Column

ستائیسویں ترمیم کا تازیانہ تیار

سیدہ عنبرین
جنگ آئینی ترمیم ابھی ختم نہیں ہوئی ایک وقفہ ہوا ہے جس میں فریقین اپنی سانسیں بحال کر رہے ہیں۔ بہت جلد دوسرا رائونڈ شروع ہو سکتا ہے، پہلے رائونڈ کے حوالے سے مختلف سیاسی زعما، مختلف آراء کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایک خیال کے مطابق ملک میں سب سے بڑی سیاسی اپوزیشن جماعت کو واضع دوٹوک موقف اختیار نہ کرنے اور نیم درون نیم برون رہ کر وہی کچھ حاصل ہوا ہے جو کوئلوں کی دلالی میں حاصل ہوتا ہے، یعنی منہ کالا ہونے کے ساتھ ساتھ ہاتھ پائوں اور دامن سبھی کچھ داغدار ہوا۔ ایک دوسرے خیال کے مطابق اپوزیشن جماعت نے حکومت کی سب تدبریں ناکام بنا دیں، وہ آئینی عدالت بنانا چاہتے تھے نہ بنا سکے، وہ قاضی فائز عیسیٰ صاحب کو اس عدالت کا سربراہ بنانا چاہتے تھے اس میں ناکام رہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ سویلینز کے مقدمات ملٹری کورٹس کے حوالے کرتا چاہتے تھے اس معاملے میں بھی ناکامی ہوئی، پہلا رائونڈ تحریک انصاف جیت گئی۔ آزادانہ سوچ رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے تحریک انصاف کو موت کا منظر دکھا کر بخار پر راضی کرلیا۔ حکومتی اتحاد میں شامل کوئی سیاسی جماعت اور اس کے سربراہ سویلینز کے مقدمات ملٹری کورٹس میں چلانے کے حق میں نہ تھے۔ سب اس خیال سے ڈرے ہوئے تھے کہ آج اس جال میں تحریک انصاف کو پھنسایا گیا تو کل یہی جال ان کے لئے بھی تیار ہو گا۔ لیکن انہوں نے یہ پراپیگنڈا جاری رکھا کہ وہ یہ کام کرنے جارہے ہیں، بس اس خوف کی پھیلی چادر سے ان کا کام قدرے آسان ہوا، وہ جماعت جو کسی معاملے میں حکومت یا اس کے کسی نمائندے یا حلیف کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نہ تھی یہ سوچ کر مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ گفتگو پر آمادہ ہو گئی کہ وہ کوئی درمیانی راستہ نکالیں گے۔ مولانا صاحب سربراہ پی ٹی آئی سے فقط ایک ملاقات کرانے کے بعد اپنا اعتبار جمانے میں کامیاب ہو گئے، دوسری طرف انہوں نے سرکار سے ملاقاتیں جاری رکھ کر یہ تاثر آخری لمحے تک برقرار رکھا کہ حکومت ان کی تمام شرائط مان کر انہیں ساتھ ملانے پر تیار ہے، لیکن وہ تحریک انصاف کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں، مولانا سے ملاقاتوں کی کہانی دلچسپ رہی، ایک گروپ ان کے ڈرائنگ روم میں موجود ہوتا تو دوسرا بغلی کمرے میں منتظر رہتا جبکہ تیسرا گروپ گاڑیوں میں بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرتا۔ مولانا نے جب اعلان کیا کہ حکومت ان کے ممبران پارلیمنٹ اور سینیٹرز کے پیچھے پڑ گئی ہے تو تحریک انصاف نے سمجھا اب مولانا ہر صورت ان کے ہمنوا ہونگے اور حکومت کی طرف جانے والے تمام راستے بند ہو گئے ہیں، یہ سوچ کر وہ خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔ درحقیقت ایسا کچھ بھی نہ تھا۔ مولانا نے بدمعاشی کے بعد جواب میں بدمعاشی سے کام لینے کا بیان دیا تو سمجھا گیا کہ اب یہ ترمیم عددی اکثریت پوری نہ ہونے کے سبب نہ ہو سکے گی۔ اس خوشخبری پر ابھی رقص فتح شروع نہ ہوا تھا کہ مولانا نے تحریک انصاف کی لیڈر شپ سے کہا کہ اگر ہم نے حکومت کے ساتھ کچھ لو کچھ دو کے مطابق ساتھ چلنے سے انکار کیا تو حکومت دو، چار ممبران کی جگہ دس، بیس ارکان کو ’’ ڈیفکشن ٹیکنالوجی‘‘ کا استعمال کرنے ہونے آئینی ترمیم اپنی مرضی کے مطابق پاس کرا لے گی، جس میں ہماری مرضی کی کوئی شق شامل نہ ہو گی۔ لہذا بہتر ہے ہم ’’ ساری ہاتھ سے جاتی دیکھ کر آدھی بانٹ لیں‘‘، تحریک انصاف کی تو آموز لیڈر شپ حالت غشی میں تھی انہوں نے سوچا ان حالات میں یہی بہتر ہے کہ ہم اپنے کارکنوں کو اور اپنے لیڈر کو منہ دکھانے کے قابل رہ سکیں، پس انہوں نے مولانا کو گرین سگنل دے دیا اور خود ایوان میں آکر یوں بیٹھے رہے جس طرح کیدو کے بندے ہیر کو اٹھا کر لے جارہے تھے اور رانجھا بے بس تھا۔ ہیر کھیڑوں کی ہو گئی، رانجھا منہ دیکھتا رہ گیا، المیہ در المیہ یہ ہوا کہ اگلی صبح ہیر نے خود کشی نہ کی بلکہ ہنسی خوشی کھیڑوں کے ساتھ عہد و پیماں کرتی نظر آئی، تحریک انصاف تو ہیر کا ولیمہ کھانے کیلئے بھی تیار تھی، وہ تو کچھ دانشمندوں نے انہیں احساس دلایا کہ ولیمے کا یہ کھانا تمہارے لیے موت کا پیغام لائے گا، جس پر انہوں نے ما حاضر تناول کرنے کا خیال ترک کیا۔ پاس ہونے والی آئینی ترمیم کی ایک شق کو سمجھنے کیلئے اس سے بہتر مثال دستیاب نہیں، آئین پاکستان کی شق باسٹھ، ترسیٹھ پر پورا اترنے والے ایک نیک چلن شخص کو ایک جسم فروش حسینہ سے عشق ہو گیا، لوگوں نے بہت سمجھایا لیکن عشق کا بھوت سر سے نہ اترا، بات شادی تک پہنچ گئی، شب اول ان صاحب نے اپنی منکوحہ سے کہا کہ بس اب تم میرے نکاح میں آگئی ہو لہذا اب کل سے یہ دھندا ختم کر دو، اب اس کی کوئی ضرورت نہیں، خاتون نے کہا سرتاج دھندا ختم تو کیا جاسکتا ہے لیکن ایک مجبوری راہ میں حائل ہے، نیک دل خاوند نے پوچھا وہ کیا ہے تو بیگم نے کہا کہ ہمارے سر پر بھاری قرض ہے جو لاکھوں میں ہے، پوچھا یہ قرض کب تک اتر سکتا ہے تو بیگم نے جواب دیا سرتاج 2028ء تک، یہ جواب سن کر انہوں نے بیگم سے کہا ہاں یہ تو بہت بڑی مجبوری ہے، لہذا تم 2028ء تک اپنا دھندا جاری رکھو۔آئینی ترمیم میں سودی نظام کے خاتمے کو ترجیح اول ہونا چاہیے تھا لیکن اس دھندے کو آئندہ چار برس تک جاری رکھنے کی ایکسٹینشن دیدی گئی ہے، جبکہ آئینی ترمیم کی باقی شقوں کو جنگی بنیاد پر منظور کرا لیا گیا ہے۔
امریکہ نے دو سو تیس برس میں اپنے آئین میں ستائیس ترامیم کی ہیں، ہم ان شاء اللہ بہت جلد امریکہ کے برابر پہنچنے والے ہیں، امریکہ بھی کیا یاد کریگا۔ ایک ایسا ملک اس کی برابری میں آگیا ہے جس کا کسی بھی اعتبار سے کسی بھی عالمی رینکنگ میں کوئی مقام نہیں۔ منظور ہونیوالی آئینی ترمیم کے بعد ہم نے ایک اور منزل تک رسائی حاصل کر لی ہے، عدل و انصاف کے معاملے میں ہم ایک سو انتالیس نمبر پر تھے ہمارے بعد ایک اور ملک کا نمبر تھا، ہم نے اسے پچھاڑ کر اب ایک سو چالیس منزل پر قدم رکھے ہیں۔77برس میں ایک سو چالیسویں نمبر تک آنا کوئی معمولی کام نہیں یہ مقام ہمیں روز و شب کی محنت سے حاصل ہوا ہے۔
چھبیسویں ترمیم کے زخم ابھی ہرے ہیں، ضرورت تھی ان پر مرہم رکھنے کی لیکن ستائیسویں ترمیم کا تازیانہ تیار ہے، مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے یہ ترمیم نہیں ہونے دیں گے لیکن انھوں نے یہی کچھ چھبیسویں ترمیم کے موقع پر بھی کہا تھا۔

جواب دیں

Back to top button