Lucifer effect

علیشبا بگٹی
وہ کیا چیز ہے جو ایک انسان کو شیطان اور ظالم بناتی ہے؟، ایسے سوالوں کا جواب اس کتاب میں تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کتاب Philip Zimbardo نے لکھی ہے۔
اس کتاب میں فلسفہ، نفسیات، اور سوشل سائنسز کے موضوع میں انسانی تبدیلی کا جائزہ لیا گیا ہے، اور یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہماری سوسائٹی کے اندر کون سے عوامل انسانوں کے سلوک میں تبدیلی لاتے ہیں اور ہمیں اچھائی اور بدی کے درمیان توازن کیسے رکھنا چاہیے۔ مصنف انسانی نفسیات کے تین بنیادی حقائق کو پیش کرتے ہیں۔
1۔ دنیا میں خیر اور شر دونوں موجود ہیں۔ ہر انسان کے اندر نیکی اور بدی کی یہ دونوں قوتیں موجود ہوتی ہیں، جو کہ حالات کے مطابق ابھرتی ہیں۔ زِمبارڈو کی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ برائی کبھی بھی انسانی فطرت کا منفرد حصہ نہیں ہے، بلکہ یہ انسان کی زندگی کے تجربات اور ماحول سے متاثر ہوتی ہے۔
2۔ خیر اور شر کے درمیان باریک حد ہوتی ہے۔ انسان کبھی بھی اچانک اپنے نظریات سے منحرف ہو سکتا ہے۔
3۔ کردار کی تبدیلی کا انحصار حالات پر ہوتا ہے۔ مختلف حالات اور ماحول افراد کے کردار کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ زِمبارڈو برائی کو اس طرح بیان کرتے ہیں۔ ’’ ایسی دانستہ حرکات جو معصوم لوگوں کو نقصان پہنچانے، ذلیل کرنے، یا ان کی انسانیت ختم کرنے کا باعث بنتی ہیں، یہ برائی کی شکلیں ہیں‘‘۔
یہ تعریف ہمیں سمجھاتی ہے کہ برائی کبھی کبھی کسی کے اختیار یا طاقت کے غلط استعمال سے جنم لیتی ہے۔ زِمبارڈو مختلف تاریخی سانحات کی ذریعے اس برائی کے سفر کو واضح کرتے ہیں، جیسے کہ۔۔ ٹرائے کی جنگ، جہاں اَگَمیمنون نے بے قصور شہریوں کی ہلاکت کا حکم دیا، جو انسانی فطرت کے تاریک پہلو کو ظاہر کرتی ہے۔ اس جنگ میں طاقت کے غلط استعمال نے دکھایا کہ کس طرح انسانیت کی قدریں پس پشت چلی جاتی ہیں۔۔ روانڈا کا قتل عام۔ ہُتوس نے تُتسی برادری کے خلاف ظلم کیا، یہ واقعہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ نفرت کی بنیاد پر انسانیت کس طرح مٹ سکتی ہے۔ یہاں تک کہ قریبی دوست اور پڑوسی بھی ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہو گئے، جو کہ انسانی نفسیات کی ایک تاریک حقیقت ہے۔۔ دوسری جنگ عظیم۔ جاپانی فوجیوں نے چینی شہریوں کی بے رحمی سے جانیں لیں، جس میں طاقت کے غلط استعمال کی واضح مثال موجود ہے۔ نازی دور میں بھی، انسانوں کو غیر انسانی طور پر جانوروں کی طرح سلوک کیا گیا، جس کی وجوہات کو زیمبارڈو نے گہرائی سے بیان کیا ہے۔
یہ جاننا کہ برائی کا بیج ہم سب کے اندر موجود ہے، انسانی فطرت کی ایک گہری حقیقت ہے۔ اس سے ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہر فرد کے اندر موجود برائی کو پہچاننا اور اس سے آگاہ ہونا نہایت اہم ہے۔ یہ جاننا کہ ہم سب میں برائی کا امکان ہے، ہمیں اپنی اخلاقی ترقی کے لیے ایک موقع فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے ایک تجربہ کیا جس میں انہوں نے دو علاقوں میں ایک چھوڑی ہوئی کار کا مشاہدہ کیا۔
جہاں گمنامی اور deindividuation موجود تھی، وہاں چھوڑی گئی کار فوراً لوٹ لی گئی۔ یہ مظاہرہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جب لوگ اپنی شناخت سے محروم ہوتے ہیں تو وہ دوسروں کے حقوق کا احترام نہیں کرتے۔ جبکہ ایک دوسرے علاقے میں چھوڑی گئی کار کئی دنوں تک محفوظ رہی، کیونکہ یہاں کی کمیونٹی کے لوگ ایک دوسرے کی نگرانی کرتے ہیں اور ان کے درمیان ایک مضبوط سماجی رشتہ ہوتا ہے۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ مضبوط سماجی بندھن افراد کو اخلاقی حدود میں رکھ کر برائی کے امکانات کو کم کر دیتے ہیں۔
مصنف نے ایک اور تجربہ سے بتانے کی کوشش کی کہ جب گارڈز نے قیدیوں کے ساتھ ایسے سلوک کا آغاز کیا جو انسانیت کی توہین کرتا تھا۔ یہ ذلت کی شروعات ایک خوفناک مظہر بن گئی، جو انسانی نفسیات کے تاریک پہلوں کو سامنے لاتی ہے
گارڈز نے اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے قیدیوں پر ایسے مظالم ڈھائے جو انسانی حقوق کی تمام حدیں پار کر گئے۔ ان کے لیے یہ صرف ایک کھیل بن گیا، جبکہ قیدیوں کے لیے یہ زندگی اور موت کا معاملہ تھا۔ جہاں طاقت کے نشے میں انسان اپنی انسانیت کو بھول جاتا ہے۔ یہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہمارے اندر ایک ’’ گارڈ‘‘ یا ’’ قیدی‘‘ موجود ہے۔ پھر وہ قیدیوں کی بغاوت کی کہانی بیان کرتے ہیں، جو ان کی ذلت کی انتہا پر پہنچنے کے بعد شروع ہوتی ہے۔ جب قیدیوں کے لیے یہ واضح ہو گیا کہ انہیں انسانی طور پر نہیں دیکھا جا رہا، تو ان میں آزادی کی خواہش اور نظام کے خلاف مزاحمت کا جذبہ بیدار ہونے لگا۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کی فطرت میں مزاحمت کا جذبہ موجود ہے۔ قیدیوں کی بغاوت نہ صرف ان کی اندرونی طاقت کی علامت تھی، بلکہ زیمبارڈو نے اس تجربے کے ذریعے یہ دکھایا کہ قیدیوں کی بغاوت ان کی انسانی روح کی قوت کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ کسی بھی نظام میں ظلم اور ناانصافی کے خلاف اٹھنے والا ہر قدم ایک اہم قدم ہوتا ہے۔ آگے چل کر مصنف ان قیدیوں کے دلوں کی گہرائیوں میں چھپی خوف اور بے بسی کو چھپانے کی کوشش کا بتاتے ہوئے وضاحت کرتے ہیں کہ حالات انسان کی سوچ کو کس طرح متاثر کر سکتے ہیں۔ وہ اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ ایک شخص کی کردار سازی میں ماحول اور حالات کی اہمیت ہوتی ہے۔ جب قیدیوں سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ کیا وہ تجربے کے پیسوں کی قربانی دے کر آزادی حاصل کرنا چاہیں گے، تو وہ اس پر راضی ہو جاتے ہیں۔ یہ اس سب سے اندازہ ہوتا ہے کہ کبھی کبھار انسان اپنی فطری آزادی کے باوجود طاقتور نظام کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ یہ صورت حال ایک نیا سوال اٹھاتی ہے۔ کیا حقیقی آزادی صرف جسمانی قید سے چھٹکارا پانے میں ہے، یا یہ ایک ذاتی اور نفسیاتی آزادی بھی ہے۔ کیونکہ اگر ہم خاموش رہیں گے تو نہ صرف ہم ظلم کی عکاسی کریں گے بلکہ خود بھی اس ظلم کا حصہ بن جائیں گے۔
زیمبارڈو نے یہ بھی کہا ہے کہ لوگ اپنی ناکامیوں اور کامیابیوں کا الزام صرف فرد پر ڈالتے ہیں۔ حالانکہ اصل میں وہ حالات اور نظاموں کا اثر ہوتا ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسانی شناخت کو مخصوص حالات سے جدا نہیں کیا جا سکتا، بلکہ وہ ہمیشہ ان کے اثرات میں جڑی رہتی ہے۔ وہ وضاحت کرتے ہیں کہ کیسے طاقت کے استحصال سے لوگ غیر اخلاقی سلوک کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ ان تجربات نے یہ ظاہر کیا کہ افراد اکثر اپنی اخلاقی رائے کو پس پشت ڈال دیتے ہیں جب انہیں طاقتور لوگوں یا نظاموں کی جانب سے دبا محسوس ہوتا ہے۔ زیمبارڈو لکھتے ہیں: ہم جو ہیں، وہ زندگی کے ان وسیع نظاموں سے شکل پاتا ہے جو ہماری زندگیوں کو حکمرانی کرتے ہیں ’’ دولت اور غربت، جغرافیہ اور آب و ہوا، تاریخی دور، ثقافتی، سیاسی اور مذہبی تسلط‘‘ اور ان مخصوص حالات سے جو ہم روزانہ سامنا کرتے ہیں. اس نقطہ نظر سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ ہر انسان کا عمل اور شناخت ان کے ارد گرد کے معاشرتی و ثقافتی نظاموں سے جڑی ہوئی ہے۔ The Need for Awarenessمیں وہ وضاحت کرتے ہیں کہ معاشرے میں صحیح اور غلط کی پہچان کرنا ضروری ہے۔ وہ مزید وضاحت کرتے ہیں کہ حقیقی heroismیعنی بہادری کی تعریف کیا ہوتی ہے۔ کسی بھی شخصی بغاوت کا مقصد نظام کو تبدیل کرنا، ناانصافی کو درست کرنا، یا کسی غلط کو درست کرنا ہونا چاہیے۔
یہ کتاب انسانی سلوک، اخلاقیات، اور طاقت کے مظاہر کو جانچتی ہے۔ کہ کس طرح انسان کی طبیعت میں خوفناک تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں کو اجاگر کیا گیا ہے، خاص طور پر جب لوگ طاقت کے تحت آتے ہیں یا کسی سماجی دبا کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ صرف انفرادی کردار کی بات نہیں کرتا بلکہ کس طرح سسٹم انسانی رویے کو متاثر کرتی ہے۔







