الٹی ہو گئی سب تدبیریں

محمد مبشر انوار
معاشرے ہمہ وقت تبدیلیوں کی زد میں رہتے ہیں اور انہی تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، ارباب اختیار، معاشرے کو چلانے والے، قانون سازی کرتے ہیں تا کہ آنے والی تبدیلیوں کو قانون کے تابع رکھتے ہوئے، معاشرے میں امن و سکون برقرار رکھا جا سکے۔ قانون سازی ایک طرف انتہائی مغز ماری کا کام ہے تو دوسری طرف اس میں ملک و قوم کو درپیش مسائل سامنے رکھتے ہوئے انتہائی غیر جانبداری کے ساتھ، ملک و قوم کی بہتری کے لئے قانون سازی کی جاتی ہے۔ قانون سازی میں قوم کے عالی ترین قانونی دماغوں کی اہمیت کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ان کی خدمات سے صرف نظر بھی نہیں کیا جا سکتا کہ یہی وہ دماغ ہیں کہ قانون سازی کرتے وقت ،جن کے سامنے عالمی حالات اور وہاں ہونے والی تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، عالمی قوانین کے ساتھ مطابقت قائم رکھتے ہوئے قانون سازی کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے کچھ دہائیوں سے پاکستان میں، قانونی دماغوں کی سوچ ’’ وسیع تر قومی مفاد‘‘ کے تابع مخصوص افراد کی سہولت کاری تک محدود نظر آتی ہے جس کے باعث قانون سازی کا ادارہ صرف ان مخصوص افراد کی قانونی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی قانون سازی کر رہا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف عدالتی نظام ایسے قوانین کی تشریح میں الجھا نظر آتا ہے تو دوسری طرف مقننہ اور عدلیہ کے درمیان رسہ کشی دکھائی دیتی ہے۔ مقننہ اگر اپنے فرائض کماحقہ ادا کر رہی ہوتی تو یقین واثق ہے کہ عدلیہ پر ایسے قوانین کی تشریح کا بوجھ اس قدر نہ ہوتا ،یا روبہ عمل قوانین میں سقم تلاش کرنے کے بجائے اگر مقننہ و انتظامیہ خود کو موجود قوانین کے تابع، زیر اثر کر لیتی تب بھی عدلیہ پر بوجھ کم ہوتا اور عدلیہ یکسوئی کے ساتھ انصاف کی فراہمی میں مشغول دکھائی دیتی اور اس کی عالمی درجہ بندی کہیں بہتر ہوتی۔ دوسری طرف مقننہ و انتظامیہ کے موقف پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ چند نکات واقعتا ایسے ہیں کہ جن کی تشریح عدلیہ کی جانب سے ضروری ہوتی ہے لیکن تشریح کے بعد مزید نکات نکالنا اور عدالتی تشریح سے اس وقت تک اختلاف رکھنا کہ جب تک فیصلہ اپنی خواہش کے مطابق نہ مل جائے، ایک مستقل رسہ کشی کی جانب لے جاتا ہے جس میں عدلیہ کے اپنے ہی سابق موقف سے انحراف، عدلیہ کی ساکھ پر سوال کھڑے کر دیتا ہے۔ مثلا حالیہ ایک آئینی مسئلے پر دو سال قبل دئیے گئے فیصلے کو سابق چیف جسٹس کی جانب سے، عدالتی روایات کو روندتے ہوئے، برعکس فیصلہ دینا جس نے حکومت وقت کو مشکلات سے نکا لاہو، حکومت کو تو خوش کرتا ہے مگر کیا واقعتا آئین کی منشا بھی یہی ہے؟ اپنی ایک گزشتہ تحریر بعنوان ’’ لاٹھی، گولی کی سرکار‘‘ میں اس پر تفصیل سے لکھا تھا کہ اگر آئین میں فلور کراسنگ پر ڈی سیٹ کر کے رکن اسمبلی کو سزا دی گئی ہے تو کیسے اور کیونکر ایسے کسی رکن اسمبلی کا ووٹ شمار ہو سکتا ہے؟ بین السطور کیا یہ واضح نہیں ہے کہ ایسے کسی بھی رکن اسمبلی کو جو فلور کراسنگ کا مرتکب ہے، اس کو ڈی سیٹ کر کے سزا دی جار ہی ہے جبکہ حالیہ فیصلے میں اس سزا کو تو برقرار رکھا گیا ہے یعنی رکن اسمبلی ڈی سیٹ تو ہو جائیگا لیکن اس کا ووٹ، جس کے باعث وہ ڈی سیٹ ہو رہا ہے، وہ شمار کیا جائے گا، انتہائی عجیب اور آئین سے متصادم دکھائی دیتا ہے، اس کے باوجود یہ اب قانون ہے جس سے اراکین اسمبلی کی خریدوفروخت کو قانونی قرار دے دیا گیا ہی۔ ایسی ہی قانون سازی ایک زمانے میں جنرل مشرف نے اپنے دور میں نیب قوانین میں کرتے ہوئے، پلی بارگین کا اصول متعارف کروایا تھا، تب بھی لکھا تھا کہ اس طرح معاشرے میں کرپشن کو جائز قرار دے دیا گیا ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ کرپشن پر سخت کارروائی کی جانی چاہئے تا کہ معاشرے سے اس ناسور کا خاتمہ ہو سکے۔
بہرکیف عدالت عظمی کے اس حالیہ فیصلے سے حکومت وقت کو سہولت ملی کہ وہ بآسانی آئینی ترمیم کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے اور اس پر عملدرآمد کرنے کی جو عجلت حکومت کو تھی، اس میں بھی کامیابی حاصل کر چکی ہے۔ اپنے تئیں جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس کے منصب پر بٹھانے کی ’’ بھیانک غلطی‘‘ نہیں کرنا چاہتی تھی، لہذا عجلت میں کی گئی ترمیم کے باعث، جوڑ توڑ کے سبب پانچ ججز کے ناموں کی بجائے تین سینئر ججز کے ناموں پر غور کرنے پر مجبور ہوئی، اس لئے قرعہ فال جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام نکلا جو اپنے منصف کا حلف اٹھا چکے ہیں ۔ حکومت اور اس کی حلیف بارز بخوبی جانتے ہیں کہ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس منصور علی شاہ کے تعلقات اور ذہنی ہم آہنگی کس قدر ہے، گو کہ جسٹس یحییٰ آفریدی اکثر اپنے فیصلوں میں مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں لیکن عدلیہ کی آزادی، بہتری اور انتظامی امور میں جسٹس منصور علی شاہ کس قدر زرخیز ذہن کے مالک ہیں، اس سے جسٹس منصور کے رفقاء بخوبی واقف ہیں، اور ان کے وژن سے مستفید ہونے میں کسی لیت و لال سے کام نہیں لیں گے۔ جیسا جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے حلف کے دوران ہی واضح کر دیا تھا کہ اختیارات کی تقسیم یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے ججز کا مورال بھی بلند رکھیں گے، ان سے توقعات رکھنے والوں کے لئے بظاہر واضح اعلان ہے لیکن اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی کس حد تک عمل پیرا ہوتے ہیں، اس پر فی الوقت کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، تاہم ان سے ججز اور وکلاء برادری کی توقعات یہی ہیں کہ وہ اپنے اس موقف کو سچ ثابت کر دکھائیں گے۔ اس حوالے سے حلف اٹھاتے ہی چیف جسٹس کے ابتدائی اقدامات نے توقعات کا جوالا مکھی نہ صرف ججز، وکلاء برادری بلکہ عوام میں روشن کر دیا ہے، بالخصوص عوامی توقعات آسمان تک جا پہنچی ہیں، جنہیں برقرار رکھنا اور حاصل کرنا، پاکستانی سیاسی و مقتدرہ کے پس منظر میں جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوگا۔
انتہائی بنیادی نوعیت کے معاملات پر جسٹس یحییٰ آفریدی کے لئے گئے اقدامات کو وکلاء کی اکثریتی برادری راست اقدام سے تعبیر کر رہی ہے اور خوش گمان ہے کہ اسی طرح دیگر قانونی و انتظامی امور پر جسٹس یحییٰ آفریدی اس فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیں گے۔ بعد ازاں جن معاملات کے عدالت عظمی میں اٹھائے جانے کا فوری امکان ہے، ان میں سرفہرست 26ویں آئینی ترمیم ہو گی کہ جس کے باعث جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس کا منصب تفویض ہوا ہے، اس آئینی ترمیم کی حیثیت کو بلاشک و شبہ عدلیہ میں چیلنج ہونا ہے، ممکنہ طور پر اس تحریر کی اشاعت تک یہ ترمیم چیلنج ہو چکی ہو، جسٹس یحییٰ آفریدی کا امتحان یہیں سے شروع ہو جائیگا ۔ کیا ایک ایسی آئینی ترمیم ، جس کے بطن سے آئینی بینچ کا قیام ہونا ہے، اپنے خلاف ایسی درخواست کی سماعت یہ آئینی بنچ کر سکتا ہے؟ عدالتی نظائر ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں کہ مدعا علیہ اپنے خلاف کسی مقدمہ کی درخواست سنتا دکھائی دیتا ہو اور یقینی طور پر یہ حقیقت جسٹس یحییٰ آفریدی کے سامنے ہوگی، کیا اس درخواست کی سماعت کے لئے فل کورٹ کا اعلان ہو گا؟، بصورت دیگر آئینی بینچ کی تشکیل ہوتی ہے، حکومتی توقعات اور ایک طاقتور محکمے کی روایات کے برعکس عدالت عظمیٰ کے دو سینئر ترین ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر، چیف جسٹس نہ بنائے جانے پر مستعفی نہیں ہوئے، کیا آئینی بینچ کی سربراہی ان میں سے کسی ایک کو تفویض ہو گی؟، اول الذکر اصول کو سامنے رکھیں تو نہ صرف جسٹس منصور علی شاہ بلکہ جسٹس منیب اختر سے بھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ کسی ایسے آئینی بینچ کی سربراہی کریں، جس کے باعث ان کی حف تلفی کی گئی ہو، قوی امکان یہی ہے کہ اولا جسٹس یحییٰ آفریدی ہی آئینی بینچ کی تشکیل سے گریز کریں گے اور بالفرض آئینی بینچ تشکیل دے کر، دو سینئر ججز میں کسی ایک کو بھی اس کی سربراہی تفویض کریں تو پہلی سماعت پر ہی ان کی جانب سے فل کورٹ تشکیل دئیے جانے کی تجویز سامنے آئے اور فل کورٹ تشکیل دے دی جائے، معاملہ بہرحال فل کورٹ میں ہی حل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اختیارات کی تقسیم، عدلیہ کی آزادی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ قوی امکان ہے کہ فل کورٹ اس آئینی ترمیم کو یقینی طور پر کالعدم قرار دے گی کہ یہ آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہے اور عدلیہ کی آزادی پر، انتظامیہ کی مداخلت/اثر کی راہ ہموار کرتا ہے، تاہم یہ متوقع فیصلہ ادھورا ہو گا اگر اس فیصلے میں 26ویں آئینی ترمیم کے نتیجہ میں کئے گئے فیصلوں کو بھی کالعدم قرار نہ دیا جائے کہ اس کے بغیر حکومتی ہٹ دھرمی، مخصوص نشستوں پر عدالت عظمی کے دئیے گئے فیصلے سے ظاہر ہے اور عدالت عظمی کی توہین کے مترادف ہے۔ بہرکیف اگر ایسا فیصلہ سامنے آتا ہے تو یہ حکومت کی خواہشات کا مقبرہ بناتے ہوئے، عدلیہ کی آزادی و ساکھ کو بہتر بناتے ہوئے، بدنیتی پر مبنی حکومت و حکومتی بیساکھیوں کی تدبیروں کو الٹ کرتا نظر آئے گا، باقی واللہ اعلم بالصواب۔