ColumnImtiaz Aasi

چوائس کی عدلیہ کا تاثر نہیں ہونا چاہیے

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
ریاست پاکستان کا ڈھانچہ تین ستونوں پر کھڑا ہے جس میں ایک اہم ستون عدلیہ ہے۔ گو ماضی قریب میں پسند و ناپسند کے تاثر سے عدلیہ کی ساکھ پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں تاہم اس کے باوجود عوام کو عدلیہ پر آج بھی پورا اعتماد ہے۔ حقیقت میں عدلیہ میں پسند و ناپسند کا سلسلہ 1985ء سے شروع ہوا جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال اور قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں اعلیٰ عدلیہ کچھ ایسی منقسم ہوئی پھر عدالت عظمیٰ کے بعض فیصلوں سے یہ تاثر ابھرا سپریم کورٹ جیسے ادارے سے من پسند فیصلے ہوسکتے ہیں۔ جناب عمر عطاء بندیال کے دور میں رات کی تاریکی میں عدالتوں کا لگنا ہمیں کچھ عجیب لگا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے بعض ججوں کی اداروں کی طرف سے دبائو کی شکایت نے ہمارے خدشات کو حقیقت میں بدل دیا اعلیٰ عدلیہ بھی دبائو کا شکار ہو سکتی ہے۔ ہماری حکومتیں یہ بات بھول جاتی ہیں آج سے چودہ سو برس قبل نبی آخر الزمانؐ نے فرمایا تھا جن اقوام میں انصاف نہیں ہوتا وہ برباد ہو جاتی ہیں گویا ہماری تباہی میں کون سی کسر باقی ہے۔ ایٹمی قوت بننے کے باوجود ہم نگر نگر مانگتے پھرتی ہیں ہمارا معاشی نظام ٹھیک ہوتا اور کرپشن کا عنصر شامل نہ ہوتا مملکت کے حالات کچھ اور ہوتے ۔ ہمارے نظام میں سب سے بڑی خرابی کسی حکومت کو آزادانہ طور پر کام کرنے نہیں دیا جاتا خارجہ پالیسی کہیں اور سے بنتی ہے البتہ نمائشی طورپر وزارت خارجہ کام کر رہی ہے ۔ہم اعلیٰ عدلیہ کی بات کر رہے تھے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا فل کورٹ اجلاس بلانا جس میں تمام ججوں کی شرکت اس امر کی غماز ہے آنے والے وقتوں میں سپریم کورٹ میں ججوں کی دھڑے بندی کا تاثر زائل ہونے میں مدد ملے گی۔ جناب جسٹس منصور علی شاہ اور جناب منیب اختر نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ نہ دے کر اچھی مثال قائم کی ہے ورنہ بعض اداروں میں سنیئر افسران کے سپر سیڈ ہونے کی صورت میں وہ اپنے عہدوں سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ جناب چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے مقدمات کی سماعت کے سلسلے میں جسٹس منصور علی شاہ فارمولے کو اپنانے کی نوید دے کر سپریم کورٹ میں رسہ کشی کا تاثر کا خاتمہ کر دیا ہے۔ جناب چیف جسٹس نے پروسیجر اینڈ پریکٹس ایکٹ کے تحت جوڈیشل کمیشن میں جناب منصور علی شاہ اور جناب جسٹس منیب اختر کو شامل کرکے واضح پیغام دیا ہے وہ اپنے پروفیشن کے علاوہ کسی قسم کی دھڑے بندی پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔ چیف جسٹس کے لئے سب سے بڑا چیلنج ان ساٹھ ہزار مقدمات کا تصفیہ کرنا ہے جو عرصہ دراز سے زیر التواء ہیں۔ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے جج صاحبان کا اجلاس بلانے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے جناب چیف جسٹس ماتحت عدلیہ کی کارکردگی پر گہری نظر رکھنے کا عزم رکھتے ہیںحالانکہ ماتحت عدلیہ کی کارکردگی پرکھنے کے لئے انسپکشن جج ہونے کے باوجود ماتحت عدلیہ کی کارکردگی کو حوصلہ افزاء قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حکومت نے آئین کے آرٹیکل 27 میں ترمیم کا عندیہ دیا ہے جس سے اس امر کا امکان ہے فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے آئین میں ترمیم لائی جا سکتی ہے اس سلسلے میں بعض ارکان اسمبلی نے فوجی عدالتوں کو ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے وقت کی ضرورت قرار دیا ہے تاہم اس ناچیز کا سوال ہے پہلے فوجی عدالتوں سے دہشت گردی کے مقدمات میں سزائے موت پانے والے ان ساٹھ دہشت گردوں کو پھانسی دی جائے جنہوں کی رحم کی اپیلیں صدر مملکت سے خارج ہو چکی ہیں۔ دہشت گردی کے مقدمات میں سزا یاب ہونے والوں کی سزائوں پر عمل درآمد دشوار ہے تو فوجی عدالتوں کے قیام کا مقصد ختم ہو جاتا ہے۔ خبروں کے مطابق حکومت سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کی خواہاں ہے سوال ہے کیا ہائی کورٹس میں ججوں کی تعداد پوری کرنا ضروری نہیں ہے؟ یہ بات درست ہے اعلیٰ عدلیہ پر مقدمات کو بہت زیادہ بوجھ ہے جسے ختم کرنا وقت کی ضرورت ہے لیکن سوال ہے کیا ہائی کورٹس میں مقدمات کا بوجھ نہیں ہے جو سپریم کورٹ میں مقدمات کی اپیلیوں کی سماعت ضروری ہے تو ہائی کورٹس میں بھی ججوں کی کمی پورا کرنا اتنا ضروری ہے۔ ججوں کا تقرر کرنے والی کمیٹی میں پی ٹی آئی کی شمولیت کا اعلان خوش آئند ہے۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے پی ٹی آئی کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے نہ کہ ملک میں جلسے اور جلوس نکال کر ملکی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ہم پہلے یہ بات کئی بار اپنے کالموں میں لکھ چکے ہیں اقتدار سے ہٹنے کے بعد عمران خان اگر اپوزیشن میں بیٹھ جاتے تو آج جیل میں نہیں ہوتے بلکہ ایوان میں اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرتے۔ حقیقت میں پی ٹی آئی رہنمائوں کی اولین ترجیح جیلوں سے اپنے بانی اور ورکرز کی رہائی کے لئے ٹھوس حکمت عملی اپنانی چاہیے تھی۔ ڈی چوک میں دھرنے اور توڑ پھوڑ مسائل کا حل نہیں ہوتے افہام و تفہیم ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے مشکل سے مشکل معاملات حل ہو سکتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اقتدار کا حصول ضرور مدنظر رکھیں لیکن جہاں ملک کا مفاد ہو وہاں احتیاط کا دامن ہرگز نہیں چھوڑنا چاہیے۔ جیسا کہ پی ٹی آئی کے سنیئر رہنما اور قانون دان لطیف کھوسہ نے دعویٰ کیا ہے بانی پی ٹی آئی آئندہ ماہ رہا ہو جائیں گے جس سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا اندرون خانہ کچھ نہ کچھ بات چیت جاری ہے جو اچھی بات ہے۔ پارٹی ورکرز کو سڑکوں پر لانے سے مسائل حل نہیں ہو سکتے بانی پی ٹی آئی کو مسلم لیگ نون کی مثال سامنے رکھنی چاہیے لیگی ورکرز نے سڑکوں پر آکر کتنی قربانیاں دی ہیں اس کے باوجود نواز شریف کی جماعت اقتدار میں ہے۔ سیاسی جماعتیں طاقت ور حلقوں کی سیاست میں مداخلت کا جو رونا رو رہی ہیں وہ سیاسی رہنمائوں کا کیا دھرا ہے ورنہ سیاست دانوں میں اقتدار کی ہوس نہ ہوتی ادارے سیاست میں مداخلت نہیں کر سکتے تھے۔ سپریم کورٹ میں نئے ججز کی تقرری ایک طرح سے چیف جسٹس کا امتحان ہے وہ کس حد تک غیر جانبدار رہتے ہوئے نئے ججوں کی تقرری میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں تاکہ اعلیٰ عدلیہ میں چوائس کے ججوں کی تقرری کا تاثر ختم ہو سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button