Column

ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی

شہر خواب ۔۔۔۔۔
صفدر علی حیدری
’’ امریکہ کو محفوظ ، مضبوط اور خوش حال بنائوں گا۔ امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں گے۔ امریکہ میں سنہری دور کا آغاز ہونے والا ہے۔ آج ہم نے تاریخ رقم کی ہے ، امریکہ نئی بلندیوں پر پہنچے گا اور ملک کے تمام معاملات اب ٹھیک کریں گے ۔ ایسی کامیابی امریکی عوام نے پہلے کبھی نہیں دیکھی، ایسی سیاسی جیت اس سے پہلے کبھی بھی نہیں دیکھی گئی ۔ میں کوئی نئی جنگ شروع نہیں کرونگا بلکہ جنگوں کو ختم کروں گا ‘‘۔
فلوریڈا میں ڈونلڈ ٹرمپ کا فاتحانہ خطاب بڑا اہم تھا۔ اس کی سیاست کا واحد مشن امریکہ ہے اور بس امریکہ۔ وہ ملک کو ٹھیک کرنا چاہتا ہے۔ وہ جنگی جنونی نظر نہیں آتا۔ اس کا پہلا دور بھی اس بات کا گواہ ہے۔ یہ بات پوری دنیا کے لیے بالعموم اور مسلم دنیا کے بالخصوص اہمیت کی حامل ہے۔ اسلامی دنیا میں اس کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اگر وہ ان پالیسیوں پر کاربند رہا جو اس نے اپنے صدارتی مہم میں مسلسل اعلان کیا ہے تو یہ اس دنیا کے امن کے لیے بڑی خوشی کی بات ہو گی۔
امریکی الیکشن کا ذکر اس بار بھی اقوام عالم کی زبانوں پر رہا ۔ ایک سپر پاور میں حکومت کی تبدیلی ہر ایک کے لیے دل چسپی کی بات ہوتی ہے۔ اس بار ٹرمپ نے پھر ان لوگوں کو حیران کیا ہے جو اس کی شکست کے دعوے کر رہے تھے ۔ امریکہ میڈیا میں یہ تاثر عام کیا گیا کہ وہ اس بار کانٹے کے مقابلے میں بری طرح ہار رہے ہیں مگر ہوا اس کے برعکس ہے ۔ وہ واضح لیڈ سے جیت گئے ہیں ۔ امریکی تاریخ میں ایسا دوسری بار ہوا ہے کہ کوئی سابق صدر دوسری بار فاتح قرار پایا ہے اور ایک سو چوالیس سال کے بعد کوئی ہارا ہوا شکست پھر سے جیتا ہے ۔ جب ٹرمپ 2016میں پہلی بار صدارتی انتخاب لڑ رہے تھے تو ان کے امیدوار بننے کے بارے میں بہت سے سوالات تھے اور ان کی کامیابی کے بارے میں شبہات کی بہت سی وجوہات بھی تھیں ۔ ان کی متنازع انتخابی مہم میں، تارکینِ وطن پر سختی سب سے اہم مسئلہ تھا ۔ اس کے علاوہ ان کی بطور ایک مشہور شخصیت زندگی بھی سوالوں میں گھری ہوئی تھی ۔ لیکن انھوں نے تمام پیش گوئیوں کو غلط ثابت کیا اور رپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں بے باک مہم کی مدد سے تجربہ کار سیاست دانوں کو پچھاڑ دیا اور پھر ایک قدم آگے بڑھ کر انھوں نے ہلیری کلنٹن کے خلاف صدارتی انتخاب بھی جیت لیا ۔ ان کا پہلا صدارتی دور تنازعات سے بھرپور رہا جس کے باوجود انھوں نے حیران کن طریقی سے سیاسی میدان میں واپسی اختیار کی ۔ نیویارک میں جائیداد کے کاروبار سے منسلک فریڈ ٹرمپ کے بچوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کا چوتھا نمبر تھا۔ بے پناہ خاندانی دولت کے باوجود انھوں نے اپنے والد کی کمپنیوں میں چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں اور جب ڈونلڈ ٹرمپ 13سال کے تھے تو اُن کے والد کو ان کے کمرے سے ایک چاقو ملا تو انھوں نے فوراً ان کی اصلاح کے لیے انھیں ملٹری سکول روانہ کر دیا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ بیس بال ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے اچھے کھلاڑی ثابت ہوئے اور انھیں صفائی ستھرائی کے لیے ’’ نیٹ نیس اینڈ آرڈر‘‘ کا اعزاز بھی ملا لیکن ملٹری اکیڈمی میں وہ قریبی دوست بنانے میں ناکام رہے۔ 1964میں سکول سے فارغ ہونے کے بعد اور گلیمر کی دنیا سے بہت زیادہ متاثر ہونے کے سبب اُن کے ذہن میں فلم سکول جانے کا خیال مچلنے لگا لیکن انھوں نے فور ڈہم یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور پھر دو سال بعد پینسلوینیا یونیورسٹی کے وارٹن بزنس سکول منتقل ہو گئے۔ یہیں سے وہ کاروبار سنبھالنے کے لیے اپنے والد کی پسندیدہ اولاد بنے۔ انھیں ان کے بڑے بھائی فریڈ ٹرمپ جونیئر پر ترجیح دی گئی تھی جنھوں نے پائلٹ بننے کا فیصلہ کیا تھا اور پھر 43برس کی عمر میں کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے وہ وفات پا گئے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کہتے رہے ہیں کہ بھائی کی موت ہی ان کی شراب اور سگریٹ ترک کرنے کی وجہ بنی ۔جائیداد کی تعمیر اور خریدوفروخت کے کاروبار میں قدم رکھنے کے بارے میں ، ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے والد سے 10لاکھ ڈالر قرض لے کر کاروبار شروع کیا اور بعد میں، وہ خود ان کے کاروبار میں شامل ہو گئے ۔ ان کے والد رہائشی عمارتوں کی تعمیر کا کاروبار کرتے تھے ۔ ٹرمپ نے نیویارک میں اپنے والد کے غیر منقولہ جائیداد کے کاروبار میں اضافہ کیا اور پھر 1971میں اس کمپنی کی باگ ڈور سنبھالی اور اس کا نام ٹرمپ آرگنائزیشن رکھ دیا۔ ان کے والد کی وفات 1999میں ہوئی تھی ۔ وہ اپنے والد سے بہت متاثر تھے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی کمپنی کے کاروبار کو نیو یارک شہر میں بروکلین اور کوئینز میں رہائشی عمارتوں کی تعمیر سے مین ہٹن میں بڑے تعمیراتی منصوبوں تک پہنچا دیا ۔ انھوں نے قدیم کموڈور ہوٹل کو گرینڈ حیات میں تبدیل کیا اور ففتھ ایوینیو پر علاقے کی مشہور ترین عمارتوں میں سے ایک، 68 منزلہ دی ٹرمپ ٹاور بنائی ۔ اس کے بعد وہ اپنے خاندانی نام پر ہی ایک ایک کر کے عمارتیں تعمیر کرتے رہے ۔ ٹرمپ پیلس ، ٹرمپ ورلڈ ٹاور ، ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل اینڈ ٹاور ۔ یہ فہرست طویل ہے اور آج ممبئی ، استنبول اور فلپائن میں بھی ٹرمپ ٹاورز موجود ہیں ۔ انھوں نے تفریح کی دنیا میں بھی قدم رکھا اور یہاں بھی اپنی سلطنت قائم کی ۔ 1996 سے 2015تک وہ مس یونیورس مقابلوں کے مالک تھے ۔ اس کے علاوہ وہ مس یو ایس اے، مس ٹِین یو ایس اے جیسے مقابلہ حسن کے منتظم بھی تھے۔
ٹرمپ نے بہت ساری کتابیں لکھی ہیں اور اُن کا اپنا برانڈ بھی ہے جو ٹائی سے لے کر پانی کی بوتلوں تک ہر چیز کا کاروبار کرتا ہے۔ فوربز کے مطابق ، ٹرمپ کے کل اثاثوں کی مالیت چار ارب ڈالر ہے ۔ٹرمپ نے کم از کم چھ مواقع پر کاروباری دیوالیہ پن ظاہر کیا اور ان کے متعدد منصوبے، جن میں ٹرمپ یونیورسٹی اور ٹرمپ سٹیکس شامل ہیں، ناکام رہے ہیں۔ ٹرمپ نے تین مرتبہ شادی کی تاہم ان کی سب سے مشہور اہلیہ ایوانا زیلنیکووا تھیں جو کہ ایک چیک ماڈل اور ایتھلیٹ تھیں ۔1993میں ٹرمپ نے اداکارہ مارلا میپلز سے شادی کی ۔ ان کی ایک بیٹی ٹفنی ہے اور یہ شادی بھی 1999 میں طلاق پر ختم ہوئی ۔ ٹرمپ نے سلووینیا سے تعلق رکھنے والی اپنی موجودہ اہلیہ میلانیا ناس سے 2005میں شادی کی اور ان کا ایک بیٹا بیرن ولیم ٹرمپ ہے۔ تاہم غیر ازدواجی تعلقات اور جنسی نوعیت کے الزامات نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ رواں سال دو مختلف عدالتوں میں جیوری نے فیصلہ سنایا کہ ٹرمپ مصنفہ ای جین کیرول کی جانب سے جنسی ہراسانی کے الزامات کی تردید کر کے ہتک عزت کے مرتکب ہوئے ہیں اور ٹرمپ کو مجموعی طور پر 88ملین ڈالر ہرجانہ ادا کرنے کو بھی کہا گیا۔ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کر چکے ہیں۔
کیا عجب اتفاق ہے کہ ٹرمپ واحد امریکی صدر ہیں جن کا دو بار مواخذہ ہوا ہے۔ بائیڈن کی تحقیقات کے لیے 2019ء میں یوکرین پر دبا ڈالنے کی کوشش کرنے کے بعد، ایوان نمائندگان نے طاقت کے غلط استعمال اور کانگریس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے پر ان کا مواخذہ کیا تھا۔ انہیں فروری 2020ء میں سینیٹ نے بری کر دیا تھا۔ ایوان نے ان کا جنوری 2021ء میں بغاوت پر اکسانے کے الزام میں دوبارہ مواخذہ کیا اور فروری میں سینیٹ نے انہیں بری کر دیا۔ اسکالرز اور مورخین ٹرمپ کو امریکی تاریخ کے بدترین صدور میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ ایک واقعہ ہے کہ وہ ایک بار وائٹ ہائوس میں رہنے کے حق دار قرار پائے ہیں۔
پاکستان میں بھی حسب سابق امریکی الیکشن کو گہری نظروں سے دیکھا جا رہا تھا۔ مشاہد حسین سید مسلسل مصر تھے کہ ٹرمپ ایک بار پھر کامیاب ہوں گے ۔ ن لیگ کے لوگ یہ سن کر خاصا بدمزہ ہوتے رہے۔ مشاہد حسین کی یہ بات سن کر وہ پہلو بدلنے لگتے تھے کہ وہ شخص پاکستان میں صرف ایک آدمی کو جانتا ہے اور وہ ہے عمران خان۔
ن لیگ ٹرمپ کی فتح نہیں چاہتے تھی مگر ۔۔۔۔ جان تو وہ بھی گئے تھے کہ اس کی کامیابی دیوار پر لکھی ہے ۔ حالیہ دنوں کچھ فیصلے جس عجلت سے کیے گئے ہیں اس سی واضح ہوتا ہے کہ حکومت وقت اور اسٹبلشمنٹ ٹرمپ کی فتح کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے ۔ مگر اب تو جو کچھ ہونا تھا ہو چکا ہے ۔
دعا ہے کہ ٹرمپ کے دور میں اسرائیل پر کاٹھی ڈل جائے اور فلسطین اور لبنان کی عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔

جواب دیں

Back to top button