ColumnImtiaz Aasi

سروسز چیف کی مدت ملازمت اور سیاسی جماعتیں

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
پاکستان کی سول سروس میں آنے والا ہر نو جوان وفاقی سیکرٹری نہیں بن سکتا نہ آرمی میں کیمشن حاصل کرنے والا ہر نوجوان چیف آف آرمی سٹاف بنتا ہے۔ سی ایس ایس کرنے کے بعد گریڈ سترہ میں وفاقی ملازمت میں آنے کے بعد کوئی ایڈیشنل سیکرٹری اور کوئی جوائنٹ سیکرٹری کے عہدے پر پہنچنے کے بعد ملازمت سے ریٹائر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح پاک آرمی میں کمیشن حاصل کرنے والوں میں ہر کوئی لیفٹیننٹ جنرل نہ آرمی چیف بنتا ہے۔ اعلیٰ عہدوں پر پہنچنے میں جہاں انسان کی کارکردگی کا عمل دخل ہوتا ہے وہاں مقدر کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ بیوروکریسی میں یہ روایت رہی ہے وفاقی سیکرٹری کے منصب سے سبکدوش ہونے والے افسران کو کنٹریکٹ پر دوبارہ ملازمت دے دی گئی یا انہیں بیرون ملک کسی بڑے عہدے پر فائز کر دیا جاتا ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں پی ڈی ایم دور میں وزیراعظم شہباز شریف کے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر کو ریٹائرمنٹ کے بعد عالمی بنک میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر لگایا گیا۔ٹیکنوکریٹس کی ہر دور میں ضرورت رہی ہے ان کے بغیر بھی ملک کا نظام نہیں چل سکتا خصوصا مالی معاملات اور دیگر اہم امور کے لئے ملک کو ان کی خدمات کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے۔ حال ہی میں حکومت نے کسی ایک فورس کے چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی بجائے تینوں افواج کے چیفس کی مدت ملازمت تین سال کی بجائے پانچ سال کی ہے ورنہ تو صر ف آرمی چیف کی مدت ملازمت میں اضافے کی روایت پہلے سے موجود تھی۔ سید عاصم منیر اس لحاظ سے انتہائی خوش نصیب فوجی افسر ہیں جنہیں ملازمت سے ریٹائرمنٹ سے چند روز قبل چیف آف آرمی سٹاف کے منصب پر فائز کیا گیا۔ ہماری سید عاصم منیر سے کوئی شناسائی نہیں ہے البتہ ان کے والد محترم سید سرور منیر سے ایک بار ملاقات سی بی ٹیکنیکل ہائی سکول طارق آباد راولپنڈی میں ہوئی جہاں وہ ہیڈ ماسٹر تھے۔ سید عاصم منیر نے آرمی چیف بننے کے بعد جو اہم اقدام کیا وہ ملک سے ڈالر کی اسمگلنگ روکنے کے لئے ہنگامی اقدامات کئے جس سے کم از کم ڈالروں کی غیرقانونی منتقلی کافی حد تک رک گئی ہے۔ سید عاصم منیر نے آرمی چیف کا عہدہ ایک ایسے وقت سنبھالا جب ملک ایک بار پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ بلوچستان اور کے پی کے علاقوں میں افواج پاکستان کی قربانیوں کے نتیجہ میں دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنا افواج پاکستان کے سپوتوں کا خاصہ ہے۔ بعض سیاسی حلقے افواج پاکستان کے بجٹ پر نقطہ چینی سے گریز نہیں کرتے حالانکہ انہیں اس بات کا پوری طرح ادراک ہے سرحدیں ہوں یا اندرون ملک قانون نافذ کرنے والے سول اداروں کو امن و امان قائم کرنے کے لئے افواج پاکستان کی خدمات ضرورت رہی ہے۔ شنگھائی کانفرنس کے موقع پر مہمانوں کی سیکورٹی کے لئے افواج کی خدمات حاصل کرنا پڑی ۔کسی سیاسی جماعت کو عسکری قیادت سے کوئی شکایت ہو سکتی ہے ایک بات یاد رکھنے کی ہے ہماری افواج نے بیرونی دبائو کے باوجود ایٹمی پروگرام پر آنچ نہیں آنے دی نہ کسی بڑے سے بڑے ملک کو ہماری افواج سے ایٹمی راز حاصل کرنے کی جرات ہوئی ہے۔ غرضیکہ افواج پاکستان نے ملکی دفاع کی خاطر لازوال قربانیاں دی ہیں جس کی مثال نہیں ملتی۔ عام طور سیاست دان اداروں کی سیاست میں مداخلت کا شکوہ کرتے ہیں لیکن وہ یہ بات بھول جاتے ہیں اداروں کو سیاست میں آنے کی دعوت کون دیتا ہے یا وہ از خود سیاست میں آتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین کی سیاست کا مقصد ملکی مفادات کی بجائے ذاتی مفادات کا حصول ہوتا ہے انہیں ذاتی مفادات عزیز نہ ہوتے وہ بیرون ملک بڑی بڑی جائیددایں نہ بناتے۔ سیاست میں اداروں کی مداخلت کے کلچر کی داغ بیل ڈالنے والے سیاست دان ہیں۔ عمران خان ہو یا کوئی اور سیاسی رہنما خواہ اس کا تعلق کسی جماعت کیوں نہ ہو سب اداروں کے مرہون منت ہیں۔ یہ سیاست دان ہوتے ہیں جو بوقت ضرورت اپنی جماعت سے وفاداریاں بدل کر اپنا وزن دوسروں کے پلڑے میں ڈالتے ہیں۔ حالیہ آئینی ترامیم کے دوران پی ٹی آئی کے جس رکن اسمبلی نے حکومت کا ساتھ دیا اسے وفاقی کابینہ میں شامل کیا جا رہا ہے جو اس امر کا غماز ہے سیاست دانوں اور پارٹی ورکرز میں بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو اپنی جماعت کے ساتھ کھڑئے رہتے ہیں۔ملک میں امن وامان اور معاشی استحکام لانے کی خاطر تمام سیاسی جماعتوں کو ملک کی ترقی کے لئے قدم بڑھانے کی ضرورت ہے اقتدار کسی ایک جماعت کی میراث نہیں لہذا آئین میں ترامیم لائی گئی ہیں یا دہشت گردی ایکٹ میں ترامیم ہو رہی ہیں آئندہ حکومتوں کو بھی ان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس وقت ہمیں جس بات کی اشد ضرورت ہے ملک کے معاشی اور سیاسی حالات کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سروسز چیفس کے مدت ملازمت بڑھانے کا بل اسمبلی میں پیش کرتے وقت اپوزیشن کے لوگ موجود نہیں تھے جو اس امر کی طرف واضح اشارہ ہے وہ سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں اضافے سے متفق تھے۔ پی ٹی آئی اس وقت اپوزیشن جماعتوں کی بڑی جماعت ہے اس کے بانی کی طرف سے سروسز چیفس کی ملازمت میں اضافے کے خلاف کسی قسم کا ردعمل نہ آنا اس بات کی علامت ہے وہ تینوں افواج کے سربراہوں کی ملازمت میں توسیع کے مخالف نہیں تھے۔ بعض حلقوں کے نزدیک حکومت کا صرف آرمی چیف کی بجائے سروسز چیفس کی مدت ملازمت بڑھانے کا مقصد تنقید سے بچنا تھا اگر صرف آرمی چیف کی ملازمت کی مدت بڑھائی جاتی تو حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ان حلقوں کے نزدیک آرمی چیف کی مدت ملازمت میں اضافے کے بعد حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں اب کسی قسم کی کسی مشکل پیش آنے کا کوئی امکان نہیں اور حکومت سکون سے اپنی مدت پوری کر سکے گی۔ حکومتی حلقوں کا دعویٰ ہے دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم لانے سے دہشت گردی کے خاتمے میں مدد ملے گی سوال ہے جن دہشت گردوں کو فوجی عدالتوں نے موت کی سزا سنائی تھی صدر مملکت نے ان کی رحم کی اپیلیں مسترد کر دی ہیں انہیں کس خوشی میں مہمان بنا کر رکھا گیا ہے جو حکومت کے دوہرے معیار کا عکاس ہے۔

جواب دیں

Back to top button