جھوٹی خبروں کی پذیرائی

روشن لعل
حالیہ دنوں میں اگر کوئی ’’ جھوٹی خبروں‘‘ کے موضوع پر بات کرے تو دھیان فوری طور پر لاہور کے ایک نجی کالج سے منسوب کیے گئے زنا بالجبر کے مبینہ واقعہ کی طرف چلا جاتا ہے۔ یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ شہر لاہور کے ایک نجی کالج میں طالبہ سے زنا بالجبر کی جو کہانی گھڑی گئی اس کا سرے سے کوئی وجود نہیں تھا۔ جس کہانی کا سرے سے کوئی وجود نہیں ، اس جھوٹی کہانی کے سوشل میڈیا پر دہرائے جانے کا اس طرح اہتمام کیا گیا کہ تقریباً دو ہفتے تک یہ کہانی نہ صرف تمام تر پاکستان بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے اعصاب پر بھی سوار رہی۔ ایک کالج کی خیالی طالبہ کے ساتھ زنا بالجبر کی کی کہانی جھوٹی ثابت ہونے کے ساتھ اب یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ اس من گھڑت کہانی کو ایک خاص جماعت سے وابستہ ان لوگوںنے خاص مقصد کے تحت، خاص وقت میں تراشا جو اکثر جلسے، جلوسوں اور دھرنوں کے ذریعے ملک میں انتشار پھیلانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ جو لوگ گزشتہ کچھ برسوں سے ملک میں انتشار پھیلانے کی کوششیں بار بار کر رہے ہیں ان کے متعلق کہنے اور لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن زیر نظر تحریر کا عنوان کیونکہ ’’ جھوٹی خبروں کی پذیرائی ‘‘ ہے اس لیے یہاں صرف یہی ذکر کیا جائے گا کہ تصدیق کے مواقع موجود ہونے کے باوجود جھوٹی خبریں لوگوں میں کیوں مقبول ہوتی ہیں اور انہیں کیسے سچی خبروں سے بھی زیادہ معتبر تصور کر لیا جاتا ہے۔ جھوٹی خبریں گھڑنے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس عمل کی جڑیں زمانہ قدیم سے چلی آرہی افواہ سازی کی روایت پیوست ہیں۔ جھوٹی خبروں اور افواہوں کو عام پر طور پر ایک ہی چیز سمجھا جاتا ہے لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان دونوں میں ایک باریک سا فرق بھی ہے۔ جھوٹی خبریں اکثر کسی فرد، گروہ یا سیاسی جماعت کی طرف سے عوام کو گمراہ کرنے کے لیی بنائی اور پھیلائی جاتی ہیں۔ جھوٹی خبریں گھڑنے اور پھیلانے والوں کا سراغ لگانا بڑی حد تک ممکن ہوتا ہے۔ افواہیں ایسی غیر مصدقہ باتوں کو کہا جاتا ہے جنہیں مشکوک سمجھنے کے باوجود اکثر لوگ کچھ کمی بیشی کے بعد آگے منتقل کرتے رہتے ہیں ، عام طور پر افواہوں کے ماخذ تک پہنچنا ممکن نہیں سمجھا جاتا۔
افواہ سازی کو زمانہ قدیم کی روایت کہا جاتا ہے لیکن جھوٹی خبریں گھڑنے اور پھیلانے جیسے افعال کی عمر بھی کچھ کم نہیں ہے ۔ خاص منصوبہ بندی کے تحت جھوٹی خبریں گھڑنے کی روایت پرانے زمانے کے جنگ کے میدانوں سے جڑی ہوئی ہے۔ گھوڑوں اور تلواروں سے لڑی جانے والی جنگوں کے دوران جھوٹی خبریں گھڑنے کا جو عمل شروع ہوا وہ جدید اور آتشیں اسلحہ کے استعمال سے کی جانے جنگوں کے دوران بھی جاری رہا۔ امریکی روزنامہ بوسٹن ہیرالڈ کی کالم نگار فرانسس سوینی نے اپنے ایک کالم میں کم و بیش ایک ہزار ایسی خبروں کا حوالہ دیا جو نہ صرف من گھڑت تھیں بلکہ انہیں جنگ عظیم دوم کے دوران جنگی مقاصد کے تحت خاص طور پر بنایا اور پھیلایا گیا تھا۔ جنگی مفادات کے حصول کے لیے جھوٹی خبروں کے کامیاب استعمال کے بعد کچھ قلم فروشوں نے سیاسی میدان کو بھی من گھڑت خبروں کا بازار بنا لیا۔ پہلے پہل تو سیاسی مخالفین کے ایک دوسرے پر لگائے گئے الزامات کو مرچ مصالحہ لگا کر اخبارات میں شائع کرنے کا آغاز ہوا لیکن پھر یہ دور بھی آیا کہ کسی کے ایما پر اخباروں میں شائع شدہ غیر مصدقہ خبروں کو سیاسی رہنما اپنے مخالفین کے خلاف سند کے طور پر استعمال کرنے لگے۔ پرنٹ میڈیا کے بعد جب الیکٹرانک میڈیا کا آغاز ہوا تو جھوٹی خبروں کو نیا پلیٹ فارم اور نئی مارکیٹ میسر آگئی۔ جھوٹی خبریں بنانے اور پھیلانے کی جو بنیاد پرنٹ میڈیا میں رکھی گئی تھی ، اس پر دیواریں الیکٹرانک میڈیا نے کھڑی کیں اور پھر سوشل میڈیا نے ان دیواروں کو ایسی ہیبت ناک عمارت میں تبدیل کر دیا کہ جس میں اب کسی کے لیے بھی پائیدار پناہ کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ سوشل میڈیا کی اسی ہیبت ناک عمارت سے ہی لاہور کی نجی کالج کی خیالی طالبہ کے زنا بالجبر کی جھوٹی خبر برآمد ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی پراپیگنڈا مشینری نے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے پیسے کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلانے اور انہیں یقینی بنانے کے صرف طریقے ہی نہیں بلکہ اصول بھی وضع کیے۔ امریکہ سے باہر ان طریقوں اور اصولوں کو جن سیاستدانوں کو سیاسی فائدہ پہنچانے کے لیے سب سے زیادہ استعمال کیا گیا ان میں سے ایک بھارت کے نریندر مودی اور دوسرے پاکستان کے عمران خان ہیں۔ پاکستان میں یہ بات تو درست مانی جاسکتی ہے کہ اخلاقی اقدار کو ہر حد تک پامال کرتے ہوئے جس طرح سوشل میڈیا کو عمران خان کے حامیوں نے استعمال کیا اس کی کوئی دوسری مثال یہاں موجود نہیں ہے لیکن یہ موقف ہرگز سچ تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ میڈیا کو اخلاقی اقدار پامال کرنے کا ذریعہ بنانے کی بنیاد عمران خان یا ان کے حامیوں نے رکھی تھی۔ سوشل میڈیا کی جس عمارت سے عمران خان کی حمایت میں جھوٹی خبروں کو سچ بناکر برآمد کیا جاتا ہے اس کی بنیاد کسی اور نے نہیں بلکہ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں نے اپنے ہاتھوں سے رکھی تھی۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جھوٹ کو سچ بنانے کی جس میڈیا منڈی کی بنیاد میاں نواز شریف نے رکھی اس پر تعمیر ہونے والی عمارت کو منہدم کرنا کیا ممکن ہو سکتا ہے۔ کسی بھی عمارت کو منہدم کرنا اس وقت تک ممکن نہیں ہوتا جب تک کہ اسے ناجائز تسلیم نہ کیا جائے۔ واضح رہے کہ وطن عزیز میں اکثریتی آبادی کی عبادت گاہ چاہے کسی راہ گزر کے عین وسط میں ناجائز قبضہ کر کے ہی کیوں تعمیر نہ کی گئی، ناجائز تعمیرات میں شمار ہونے کے باوجود بھی اس کا انہدام ممکن نہیں سمجھا جاتا۔ جس طرح ناجائز جگہ پر تعمیر ناجائز عبادت گاہ کے انہدام کی راہ میں لوگوں کی مذہبی جذبات رکاوٹ بنتے ہیں اسی طرح اظہار کی آزادی کا حق، سوشل اور ہر قسم کے میڈیا کی جھوٹ برآمد کرنے والی عمارتوں میں منظور شدہ نقشہ سے زیادہ بنائی گئی منزلوں کو گرانے کے آڑے آتا ہے۔ آزادی اظہار کے حق کو اس وجہ سے بنیاد ی انسانی حقوق میں شمار کیا گیا کیونکہ جبر کے ادوار میں جب بالادست طبقات نے سچ کے اظہار اور ابلاغ پر پابندیاں عائد کر کے اپنے جھوٹ کو فروغ دیا تو پھر مختلف تحریکوں کی نتیجے میں اظہار رائے کو ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد کرانے کے لیے، انسانوں کا بنیادی حق تسلیم کروایا گیا۔ افسوس کے آزادی اظہار کے جس حق کو سچ کے فروغ اور جھوٹ کی بیخ کنی کے لیے بنیادی انسانی حقوق کا حصہ بنایا گیا تھا آج وہی حق جھوٹ کو معتبر بنانے اور پذیرائی بخشنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
جھوٹ اور سچ کی جنگ میں جو حقوق، سچ کی برتری تسلیم کرانے کے لئے حاصل کیے گئے تھے آج ان حقوق کو جھوٹ کی پذیرائی کے لیے استعمال کرنے والے یہ بات یاد رکھیں کہ سچ ہمیشہ قابل اعتبار رہتا ہے لیکن ہزار کوششوں کے باوجود جھوٹ کو صرف محدود عرصہ کے لیے معتبر بنایا جاسکتا ہے۔





