پی ٹی آئی کے جلسے مولانا کے شکوے

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
ملک میں عجیب صورتحال پید ا ہو چکی ہے چیف جسٹس کا تقرر عمل میں آنے کے بعد پی ٹی آئی نے آئینی ترامیم کے خلاف جلسوں کا اعلان کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی طرح طرح کی بولیوں نے پارٹی ورکر ز کو تذبذب میں ڈالا دیا ہے۔ ہونا تو چاہیے تھا پی ٹی آئی سانحہ نو مئی میں گرفتار ورکرز کی رہائی کے لئے کوئی مثبت لائحہ عمل اختیار کرتی کیا وقفے وقفے سے جلسوں کا انعقاد کرکے پی ٹی آئی اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو سکے گی؟ پی ٹی آئی کا آئینی ترامیم کے لئے قائم پارلیمانی کمیٹی میں ووٹ دینے کے باوجود دونوں ایوانوں میں رائے شماری میں عدم شرکت نے کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ جب آئینی ترامیم عمل میں لائی جا چکی ہے نئی ترامیم کے خلاف جلسوں کی وجہ سمجھ سے باہر ہے۔ سوال ہے پی ٹی آئی کے احتجاج سے ترامیم واپس لے لی جائیں گی؟ آءینی ترامیم سے نئے چیف جسٹس کی تقرری عمل میں لائی گئی ہے کیا پی ٹی آئی نئے چیف جسٹس جناب یحییٰ آفریدی کی تقرری کے خلاف جلسے کرے گی۔ پی ٹی آئی کے رہنما بہت جلد بھول جاتے ہیں جناب یحییٰ آفریدی نے سانحہ نو مئی کے ملزمان کے خلاف ملٹری کورٹس میں مقدمات چلانے کی مخالفت کی تھی۔ گو عوام کی بہت بڑی تعداد آج بھی عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے جس کا مطلب یہ نہیں پی ٹی آئی جو چاہیے کرتی پھرے ۔ عوام اتنے بھولے نہیں وہ ہر بات کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں۔ ہماری پی ٹی آئی رہنماوں سے درخواست ہے نئے چیف جسٹس کو کام کرنے دیں۔ آپ جلسے ضرور کریں عمران خان اور پارٹی ورکرز کی رہائی کے لئے جدوجہد قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کرنی چاہیے البتہ عوام سے مذاق مت کریں۔ پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل عمر ایوب خان کا کہنا ہے حکومت مخالف جلسوں میں اپوزیشن جماعتیں بھی شریک ہوں گے۔ سوال ہے اس سے قبل پی ٹی آئی نے تحفظ آئین کے سلسلے میں کتنے جلسوں کا انعقاد کیا جو اب جلسوں کا اعلان ہو رہا ہے۔ جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن نے پی ٹی آئی سے شکوہ کیا ہے پارلیمانی کمیٹی میں جسٹس منصور کو ووٹ نہ دے کر بالواسطہ طور پر پی ٹی آئی نے حکومت کی حمایت کی ہے۔ مولانا کا کہنا ہے پارلیمانی کمیٹی میں پی ٹی آئی جے یو آئی کا ساتھ دیتی تو چیف جسٹس حکومت کی مرضی کا نہیں آسکتا تھا۔ عمران خان جیل میں رہتے ہوئے پارٹی رہنمائوں پر کتنا کنٹرول کر سکتا ہے۔ شائد اسی لئے پی ٹی آئی کسی ایک بات پر متفق دکھائی نہیں دے رہی ہے بنیادی طور پر پی ٹی آئی میں رابطوں اور اہم آہنگی کا فقدان ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم کے لئے کمیٹی میں جسٹس منصور شاہ اور جسٹس منیب اختر کی شمولیت اس امر کی غماز ہے چیف جسٹس دونوں جج صاحبان کے تجربات سے استعفاد کرنے کے خواہاں ہیں۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو عدالت عظمیٰ میں مقدمات کا خاصا بوجھ ہے انصاف کے منتظر غریب عوام کو اپیلوں کی سماعت کے لئے برسوں انتظار کرنا پڑ تا ہے تاہم نئے چیف جسٹس نے منصب سنبھالنے کے بعد کام کا آغاز کیا ہے امید کی جا سکتی ہے سپریم کورٹ میں برسوں پڑی اپیلوں کی سماعت کا آغاز جلد ہوگا۔ ملکی حالات کے تناظر میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا اس وقت کوئی سیاسی جماعت نہ آئینی ترامیم اور نہ کسی اور معاملے میں کوئی بڑی تحریک چلانے کی پوزیشن میں ہے۔ ملک میں جب کسی تحریک کا آغاز ہوا سیاسی جماعتوں کو طاقت ور حلقوں کی پشت پناہی حاصل رہی ورنہ کوئی جماعت کسی معاملے پر بڑی تحریک چلا نہیں سکتی۔ پی ٹی آئی اور اپوزیشن جماعتوں نے آئین کے تحفظ کے لئے جلسوں کا انعقاد کرکے دیکھ لیا جس میں اپوزیشن کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ہو سکی لہذا پی ٹی آئی کا اپوزیشن جماعتوں سے مل کر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا خواب پورا ہونے کا امکان نہیں۔ حکومت کے خلاف تحریک اس لئے بھی کامیاب نہیں ہو سکتی پی ٹی آئی میں قیادت کا فقدان ہے سیاسی رہنمائوں میں ہم آہنگی نہ ہونے سے حکومت کو کسی قسم کی تحریک سے خطرہ نہیں۔ ہاں البتہ بانی پی ٹی آئی جس روز باہر آیا اور اس نے کسی تحریک کا اعلان کیا تو عوام کا جم غفیر عمران خان کی کال پر باہر نکلے گا ورنہ پی ٹی آئی کی جو قیادت باہر ہے اس کے ہوتے ہوئے حکومت کے خلاف کوئی تحریک کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکتی۔ تعجب ہے ایک طرف پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے جے یو آئی اپوزیشن میں ان کے ساتھ ہے جب پی ٹی آئی کسی جلسے اور تحریک کا اعلان کرتی ہے جے یو آئی اس کا ساتھ دینے سے گریز کرتی ہے۔ پی ٹی آئی رہنمائوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے فوجی عدالتوں کا معاملہ ٹلہ نہیں ہے حکومت موقع ملتے ہی ملٹری کورٹس کا معاملہ ایوان میں لائے گی۔ پی ٹی آئی کے بانی، دیگر رہنمائوں اور ورکرز کو جیلوں میں رکھنے کا مقصد فوجی عدالتوں کے قیام کا انتظار ہے۔ حکومت جیسے ہی فوجی عدالتوں کے لئے پیش رفت کرے گی ترمیم کی منظوری کے فوری بعد سانحہ نو مئی کے ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں شروع ہونے کا قومی امکان ہے۔ پی ٹی آئی رہنمائوں کو حکومت سے بات چیت کے ذریعے کسی طرح بانی پی ٹی اور گرفتار ورکرز کی رہائی کے لئے اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آئینی ترامیم کے موقع پر پی ٹی آئی اور بی این پی کے ارکان کی حمایت اس بات کی واضح نشاندہی ہے حکومت مستقبل قریب میں 26ویں ترامیم کے مجوزہ ڈرافٹ میں رہ جانے والی شقوں کی منظوری کے لئے لائحہ عمل اختیار کرے گی۔ سانحہ نو مئی کے ملزمان کو جیلوں میں رکھنے کا واحد مقصد ان کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانا مقصود ہے لہذا پی ٹی آئی رہنمائوں بشمول بانی پی ٹی آئی کو اپنی او ر ورکرز کی رہائی کے لئے ٹھوس حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی کو جے یو آئی کے امیر سے سیاسی رموز سیکھنے کی ضرورت ہے جو حکومت اور اداروں کے خلاف آواز اٹھانے کے باوجود جیل سے باہر ہیں۔





