزادی پرکوئی سمجھوتہ کرنی کو تیار نہیں۔خواجہ آصف اسے بیرون ملک بھیج رہے ہیں اگر اس نے باہر جانا ہوتا وہ اسے ایک سال پہلے چلے جاتا ۔عمران خان بڑے مضبوط اعصاب کا مالک ہے وہ کبھی باہر نہیں جائے گا۔شائد خواجہ آصف نے اسے نواز شریف سمجھ رکھا ہے۔دراصل خواجہ آصف کا یہ بیان دینے کا مقصد پی ٹی آئی ورکرز میں بددلی پھیلنا ہے کارکنوں کو پتہ چلے گا ان کا لیڈر باہر جا رہا ہے پھر انہیں سڑکوں پر آنے کی کیا ضرورت ہے۔پی ٹی آئی رہنمائوں سمیت بے شمار ورکرز جیلوں میں سانحہ نو مئی کے مقدمہ کی سماعت کے منتظر ہیں۔پی ٹی آئی جلسوں کا اعلان کرتی ہے جیلوں میں پی ٹی آئی ورکرز کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اب تو
جیلوںکے ملازمین تنگ آچکے ہیں ۔جیلوں میں جگہ کی قلت کے باعث روز بروز مسائل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ہمیں تو جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی پر حیرت ہوتی ہے وہ اب آئینی ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے ۔اللہ کے بندوں کس کے سامنے رونا رو گئے ۔آئینی بینچ بن چکا ہے کیوں اپنا اور وکلاء کے وقت کا ضیاع کرو گے ۔ آپ سب جماعتوں کو صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ ویسے بھی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔پی ٹی آئی صوابی میں جلسہ کرے گی جس میں آئندہ کا لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔کے پی کے میں تو پی ٹی آئی کو جلسہ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں وہاں کے لوگ جوق در جوق چلے آئیں گے پنجاب میں عمران خان خاصا مقبول ہے یہاں کے رہنے والے اس جذبے سے باہر نہیں نکلیں گے جس جذبے کے ساتھ کے پی کے عوام اسلام آباد چلے آتے ہیں۔مجھے ذوالفقار علی بھٹو کا دور دیکھنا ملا لوگوں کا نعرہ ہوتا تھا بھٹو آئے گا راج چلائے گا۔ سرخ ہے سرخ ہے ایشاء سرخ ہے۔ مجھے وہ صبح اچھی طرح یاد ہے جب صبح سویرے اخبارات نے بھٹو کی پھانسی پرضمیمے نکالے۔عوام میں بھٹو کتنا مقبول تھا کیا ہوا کسی نے پھانسی کے خلاف نعرہ تک نہیں لگایا ۔یہ اور بات ہے بعض لوگوں نے خودکشیاں کیں اور کوڑے کھائے شاہی قلعہ کی جیلیں کاٹیں۔ بھٹو کی بیٹی کو شہید کر دیا گیا جسے چاروں صوبوں کی زنجیر کہہ کر نعرہ لگایا جاتا تھا سب قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ جب کوئی قوم کرپٹ ہو جائے اس سے کسی انقلاب کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ہاں ایک بات ضرور ہے انتخابات جب بھی ہوئے عوام عمران خان کی جماعت کو ووٹ دیں گے۔ جیلوں میں رکھ کر کسی کو کسی سے دل سے نہیں نکلا جا سکتا۔ پاکستانی قوم اس لحاظ سے بدقسمت ہے اسے ایسے سیاسی رہنمائوں سے واسطہ پڑا ہے جن کی سیاست اور زندگی کا مقصد اندرون اور بیرون ملک اثاثے بنانا ہے۔ حالات بدلتے دیر نہیں لگتی شائد عمران خان کے خلاف فوجی عدالت میں کیس چلانے کا خواجہ آصف کاخواب پورا نہیں ہو سکے گا۔





