Column

ثمنًا قَلِیلًانہیں ۔۔۔ فَوۡزًا عَظِیۡمًا

صفدر علی حیدری
خالق اکبر کا فرمان ذی شان ہے ’’ اس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے عمل کے اعتبار سے کون بہتر ہے اور وہ بڑا غالب آنے والا، بخشنے والا ہے‘‘۔
زندگی ایک امتحان ہے، سب سے بڑا امتحان ۔ جس میں کوئی کوئی جیتتا ہے۔ بہت سے لوگ ہارتے ہیں اور مسلسل ہارتے ہی چلے جاتے ہیں۔ آزمائش جو ٹھہری۔ اور آزمائش آسان تھوڑا ہوتی ہے۔ اس پرکھ میں کوئی مقابلہ ہارتا ہے تو کوئی دل۔ کوئی میدان چھوڑتا ہے تو کوئی ہاتھ پائوں۔ آزمائش سے لوگوں کی پرکھ ہوتی ہے۔
بشیر بدر نے کہا خوب کہا ہے ، پرکھنا مت پرکھنے میں کوئی اپنا نہیں رہتا۔
میں نے ایک ’’ پلے دار ‘‘ سے پوچھا کہ اس کی کمر کیسے جھک گئی تو وہ مسکرا کر بولا ’’ وزنی بوریاں اٹھانے سے نہیں ۔ زندگی کی بوری اٹھانے سے۔ اس وزنی بوری نے بڑے بڑوں کو گردنوں اور کمر کو جھکا کر رکھ دیا ہے‘‘۔ لوگ کہتے ہیں زندگی آسان ہے، ہم نے اسے خوامخواہ دشوار بنا ڈالا ہے۔ ہم نے اسے سمجھنے میں علمی ٹھوکر کھائی ہے ۔ ہمارا رب ’’ احسن عمل ‘‘ کا تقاضا کرتا ہے اور ہم میں سے بہت سے لوگ کثرت عمل کو معیار بنا لیتے ہیں۔ اور پھر کثرت کی چاہ میں اخلاقی اقدار کو روندتے چلے جاتے ہیں۔ کثرت کی طلب ہم میں حرص پیدا کر دیتی ہے اور ہم اپنا ایک قیمتی سرمایہ کھو دیتے ہیں۔ ہاں صاحب قناعت کا اثاثہ۔ ساتھ ہی ساتھ ہم توکل پر قناعت کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ حالاں کہ زندگی ان کے بغیر گزارنا مشکل ہو جایا کرتا ہے۔
توکل انسان کا دائیں بازو ہے تو قناعت بایاں۔ ہم لالچ میں پڑ جاتے ہیں۔ چیزوں کی کثرت میں سکون ڈھونڈنے لگتے ہیں۔
کبھی لکھا تھا ’’ سکون کی تلاش مجھے ہمہ وقت بے سکون کیے رکھتی ہے ‘‘۔ ہمیں اپنی ذات سے آگے کچھ دکھائی نہیں پڑتا۔ خود سری ، خود غرضی اور دم پرستی ہم سے بصیرت چھین لیتی ہے۔ ہم چوپایوں جیسے ہو جاتے ہیں جن کی ہمتیں ان کے پیٹ تک محدود ہوتی ہیں ۔
کتاب ہدایت اعلان کرتی ہے ’’ جان رکھو کہ دنیاوی زندگی صرف کھیل، بیہودگی، آرائش، آپس میں فخر کرنا اور اولاد و اموال میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش سے عبارت ہے، اس کی مثال اس بارش کی سی ہے جس کی پیداوار ( پہلے) کسانوں کو خوش کرتی ہے پھر وہ خشک ہو جاتی ہے پھر دیکھتے ہو کہ وہ کھیتی زرد ہو گئی ہے پھر وہ بھس بن جاتی ہے جب کہ آخرت میں ( کفار کے لیے) عذاب شدید اور ( مومنین کے لیے) اللہ کی طرف سے مغفرت اور خوشنودی ہے اور دنیا کی زندگی تو سامان فریب ہے‘‘۔
یہ بات روشن دن کی طرح عیاں ہے کہ اگر دنیوی زندگی مقصد قرار دی جائے اور وہ اخروی زندگی کے تقاضوں سے متصادم ہو تو یہ زندگی طبیعت (Nature)کے ہاتھوں ایک کھلونے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی۔ اس آیت میں دنیا کی مذمت کا تعلق اس دنیا سے ہے جو آخرت کے ساتھ متصادم ہو ۔ چوں کہ آخرت کی ابدی اور ختم نہ ہونے والی زندگی کے مقابلے میں چند روزہ دنیا کی کوئی اہمیت نہیں بنتی ۔
شیخ بہائی سے منقول ہے، پانچ خصلتیں انسان کی عمر کے مراحل سے مربوط ہیں: بچپنے میں کھیل میں مشغول ہوتا ہے۔ بلوغ کی عمر کو پہنچے تو لہویات میں مشغول ہوتا ہے۔ جوانی میں زیب و زینت کا دلدادہ ہوتا ہے۔ درمیانی عمر میں فخر و مباہات میں لگ جاتا ہے اور عمر رسیدہ ہونے پر مال و اولاد کی فکر زیادہ ہو جاتی ہے ۔
دنیاوی زندگی اگر صرف دھوکہ نہ ہوتی اور انسان کو اس دنیا کی زندگی کے لیی بنایا گیا ہوتا تو متاع دنیا کی فراوانی سے سکون و اطمینان میں اضافہ ہونا چاہیے تھا جس طرح مچھلی کو پانی میں سکون ملتا ہے۔ چوں کہ مچھلی پانی میں زندگی بسر کرنے کے لیے خلق ہوئی ہے۔ جب کہ اس دنیا کے مال و دولت میں جس قدر اضافہ ہوتا ہے اسی حساب سے بے اطمینانی میں اضافہ ہوتا ہے اور سکون چھن جاتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان دنیا کے مال دولت کے لیے خلق نہیں ہوا ہے۔ البتہ ضرورت سے زیادہ مال و دولت مراد ہے۔ صرف ضرورت کی حد تک مال سے انسان کو سکون ملتا ہے۔ اور اگر زندگی کو کسب آخرت کے لیے ذریعہ بنایا جائے تو اس صورت میں نہ صرف یہ کہ مذمت نہیں ہے بلکہ اس زندگی کو فضیلت حاصل ہے۔ چناں چہ اس دنیا کی ساٹھ ستر سال کی زندگی کے عوض آخرت کی ابدی زندگی سنور سکتی ہے تو اس زندگی کے ہر آن کے مقابلے میں آخرت کے اربوں سال کی زندگی بن جاتی ہے۔ اس طرح مومن کی دنیا اور ایمان کی زندگی کی قیمت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔
حدیث مبارکہ میں دنیا کے حوالے سے ایک ایسی تعبیر بیان ہوئی ہے جس سے بڑھ کر سادہ ، خوب صورت ، گہری اور سچی تعبیر کوئی دوسری ہو نہیں سکتی ۔’’ دنیا آخرت کے لیے کھیتی ہے ‘‘۔
(باقی صفحہ5پر ملاحظہ کیجئے )

اس ایک حدیث نے فلسفیوں کے فلسفوں ، تصوف و عرفان کی قباحتوں، زہد و رہبانیت شرارتوں کو بیک جنبش قلم اڑا کے رکھ دیا ہے۔ زندگی صرف یہی دنیاوی زندگی نہیں ہے نہ یہ صرف آخرت والی زندگی ہے۔
جو لوگ اسی دنیا کو اپنا منتہا سمجھ لیتے ہیں وہ اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیتے ہیں۔ صرف دنیا کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اور جو لوگ فقط آخرت کو منتہا مان لیتے ہیں وہ دنیا کی حقیقت کو بھلا کر رہبانیت کی دلدل میں جا دھنستے ہیں۔ جب کہ اسلام دنیا کے لیے دین کو چھوڑ دینے کی بات کرتا ہے نہ دین کے لیے دنیا۔ یہ متعدل راستہ دکھاتا ہے، توازن سکھاتا ہے۔ دنیا و آخرت دونوں کو اہمیت دیتا ہے۔ ہاں البتہ اس کی نظر میں آخرت کی اہمیت کہیں زیادہ ہے لیکن اس یہ کہیں لازم نہیں آتا کہ انسان اپنا دنیا کو بھلا دئیے، کوئی اہمیت نہ دے ۔ بلکہ وہ تو دنیا کو آخرت کی کھیتی قرار دیتا ہے۔ گویا آخرت کی تمام تر سعادتوں کا دارومدار دنیا ہے۔ اس کی پاکیزہ زندگی۔ گندم بونے والے کو چاول تو نہیں مل سکتا۔ اور بنا کچھ بوئے بھی حاصل نہیں ہوتا۔ جبھی تو اسلام ایمان کے ساتھ ساتھ عمل صالح کا بھی تقاضا کرتا ہے۔
اب اگر دنیا و آخرت کا موازنہ کیا جائے تو ظاہر ہے آخرت کی قدر قیمت دنیا سے کہیں بڑھ کر ہے۔ لیکن یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ دارالعمل ہے۔ یہاں کیا گیا ایک ایک عمل وہاں ظاہر ہو گا۔ ذرہ برابر نیکی بھی انسان وہاں دیکھے گا اور ذرہ برابر برائی بھی جو اس نے کی ہو گی۔ جبھی تو ہمارا دین ہمیں دنیا کی بھی اچھی زندگی چاہتا ہے اور آخرت کی بھی۔ وہ کسی ایسے زہد کو نہیں مانتا جو دنیا میں موجود چیزوں کے استفادے سے روک دے۔ اسلام تو یہ کہتا ہے کہ دنیا کی لذت ہے ہی متقین کے لیے ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ مومن دنیا سے ترستا رہے اور منافق دنیا سے چمٹا رہے۔ اسلام کسی خواہش کی تکمیل سے نہیں روکتا۔ خواہش مذموم ہوتی تو وہ پیدا ہی کیوں کرتا۔ ہاں وہ جائز طریقے سے اس کے حصول کی بات کرتا ہے۔ وہ ایسی کسی مادر پدر آزادی کی ہر ممکن حوصلہ شکنی کرتا ہے
اب آخرت کی جو بھی قیمت لگائی جائے کھیتی کو وہی قیمت مل جاتی ہے۔
اس نکتے کی طرف اشارہ فرمایا مولائے متقیان علیؓ فرماتے ہیں: یہ دنیا۔۔۔ جو اس سے زاد راہ حاصل کرے اس کے لیے دولت مندی کی منزل ہے اور جو اس سے نصیحت حاصل کرے اس کے وعظ و نصیحت کا محل ہے۔ وہ دوستان خدا کے لیے عبادت کی جگہ، اللہ کے فرشتوں کے لیے نماز پڑھنے کا مقام، وحی الٰہی کی منزل اور اولیاء اللہ کی تجارت گاہ ہے۔ اس کا قرب انسان کا منتہا و مقصود ہی مگر راستہ ایک ہی ہے، یعنی ’’ شریعت محمدی ‘‘، اسی پر چل کر وہ خدا کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔ اس کو چھوڑ کر وہ جو بھی طریقہ اپنائے گا گمراہ ہو گا۔
قرآن مجید میں واضح طور پر کہا گیا کہ کچھ لوگوں نے اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اپنے طریقے وضع کر لیے مگر وہ اسے نبھا نہ سکے۔ ظاہر ہے وہ طریقے انسان کی فطرت کے منافی تھے سو ان پر عمل پیرا ہونا ممکن نہ تھا۔
کثرت کی چاہ میں انسان ٹھوکر کھاتا ہے اور پھر دنیا کے نعمتوں کے حصول کی کوشش میں وہ ثمنًا قَلِیلًا پر اکتفا کرتا ہے اور فَوۡزًا عَظِیۡمًا کو چھوڑ دیتا ہے۔
وہ ہدایت کا متلاشی نہیں ہوتا ، رزق کی طلب میں سرگرداں رہتا ہے۔ اور یوں وہ بری تجارت کرتا ہے، خسارے کی تجارت۔
جبھی تو سورہ العصر نے گواہی دی ہے کہ اکثر لوگ خسارے میں ہیں۔

جواب دیں

Back to top button