استحکام اور احتجاجی سیاست

محمد مبشر انوار
فارم 47پر قائم حکومت اس وقت اس قدر بدحواس ہے کہ اسے قطعی سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ اپنے اقتدار کو کیسے اور کیونکر طویل کر سکے ۔ اس بدحواسی میں جو اقدامات موجودہ حکومت اٹھا رہی ہے،وہ اس کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بنتے جا رہے ہیں، اس کی رسوائی کا سامان بن رہے ہیں لیکن جن حالات اور جس سمجھوتے کے باعث یہ حکومت معرض وجود میں آئی ہے، اس کے بعد اس حکومت کے لئے یہ ممکن نہیں رہا کہ ’’ آقائوں‘‘ کے مفادات کا تحفظ نہ کرے اور اس کی آڑ میں اپنے مفادات تو یقینی طور پر محفوظ ہو ہی رہے ہیں بلکہ اقتدار کا وقت بھی مزید مل رہا ہے۔ اس اقتدار کے دوران جو اقدامات لئے جارہے ہیں، جو کارنامے، قانون سازی کے نام پر سرانجام دئیے جا رہے ہیں، کیا اس سے ریاست کی کوئی خدمت واقعتا ہو رہی ہے یا ریاست کو مزید تنزلی کا شکار کیا جار ہا ہے؟ بیرون ملک یا عالمی برادری میں ریاست کی ساکھ کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے؟ موجودہ حکمرانوں کی اہلیت کے متعلق کیا کیا سوال اٹھ رہے ہیں ؟ ان کے اپنے ماضی کے موقف کے برعکس اٹھائے گئے اقدامات سے ان کی عوامی پذیرائی میں کس قدر کمی آ رہی ہے ؟ جس کا اظہار کیپٹن صفدر ببانگ دہل کر چکے ہیں کہ انہیں کسی عوامی پذیرائی کی اب ضرورت بھی نہیں کہ بس سلیوٹ ماریں اور فارم 47پر متعلقہ اسمبلی کی رکنیت حاصل کریں، سیاسی جدوجہد کی اب ضرورت کیوں اور کسے ہے کہ جب جمہور کی جمہوری رائے کو سننے کے لئے، گننے کے لئے کوئی تیار ہی نہیں کہ جمہوریت میں بندوں کو گنا جاتا ہے، تولا نہیں جاتا۔ بدقسمتی سے یہ پاکستان ہے کہ جہاں اب گنگا کھلے بندوں الٹی بہنا شرو ع ہو چکی، کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی کہ قوانین کیا ہے، اصول و ضوابط کیا ہیں، کہ انفرادی شخصیت یا شریک اقتدار گروہ کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے، قوانین میں ترامیم کی روش چل نکلی ہے، خواہ ایسی ترامیم کو چند دنوں میں ہی دوبارہ تبدیل کرنا پڑے کہ عجلت میں کی گئی ترامیم میں نقائص کی بھرمار دکھائی دیتی ہے لہذا من پسند نتائج کے لئے نت نئی ترامیم کا اجراء ضروری ٹھہرتا ہے۔ آج کل مقننہ کی نظر کرم، ریاست کا تیسرا ستون عدلیہ ہے کہ جہاں سے انشورنش پالیسی کی ریٹائرمنٹ کے بعد، ہوائوں کا درجہ بدل چکا ہے کہ آئین و قانون کی من پسند تشریح والی ٹھنڈی ہوائوں کی بجائے اب آئینی و قانونی تشریح، حقیقی معنوں میں ہونے لگی ہے، جس نے ہوائیاں اڑا رکھی ہیں۔ یکے بعد دیگرے، آئینی ترامیم اور قواعد و ضوابط میں تبدیلیوں کا ایک ریلا ہے، جو مقننہ کی جانب سے متعارف کروایا جا رہا ہے لیکن خوف کا یہ عالم ہے کہ کسی پل چین نہیں اور تبدیلی، جو بسا اوقات قواعد و ضوابط کو پامال کرکے بھی مقاصد پورے کرتی دکھائی نہیں دیتی، خوف میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔ ویسے حیرت تو اس امر پر بھی بہت ہوتی ہے کہ یہ کیسے سیاسی کھلاڑی ہیں جو کھیل کے مروجہ قواعد و ضوابط کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ،فقط کامیابی کے لئے کھیلتے ہیں اور اس جیت پر نہ صرف فرحاں و شاداں دکھائی دیتے ہیں،رتی برابر شرمندگی کا احساس ان کے چہروں سے دکھائی نہیں دیتا کہ یہ حقیقتا جیتے نہیں بلکہ شکست خوردہ ہیں،اس پر طرہ یہ کہ ایسے کارنامے سرانجام دینے سے بھی گریز نہیں کرتے، جو استحقاق ہی نہیں۔
ابھی 26ویں آئینی ترمیم کی سیاہی خشک نہیں ہو رہی،اس کے نافذ العمل ہونے کا ابھی تک واضح نہیں کہ اتنے نقائص اس میں موجودہیں کہ عدلیہ سے متعلق مزید قانون سازی کر دی گئی ہے،جس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو کمک پہنچانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے تا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپنی اکثریت کو قائم رکھا جا سکے تو دوسری طرف سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد کو بڑھا کر دوگنا کر دیا گیا ہے تا کہ کی گئی آئینی ترمیم کے حلاف آنے والی رٹ پیٹشنز پر حفظ ما تقدم ،فل کورٹ کی صورت بھی ،اس آئینی ترمیم کو تحفظ/بچایا جا سکے۔حکومتی اقدامات کو دیکھتے ہوئے یہ بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ جس عجلت میں حکومت دکھائی دیتی ہے،وہ ہرصورت اس کی متمنی ہے کہ کسی نہ کسی طرح فوری طور پر اپنے پروردہ ججز کو سپریم کورٹ میں تعینات کرلے،سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں بھی ،عدالت عظمیٰ کے ججز کی شرکت کے بعد،اس کی قانونی حیثیت کو تسلیم کروا کر ،اس کے فیصلے تھوپ دئیے کر عدلیہ پر قابو حاصل کر لیا جائے۔ بظاہر حکومت کی یہی خواہشات دکھائی دے رہی ہیں لیکن کیا چیف جسٹس یحییٰ آفریدی ،یہ سب ٹھنڈے پیٹوں ہونے دے کر خود کو قاضی فائز عیسیٰ کے مقام پر لائیں گے یا اس کے خلاف آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے مزاحمت کر کے،عدلیہ کی آزادی کے لئے بروئے کار آئیں گے؟جہاں تک سپریم جوڈیشل کونسل کی ہئیت کا معاملہ ہے،اس وقت تک حکومتی اکثریت واضح دکھائی دے رہی ہے ماسوائے آئینی بنچ کے سربراہ ،سپریم جوڈیشل کونسل کی حیثیت یا اس کے اجلاس آئین و قانون کے مطابق ہو سکتے ہیں یا حکومت اس میں بھی تبدیلی کرکے،سپریم جوڈیشل کا پہلااجلاس بغیر آئینی بنچ کے سربراہ کے منعقد کرے گی؟ بہرکیف بات اس سے کچھ آگے ہو گی کہ آئین کی بنیادی روح کے مطابق ،عدلیہ ریاست کا تیسرا ستون ہونے کے ناطے آزاد ہے،جس کی ضمانت آئین اسے دیتا ہے،یہ کیسے ممکن ہے کہ انتظامیہ اس کے اختیارات کسی بھی بہنے سے سلب کر سکے؟یہ کیسے ممکن ہے کہ انتظامیہ یا مقننہ ،جس کے خلاف مقدمات کی سماعت عدالتوں میں ہوتی ہے،ملزمان کو اختیار کیسے مل سکتا ہے کہ وہ اپنے خلاف مقدمات میں اپنی مرضی سے جج تعینات کریں اورکیا یہ ان کی مہارت میں بھی شامل ہے؟کیا اگر عدلیہ ممدو معاون ججز سے خالی ہو گئی،تو عدلیہ کے اختیارات خود سنبھال لئے جائیں؟خود کو آئین و قانون کے تابع نہ کرنے والوں یہ توقع رکھنا کہ وہ ریاستی امور بخوبی چلا سکتے ہیں،عبث ہیںاور حیرت ان پر ہے جنہوں یہ نازک مگر اہم ترین ذمہ داری ان مفاد پرست کندھوں پر ڈال رکھی ہے۔ان کی حالت وہی ہے جو جلتے روم میں نیرو کے بانسری بجانے کی تھی،انہیں اس سے کوئی غرض قطعا نہیں کہ ان اقدامات سے ملک کس ڈگر پر رواں دواں ہے اور اس کے نتائج کیا نکل سکتے ہیں۔
اس حوالے سے راقم نے اپنی گزشتہ تحریر بعنوان ’’ ترامیم کا مستقبل‘‘ میں لکھا تھا کہ ’’ موجودہ آئینی ترامیم کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر حکومتی بد نیتی کے علاوہ حکومت کو خوف واضح ہو چکا ہے کہ عوامی حمایت سے محروم حکومت اپنے جرائم کو تحفظ دینے کے لئے بروئے کار ہے،اسے نہ ریاست پاکستان کے مفادات سے کوئی غرض ہے او ر نہ اس کے شہریوں کے مفادات سے کوئی غرض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں موجودہ آئینی ترامیم پر جو رپورٹنگ ہوئی ہے،اس میں ریاست کے تیسرے ستون عدلیہ کے پر کاٹ دئیے گئے ہیں جس کے بعد ملک میں انصاف نامی عنصر عنقا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن ،جسے آئینی ادارہ کہا جاتا ہے،اس کے متعلق حکومتی رویہ مختلف ہے جب کہ عدالت عظمی و اعلی جیسے بنیادی آئینی ادارے کے خلاف ایسی مذموم کارروائیاں اور اس کے دائرہ اختیار پر قدغنوںسے کوئی ایک بھی حکومتی عہدیدار واقف نہیں کہ جس ادارے سے معاشرے میں تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔بہرکیف آئینی ترامیم اب دستور کا حصہ بن چکی ہیں لیکن کیا یہ آئینی ترامیم قائم رہ سکیں گی؟سب سے پہلے تو ان کو عدالت عظمی میں ہی چیلنج کیا جائیگا لیکن اس کے لئے موجودہ چیف جسٹس کے گھر جانے کا انتظار ہے،یا دوسری صورت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں اگر کبھی کوئی سیاسی جماعت دوتہائی اکثریت حاصل کرکے،اسمبلی میں پہنچتی ہے تو ایک اور آئینی ترمیم کرکے ،عدلیہ کی آزادی کو بحال کرے جبکہ تیسری صورت یہ ہے کہ نئے چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی کے بعد عدالت عظمی ازخود اندرونی طور پر ان ترامیم کا جائزہ لے کر کوئی لائحہ عمل تیار کرے۔آخری صورت یہی ہے کہ تحریک انصاف اور وکلاء ان آئینی ترامیم کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کرے اور ان آئینی ترامیم کو ختم کروائے ،لیکن تب تک ممکنہ طور پر حکومت اپنے اہداف حاصل کر چکی ہو گی،بظاہر اس آئینی ترمیم کا یہی مستقبل دکھائی دیتا ہے‘‘۔اس وقت صورتحال آخرالذکر والی دکھائی دیتی ہے کہ نہ حکومت اور نہ حکومت کی بیساکھیاں،حقائق کا حقیقی معنوں میں ادراک کر رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں بظاہر یہی دکھائی دے رہا ہے کہ بزعم خود ’’ حکمران خاندان یا خاندانوں‘‘ کے کرتا دھرتا حفظ ماتقدم کے طور پر بیرون ملک پدھار چکے ہیں،کہ ملک میں ان آئینی ترامیم کے حوالے سے نہ صرف عدلیہ بلکہ وکلاء برادری اور عوام سڑکوں پر نکلتے دکھائی دے رہے ہیںجبکہ حکومت ’’آہنی ہاتھوں‘‘سے نپٹنے کی تیاریوں میں ہے۔ اگر ملکی مفادات مقدم ہوئے ،انا و ضد کی جگہ سیاسی دانش بروئے کار آئی،تو عین ممکن ہے کہ عدلیہ کے حوالے سے آئینی ترامیم کالعدم ہو جائیں جبکہ دیگر تبدیلیوں کو پارلیمان کا استحقاق سمجھتے ہوئے،انہیں تسلیم کر لیا جائے جس میں سرفہرست مدت ملازمت کا ازسر نو تعین کیا گیا ہے البتہ اس تبدیلی سے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘والے موقف کی قلعی مزیدکھل چکی ہے وگرنہ سیاسی استحکام ،احتجاجی سیاست کی نذرہوتا نظر آتا ہے۔





