’’ کیا ٹرمپ ہمارا ابا لگتا ہے‘‘

تحریر : صفدر علی حیدری
ایک سیاسی تجزیہ نگار کی بات خاصی وزن دار ہے کہ طاقت صرف لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ شکست صرف بیلٹ سے دی جا سکتی ہے ۔ لیکن یہ بات ان ملکوں پر صادق آتی ہے جہاں جمہوریت اپنی اصل شکل میں ہے۔ یہ بات امریکی الیکشن میں دیکھنے پر بھی صادق آتی ہے۔ ٹرمپ کو ہروانے کی ہر ممکن کوشش کے باوجود اسے شکست نہیں دی جا سکی کہ بیلٹ میں پڑے ووٹ ایسا نہیں چاہتے تھے ۔
اب ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت نے امریکی اور بین الاقوامی سیاسی منظر نامے میں ہلچل پیدا کر دی ہے، امریکی صدارتی انتخابات میں عوام کی بڑی تعداد نے ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ طرزِ سیاست اور تبدیل شدہ امریکی پالیسیوں کو واپس لانے کی خواہش ظاہر کی ہے ۔ امریکا میں ووٹرز کی اکثریت معاشی مسائل، امیگریشن قوانین کی سختی اور امریکی حکومت میں ڈرامائی تبدیلیاں چاہتی تھی ، جسے ڈونلڈ ٹرمپ نی اپنے منشور میں جگہ دی اور پھر کامیابی سے ہم کنار ہوئے ۔ اس کامیابی کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ ایک ایسی حکومت کی تشکیل کا ارادہ رکھتے ہیں جو ان کے مخالفین پر کڑی نظر رکھے، بڑے پیمانے پر تارکینِ وطن کو نکالے اور امریکی اتحادیوں کے لیے سخت پالیسی بنائے۔ مذکورہ اقدامات کے ذریعے ٹرمپ ایک مضبوط امریکی قوم کا جو نظریہ پیش کر رہے تھے وہ یقیناً نوجوان ووٹرز میں مقبول ہوا ہے ۔
یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ وہ اپنی پالیسیوں پر کس حد تک عمل کرانے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ صدارتی انتخابات کے نتائج کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے 295الیکٹورل ووٹس کے ساتھ برتری حاصل کی ہے جبکہ کملا ہیرس کو صرف 226الیکٹورل ووٹس ملے۔ ریپبلکن پارٹی نے سینیٹ کی 52نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور ڈیموکریٹس پارٹی 43 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی، یوں اب ریپبلکن پارٹی کو سینیٹ میں اکثریت حاصل ہے۔ ایوان نمائندگان کانگریس میں ریپبلکن پارٹی نے 222نشستیں حاصل کیں جبکہ ڈیموکریٹس پارٹی کو 213نشستوں پر کامیابی ملی یعنی ریپبلکن پارٹی کو معمولی برتری حاصل ہے۔ ریاستی سطح پر گورنرز کی تعداد دیکھیں تو ریپبلکن پارٹی کے 27امیدوار بطور گورنر منتخب ہوئے جبکہ ڈیموکریٹس پارٹی کے 23 امیدوار کامیاب ہوئے۔ گویا ٹرمپ نے مخالفین کو چاروں شانے چت کیا ہے۔ ریپبلکن پارٹی نے ایوانِ نمائندگان کانگریس میں اکثریت حاصل کر لی ہے تو قانون سازی میں ان کا غلبہ متوقع ہے اور سینیٹ میں بھی ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اس لیے ڈیموکریٹس پارٹی کے لیے کسی بھی بل کی منظوری میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں ۔ اسی طرح گورنرز کی تعداد میں بھی ریپبلکن پارٹی کی برتری برقرار ہے، لیکن ڈیموکریٹس پارٹی نے واشنگٹن، ڈیلاویئر اور نارتھ کیرولائنا جیسی اہم ریاستوں میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور گورنرز ریاستوں کی سطح پر اہم فیصلوں میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں جن میں تعلیم، صحت اور گن کنٹرول جیسے موضوعات شامل ہیں تو یہ ترتیب ڈونلڈ ٹرمپ کے آئندہ ایجنڈے پر اثر ڈال سکتی ہے ۔
حالیہ صدارتی انتخابات کے بعد امریکی عوام کو ریپبلکن پارٹی کی حکمتِ عملی سے جو توقعات ہیں ان میں معاشی اصلاحات، امیگریشن کنٹرول اور امریکا کی عالمی پوزیشن کو دوبارہ مضبوط کرنا ہوں گے۔ کانگریس اور سینیٹ میں اکثریت ہونے کی وجہ سے ریپبلکن پارٹی کو اپنے قوانین اور پالیسیز نافذ کرنے میں ڈیموکریٹس پارٹی کی مخالفت کا سامنا کم کرنا پڑے گا۔ اب امریکی عوام ٹیکس میں چھوٹ، قومی سلامتی میں سختی اور عالمی اتحادیوں کے ساتھ محتاط رویہ اختیار کیے جانے کی توقع کر رہے ہیں ۔ ڈیموکریٹس پارٹی شکست کے بعد اب ایک چیلنجنگ پوزیشن میں آ گئی ہے جہاں انہیں ایوان میں اپنے ایجنڈے کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی زبردست حکمتِ عملی اپنانی ہو گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کا مرکز امریکا ہے اور ان کی معاشی پالیسی امریکا میں کاروبار اور ملازمتوں کو فروغ دینے کے لیے ٹیکس کٹوتیاں اور تجارتی معاہدوں میں ترامیم ہیں جن کا مقصد ملک کی معیشت کو مضبوط بنانا ہے ۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں نیٹو اور عالمی اداروں میں امریکی اخراجات پر نظر، چین کے ساتھ تجارتی جنگ ، ایران پر دبائو ڈالنا اور مشرق وسطیٰ میں امریکا کی موجودگی کو کم کرنا ہے ۔ وہ امیگریشن پالیسی میں سرحدی حفاظت اور غیر قانونی امیگریشن روکنے کے لیے سخت اقدامات اور دیوار کی تعمیر پر زور بھی دیتے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کی سماجی پالیسیاں جن میں اسقاطِ حمل ، اسلحہ رکھنے کے حقوق اور ہم جنس پرستی کے حوالے سے قوانین پر قدامت پسندانہ موقف ، عدالتوں میں قدامت پسند ججز کی تعیناتی بھی شامل ہے۔ ماحولیاتی پالیسی میں ڈونلڈ ٹرمپ صنعتی ترقی کے لیے ماحولیاتی پابندیوں کو کم کر کے اور پیرس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرنا چاہیں گے، یہ تمام پالیسیاں بقول ان کے امریکی معیشت، سماج، اور دفاع کو مستحکم بنانے کے لیے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات کی روشنی میں یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ مسلمان کاروباری افراد اور نوجوانوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت دہائیوں تک سپریم کورٹ میں قدامت پسند اکثریت کو یقینی بنا سکتی ہے، ویسے وہ اپنے پہلے پچھلے دورِ اقتدار میں 3سپریم کورٹ کے جج تعینات کر چکے ہیں جبکہ اب اپنے دوسرے دورِ اقتدار میں انہیں مزید 2جج نامزد کرنے کا بھی موقع مل سکتا ہے جس سے ایک ایسی سپریم کورٹ تشکیل پائے گی جس میں ان کے تعینات کردہ ججز کی اکثریت دہائیوں تک قائم رہے گی ۔ یہ فیصلہ کن نتیجہ عدالت کو انتخابی تنازعات میں الجھنے سے محفوظ رکھے گا اور اس سے اسقاطِ حمل اور امیگریشن جیسے اہم معاملات کے مقدمات کی نوعیت بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ یہ بات دل چسپی سے خالی نہ ہو گی کہ ایک امریکن پاکستانی سعود انور ریاست کنیکٹی کٹ کی سینیٹ کے مسلسل چوتھی بار رکن منتخب ہو گئے ۔ لگتا یہی ہے کہ ٹرمپ کی زیادہ تر توجہ کا مرکز امریکا ہی رہے گا کہ انھیں یہ ووٹ اس وجہ سے ملا ہے کہ وہ امریکا کی فلاح و بہبود پر فوکس کریں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایک سپر پاور کی حیثیت سے امریکا کو ہر طرف دیکھنا پڑے گا مگر اس بار بھی ٹرمپ کا دور جنگ و جدل سے دور ہو گا ۔ اگر ایسا ہوتا ہے ، جس کا قوی امکان موجود ہے ، تو یہ بات دنیا کے لیے نیک شگون ثابت ہو گی۔
اب آتے اپنے ملک میں تو یہاں پر ایمان داری کی بات یہ ہے کہ تجربہ کار حکومت اور اس کے پشت پناہ دبائو اور تنائو کا شکار ہیں ۔ جو بائیڈن کا دست شفقت اب دور ہونے کو ہے ۔ پاک سرکار بوکھلاہٹ کا شکار نظر آتی ہے ۔ کئی حکومتی وزراء نے ٹرمپ کے لیے جن ’’ نیک ‘‘ خیالات کا اظہار کیا ہے وہ واقعی حیرت انگیز بھی ہے اور افسوس ناک بھی ۔ یہاں ان کو غیر جانب دار رہنے کی ضرورت تھی۔ اگر وہ اپنے اس بیان سے خود کو جی دار ثابت کرنا چاہتے ہیں تو عرض ہے کہ قوم جانتی ہے آپ جی دار نہیں قرض دار ہیں۔ ادھر تحریک انصاف کے کچھ نادان دوست ٹرمپ کی کامیابی کو کپتان کی رہائی سے جوڑ رہے ہیں۔ یہ احمقانہ خیال ہے ۔ ایسا کبھی نہیں ہو گا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ کپتان کے بارے اچھے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور اچھی رائے رکھتے ہیں لیکن کپتان کی رہائی اس کی ترجیہات میں شاید آخری نمبر پر بھی نہ ہو۔ جیسا کہ عرض کیا ہے کہ ٹرمپ کا سارا فوکس پر امریکا ہے۔
ٹرمپ کو اپنے دوست کا غم کھائے نہیں جاتا کہ یہ سیاست ہے کہ جس کے سینے میں دل نہیں ہوتا ۔ یہاں کب جانی دشمن جگری یار بن جائے اور کب جگری یار جانی دشمن بن جائے ، اس بارے کچھ نہیں وثوق سے نہیں کہا جا سکتا ۔
محسن نے کہا
اب آخری سطروں میں کہیں نام ہے اس کا
احباب کی فہرست میں پہلا تھا جو اک شخص
ہارون رشید نے کپتان کے حوالے سے کہا ہے وہ چاہتے ہیں امریکہ غیر جانب دار رہے۔
اور یہی سچ ہے ۔ عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کو امریکی مداخلت سے جوڑتے رہیں۔ پھر انہوں نے’’ ہم کوئی غلام ہیں ‘‘ کا نعرہ مستانہ بھی تو بلند کیا تھا ۔ عوام کی غالب اکثریت ان کے ساتھ ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ وہ آزاد پاکستان چاہتے ہیں۔ اب اگر ایسا ہے تو پھر وہ کیوں چاہیں گے کہ اپنی رہائی کے لیے وہ امریکا کا احسان لیں اور اپنے امریکہ مخالف بیانیے کو ٹھیس پہنچائیں۔ لوگ کپتان کو اچھی طرح سی جانتے ہیں ۔ اگر رہا ہی ہونا تھا تو وہ کب کا ہو چکے ہوتے ۔ ناجانے کتنی ان کو ڈیل کی پیش کش کی گئی مگر ۔۔۔ ن لیگیوں کو جب یہ بات سمجھ میں آئے گی تو وہ خود بھی یہیں چاہیں گے کہ عوام میں یہی تاثر ابھرے کہ امریکا عمران خان کی رہائی کے لیے کوششیں کر رہا ہے ۔آرمی چیف کی سعودی فرمانروا سے ملاقات بڑی معنی خیز ہے۔ مستقبل قریب میں بہت کچھ ہونے کا امکان ہے۔ جب ٹرمپ وائٹ ہائوس پہنچے گا تو امریکا کی پاکستان کے بارے پالیسی ضرور تبدیل ہو گی ۔ اور یہی بات حکومت وقف کو پہلو بدلنے پر مجبور کر رہی ہے ۔
جو لوگ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد کپتان کی رہائی ہوتے دیکھ رہے ہیں ان کے لیے علمیہ خان کا بیان خاصے کی چیز ہے ۔ جب خان صاحب کی ہمشیرہ علیمہ خان سے کسی ’’ اتائولے‘‘ رپورٹر نے اس ویڈیو کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے الٹا سوال کر دیا کہ’’ کیا ٹرمپ ہمارا ابا لگتا ہے؟‘‘۔





