Column

لوگوں کی اقسام

علیشبا بگٹی
پلس پوائنٹ
زندگی میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔۔۔ کون سے آئیں دیکھتے ہیں۔
درخت کے پتوں کی طرح۔۔۔ یہ آپ کی زندگی میں صرف ایک سیزن کے لیے آتے ہیں۔ آپ ان پر انحصار نہیں کر سکتے، وہ کمزور ہیں۔ وہ صرف جو چاہتے ہیں، لینے آتے ہیں، پھر چلے جاتے ہیں۔
درخت کی ٹہنیوں کی طرح ۔۔۔ وہ مضبوط ہیں، لیکن جب زندگی مشکل ہو جاتی ہے، تو الگ ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک موسم یا کچھ عرصہ تک آپ کے ساتھ رہیں گے، لیکن جب زندگی مشکل ہو جائے گی، تو چلے جائیں گے۔
درخت کی جڑ کی طرح۔۔۔ یہ بہت اہم لوگ ہیں، یہ دیکھنے کے لیے کام نہیں کرتے۔ وہ مشکل وقت میں رہتے ہیں، وہ آپ کو پانی پلائیں گے، وہ آپ کے مقام سے متاثر نہیں ہوتے، وہ آپ کو ویسے ہی لیتے ہیں جیسے آپ ہیں۔۔۔ صرف جڑ قسم کے لوگ ہی آخری وقت تک آپ کے ساتھ رہیں گے، چاہے موسم کوئی بھی ہو۔
لوگ اس دنیا میں اس لیے آتے ہیں کہ ایک دوسرے کو تکلیف پہنچائیں، اور پھر احمقوں کی طرح مر جاتے ہیں۔ یہ قول انسانی زندگی کی تلخ حقیقت کو بیان کرتا ہے، کہ اکثر لوگ زندگی میں دوسروں کو دکھ اور تکلیف دینے میں مصروف رہتے ہیں، اور آخر میں ان کی زندگی بے مقصد اور افسوس ناک انجام تک پہنچتی ہے۔ یہ الفاظ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی زندگی کو حقیقی معنوں میں بامقصد اور مثبت بنانا چاہیے، تاکہ ہم اپنے اور دوسروں کے لئے راحت اور خوشی کا ذریعہ بن سکیں۔۔ فرشتوں میں عقل و شعور ہوتا ہے۔ لیکن شہوات نفسانیہ نہیں ہوتا ہے۔ جانوروں میں عقل و شعور نہیں ہوتا ہے لیکن شہوات نفسانیہ ہوتی ہے۔ اور انسان میں دونوں ہیں۔ اب اگر انسان کی عقل و شعور شہوات نفسانیہ پر غالب ہے تو وہ فرشتوں سے بہتر ہے۔ لیکن اگر اس کی شہوات نفسانیہ اس کے عقل و شعور پر غالب ہو گئی تو وہ جانوروں سے بھی گیا گزرا ہو جاتا ہے۔۔ ہر انسان ایک چلتی پھرتی کتاب ہوتا ہے، بس ہم پڑھنے کی زحمت نہیں کرتے، کیونکہ ہم سمجھتے ہیں، کہ علم صرف کتابوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ حالانکہ زندگی گزارنے کے اصل اسباق تو ہمیں انسانوں اور اُن کے رویوں سے ہی ملتے ہیں، اور بعض سبق تو ایسے ملتے ہیں کہ ساری ڈگریاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔
’’ ہم وحشی ہیں ‘‘ کرشن چندر کا ایک مشہور افسانہ ہے، جو انسانی جذبات، معاشرتی مسائل، اور جنگ کی ہولناکیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ناول خاص طور پر ہندوستان کے تقسیم کے بعد کے حالات پر مبنی ہے اور اس میں انسانی نفسیات اور معاشرتی سچائیوں کو گہرائی سے بیان کیا گیا ہے۔ کرشن چندر نے اس افسانہ میں مختلف کرداروں کے ذریعے انسانی محبت، نفرت، اور مصیبتوں کی داستان پیش کی ہے۔ کہانی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ انسانیت کی بنیاد پر ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور بھائی چارے کے ساتھ رہنا چاہیے، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔
لوگ ان افراد کو پسند کرتے ہیں، جو آسانی سے کنٹرول ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ ان کے لیے مشکلات پیدا نہیں کرتے۔ لیکن جب یہ افراد اپنے حق کے لیے کھڑے ہوتے ہیں یا اپنے اصولوں پر زور دیتے ہیں، تو انہیں فوراً برا یا خود غرض سمجھا جانے لگتا ہے۔ پھر وہ دنیا کی سب سے برے انسان بن جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرے لوگوں نے ان سے کمزوری یا نرمی کی توقع بنا رکھی ہوتی ہے، اور جب وہ اس توقع کے خلاف جاتے ہیں، تو اسے چیلنج کے طور پر لیا جاتا ہے۔ یا خود انسانی فطرت یہ بھی ہے کہ ہمیں کوئی تب تک دلکش لگتا ہے، جب تک وہ انجان ہوتا ہے۔ جب ہم اُسے جان لیتے ہیں، تو وہ اپنی کشش کھو دیتا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جب تک کسی سے انجان ہوتے ہیں، اُس کے متعلق بہت سے خوبصورت خیالات رکھتے ہیں اور جان لینے کے بعد جب وہ ہماری امیدوں کے مطابق نہیں نکلتا، تو ہمیں برا لگنے لگتا ہے۔ یا حاصل اُس کشش کو ختم کر دیتا ہے جو دور رہ کر کھنچتا رہتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ اچھا انسان نہیں ہے۔۔۔ جبکہ یہ معاملہ ہر انسان کے ساتھ ہے۔ ہم اپنے آئیڈیل کو بھی جاننے کے بعد یہی کہیں گے، کیونکہ کوئی بھی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا اور کوئی بھی انسان سو فیصد ہمارے مطابق بھی نہیں ہوتا۔۔۔ شاید یہی وجہ ہے کہ البرٹ آئن سٹائن نے کہا ہے کہ ’’ جو لوگوں کی بھیڑ کے ساتھ چلنے کا عادی ہوتا ہے وہ زندگی میں اس ہجوم سے کبھی آگے نہیں جا پائے گا۔ لیکن جو زندگی میں تنہا اکیلا ہوکر اپنی راہ پر چلتا ہے وہ اکثر اپنی آپ کو ان عظیم مقامات پر پائے گا جہاں اس سے پہلے کوئی اور نہیں پہنچا ہوگا‘‘۔
چارلی چیپلن نے کہا ہے کہ ’’ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہم سب تنہائی میں ہیں، چاہے ہم کتنے بھی لوگوں سے گھرے ہوئے ہوں‘‘۔
کسی نے کہا ہے کہ ’’ زندگی میں کوئی مضحکہ خیز مقابلے نہیں ہوتے۔ ہر انسان جس سے آپ کا سامنا ہوتا ہے وہ یا تو امتحان ہے، عذاب ہے یا جنت کا تحفہ ہے‘‘۔
ولیم شیکسپیئر نے کہا ہے کہ ’’ ذہین اور عقلمند لوگوں کی بھیڑ ملنا بہت پیچیدہ اور مشکل ترین کام ہے۔ لیکن جہاں تک احمق ترین ریوڑوں کا تعلق ہے، تو ان کو ہانکنے کے لیے صرف ایک چرواہے اور کتے کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔
کسی نے کہا ہے کہ ’’ آپ آسانی سے ایک آدمی کے کردار کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے۔ جو اُس کے لیے کچھ نہیں کر سکتے‘‘۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر انسان صرف چار قسم کے ہی ہوتے ہیں۔ ان چار اقسام کے نام ’’ اوسط، کم گو، خود پرست اور رول ماڈل ‘‘ ہیں۔ کچھ یہ بھی بولتے ہیں کہ دنیا میں دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔۔ پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو تنہائی پسند ہوتے ہیں، خاموش طبع ہوتے ہیں اور لوگوں کے ہجوم سے دور بھاگتے ہیں۔ بہت مشکل سے دوست بناتے ہیں۔ سوشل پارٹیز کا حصہ نہیں بنتے۔۔ جبکہ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو لوگوں سے ملنا جلنا، باتیں کرنا بہت پسند کرتے ہیں۔ وہ لوگوں سے بہت جلدی گھل مل جاتے ہیں اور دوست بنا لیتے ہیں۔
کچھ کا خیال ہے کہ اس دنیا میں تین قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو کچھ کر دکھاتے ہیں، دوسرے وہ جو کسی کو کچھ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور دنگ رہ جاتے ہیں، تیسرے وہ جن کو کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا، کہ کیا ہوا ؟ درحقیقت دیکھیں تو دُنیا میں صرف دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک نیکی کرنے والے دوسرے بدی کرنے والے ۔۔ اور آخرت میں بھی یہی دو طرح کے لوگ ہونگے ایک جنتی اور دوسرے جہنمی۔۔

جواب دیں

Back to top button