درخت، صدقہ جاریہ اور سموگ

باد شمیم
ندیم اختر ندیم
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اگر قیامت قائم ہو جائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں ایک پودا ہو اور ممکن ہو تو وہ اس کو لگا دے‘‘۔
اسلامی تعلیمات میں درختوں کی اہمیت و افادیت بہت ہے۔ درخت نہ صرف ہمارے ماحول کے لیے فائدہ مند ہیں بلکہ صدقہ جاریہ کی بہترین مثال بھی ہیں۔ صدقہ جاریہ ایسا عمل ہے جس کا فائدہ انسان کو ہمیشہ ملتا ہے، درخت لگانا ایسا ہی نیک عمل ہے جس کے اثرات نسلوں تک برقرار رہتے ہیں۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے اور آکسیجن چھوڑتے ہیں، جو انسانی زندگی کے لیے لازمی ہے۔ درخت ہوا کی آلودگی اور زمین کے درجہ حرارت کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ یہ نہ صرف ماحول کو خوشگوار بناتے ہیں بلکہ اس سے انسانی حالات بھی سازگار رہتے ہیں ان کے ذریعے پھل، لکڑی اور دیگر اشیائ فراہم ہوتی ہیں جو انسان کے معاشی حالات کو بہتر کرتے ہیں۔ ایک لگایا ہوا درخت جب تک زمین پر موجود رہتا ہے، لوگوں کو فائدہ پہنچاتا رہتا ہے اور اس کا اجر لگانے والے کے لیے جاری رہتا ہے۔ جیسے کہ درخت سے حاصل ہونے والے پھل سے کوئی فائدہ اٹھائے، اس کا سایہ کوئی استعمال کرے، یا اس پر کوئی پرندہ آ کر بیٹھے، یہ سب اجر دینے والے اعمال ہیں۔ اسلام ہمیں اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ ہم ایسے نیک اعمال کریں جن کا فائدہ دوسروں کو بھی پہنچے اور ہمارے لیے مسلسل ثواب رہے ہمیں چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں اور دوسروں کو بھی اس کار خیر کی دعوت دیں تاکہ ہمارا معاشرہ سرسبز و شاداب ہو اور ہم اللہ تعالیٰ کے قریب ہوں۔
پاکستان میں سموگ کا مسئلہ ہر گزرتے سال کے ساتھ شدید ہوتا جاتا ہے، خاص طور پر سردیوں کے موسم میں یہ مسئلہ سنگین شکل اختیار کر لیتا ہے۔ سموگ دراصل دھویں اور دھند کی آمیزش ہے، ہوا میں موجود آلودہ ذرات کی بڑی مقدار شامل ہوتی ہے۔ سموگ کی وجہ سے نہ صرف صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ معیشت، اور عوامی زندگی متاثر ہوتی ہے شہروں کو درخت لگانے کو فروغ دینا چاہئے آج کل پنجاب فضائی آلودگی کی لپیٹ میں ہے۔ لاہور میں تعلیمی ادارے بند کیے جارہے ہیں۔ یہ عارضی کام ہے۔ فضائی آلودگی سے بچنے کا واحد حل صدقہ جاریہ سمجھتے ہوئے درخت لگانے کا شعور بیدار کرنا ہے۔ لوگ اپنے ماں باپ کی یاد اور، اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کے لیے درخت لگائیں۔ ایک بات یاد رکھنے والی ہے کہ ہم جس خطے میں رہتے ہیں اس میں کون سے درخت لگائے جانے چاہئیں ۔ بے شک ہمارے پنجاب کا شمار پاکستان کے خوبصورت اور زرخیز علاقوں میں ہوتا ہے۔ پنجاب میں کئی اقسام کے درخت لگائے جانے چاہیے مثلاً۔ نیم کا درخت نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے بلکہ اس کی جڑیں زمین کو مضبوط بناتی ہیں پتے اور چھال قدرتی طور پر اینٹی بیکٹیریل اور اینٹی فنگل خواص رکھتے ہیں۔ پیپل کو آکسیجن پیدا کرنے والا درخت کہا گیا ہے۔ سوہانجنا کو غذائیت سے بھرپور ہے۔ اس کے پتوں اور پھولوں میں وٹامنز اور منرلز کی مقدار وافر ہوتی ہے۔ یہ زمین کو زرخیز بناتا ہے اور پانی کی کمی والے علاقوں میں بہترین نمو پاتا ہے مٹی کو کٹائو سے بچاتا ہے۔ شیشم کے درخت کی لکڑی سخت اور پائیدار ہوتی ہے، جسے فرنیچر اور تعمیرات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے پتے اور جڑیں مٹی کو نمی فراہم کرتی ہیں۔ بیری خشک سالی میں بھی زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کی جڑیں گہرائی تک پانی حاصل کرتی ہیں۔ اس کے پھل اور پتے جانوروں اور انسانوں دونوں کے لئے غذائی اہمیت رکھتے ہیں درختوں سے نہ صرف ہوا بلکہ نہریں اور دریا بھی آلودہ ہونے سے محفوظ رہتے ہیں۔ درخت جانوروں اور پرندوں کو خوراک اور پناہ فراہم کرتے ہیں، جس سے حیاتیاتی تنوع میں اضافہ ہوتا ہے۔ پنجاب میں ماحول دوست درختوں کی افزائش اور حفاظت انتہائی اہم ہے۔ درخت نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کو کم کرتے ہیں بلکہ قدرتی وسائل کا تحفظ بھی کرتے ہیں۔ اگر ہم ان درختوں کی اہمیت کو سمجھ کر ان کی تعداد میں اضافہ کریں تو ہم اپنے ماحول اور آنے والی نسلوں کے لئے ایک بہتر مستقبل فراہم کر سکتے ہیں درختوں کی اہمیت پر سینئر کالم نگار، شاعر، سفیر کتاب عتیق انور راجہ کا شعر ہے
میں سمجھتا ہوں بخت جاگتے ہیں
جس طرح سے درخت جاگتے ہیں
اب ظفروال سے عرفان اللہ عرفان کی لکھی نعت:
ازل سے کرتی رہی جن کا انتظار فضا
وہ آ گئے ہیں تو کیسی ہے پر بہار فضا
جو صبح و شام یہ رہتی ہے مشکبار فضا
حضور آپ کی زلفوں پہ ہے نثار فضا
جہاں کی آپ سے پہلے تھی ناگوار فضا
ہوئی حضور کے آنے سے پروقار فضا
حضور ہند میں آئے ہوا مدینے کی
حضور ہند کی رہتی ہے بے قرار فضا
مرا علاج ہے چارہ گرو مدینے میں
میں چاہتا ہوں مدینے کی غم گسار فضا
سجی رہے یہ درود و سلام کی محفل
بنی رہے یہ دو عالم کی خوشگوار فضا
حضور پاک کی رحمت ہے یوں تو سب کیلئے
مگر جو آپ نے دیکھی ہے یار غار۔ فضا
شہید آپ کی ناموس پر جو ہو جائے
بنی بنائی ہے اس کے لیے ہزار فضا
جہاں بھی کوئی پڑھے نعتِ میرے آقا کی
سماعتوں کیلئے ہے وہ شاہکار فضا
سنائی دیتے ہوئے نعتِ کے حسیں الفاظ
ہے عاشقوں کے لیے خوب ساز گار فضا
کہیں نہ دیکھی گئی کائنات میں عرفان
بنی جو آپ کے آنے سے ایک بار فضا





