آئینی ترمیم کے بعد سود کا خاتمہ ناگزیر

خان فہد خان
قومی اسمبلی اور سینیٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کا بل آخرکار حکومت دو تہائی اکثریت سے منظور کرانے میں کامیاب ہوگئی۔26ویں آئینی ترمیم کی منظوری حکومت کیلئے درد سر بنی ہوئی تھی۔26ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے لے کر منظوری تک تقریباً تین ماہ کے عرصہ میں سیاستدانوں کی ملاقاتیں، تجاویز، اختلافات، پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل، مسودے، روٹھنا منانا یہ سب کچھ چلتا رہا۔ آئینی ترمیم کے لیے ہونے والی بیٹھکوں میں پارلیمان کی سب ہی جماعتیں پیش پیش دکھائی دیں لیکن مولانا فضل الرحمان اور بلاول بھٹو کی ملاقاتیں سب سے نمایاں رہیں۔ آئینی ترمیمی بل جو منظور ہوچکا ہے اس بل میں ترمیم ہوئی اکثر شق بنیادی طور پر عدالتی اصلاحات سے متعلق ہیں لیکن ایک ترمیم ربا ( سود) کے خاتمے سے متعلق ہے۔ چیف جسٹس کی تعیناتی اور عدالتی اصلاحات کے واویلا میں اس ترمیم کو کوئی خاص پذیرائی نہ مل سکی ۔26ویں آئینی ترمیم بل کے مسودہ میں ربا کے خاتمہ کی شق شامل کرانے پر جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو سراہا جارہا ہے۔ دینی اور بعض سماجی حلقوں میں اس ضمن میں مولانا فضل الرحمان کو زبردست خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے۔ آرٹیکل 38میں ترمیم کے تحت جس حد تک ممکن ہوسکے یکم جنوری 2028تک سود کا خاتمہ کیا جائے گا۔ تاہم جہاں اس ترمیم کی منظوری کو سراہا جارہا ہے وہاں یہ سوال بھی اُٹھتاہے کہ سود کے خاتمے کے لیے جنوری 2028کی ڈیڈ لائن کیوں رکھی گئی۔۔۔؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی معیشت جنوری2028سے پہلے سود سے پاک کیوں نہیں ہوسکتی۔۔۔؟ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے تو جب ملکی معیشت چل ہی بیرونی قرضوں پر ہو، آپ کا ملک بلین ڈالرز کا مقروض بھی ہو اور تمام تر لین دین سود پر ہوتو اس صورت حال میں راتوں رات ملک میں مکمل طور پرسود ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ بین الاقوامی معاہدوں کی بھی ایک قانونی حیثیت ہے اور جن کو ایک دم توڑنے سے ہم مصائب سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ دوسرا یہ ہے کہ کچھ سال پہلے ہی پاکستان کے حوالے سے فیصلہ ہو چکا تھا کہ روایتی بینکاری کے نظام کو اسلامی بینکنگ کے نظام میں مکمل طور پر شفٹ کر دینا ہے، چونکہ 20فیصد پہلے سے ہی صارف اسلامی بینکاری میں منتقل ہو چکے ہیں تو باقی رہ جانے والی بینکاری کو بھی اسلامی بینکاری میں منتقل کر کے سود کے خاتمے کا اعلان کر دیا جائے گا لیکن یہاں مسئلہ بین المسالک اختلافات کا ہے۔ جہاں علمائے دیو بند مفتی تقی عثمانی پر اتفاق کرتے ہیں اور ان کے مقابل دیگر مکاتب یہ کہتے ہیں کہ اسلامی بینکاری بھی سودی بینکاری ہے۔ اب یہاں اس بابت اتفاق رائے نا گزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کے لحاظ سے ترمیمی شق میں ’’ ممکن العمل‘‘ کی اصطلاح شامل کی گئی ہے تا کہ عمل کرنے یا نہ کر سکنے ہیں راستہ بنانا مشکل نہ ہو، چنانچہ اس ضمن میں اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے تمام مکاتب کے علماء اکرام اس ایشو پر بات چیت کریں۔ حکومتی سطح پر سیمینارز اور کانفرنسز منعقد کرائی جائیں جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء شامل ہوں تاکہ تمام تر ابہام دور ہو جائیں اور لوگوں میں بھی اس متعلق علم بڑھے۔ کیونکہ لاکھوں یا شاید سے زائد لوگ سود اور اس کی حساسیت کا شعور ہی نہیں رکھتے۔ سود پر مبنی بینکاری کو چونکہ اسلامی بینکاری کے اصولوں سے تبدیل کیا جاتا ہے، جس میں منافع بخش شراکت داری، لیزنگ ( اجارہ) اور شراکت داری ( مضاربہ) کے ماڈل پر توجہ مرکوز ہوگی چنانچہ اس کے لیے بینکوں اور مالی اداروں کو اسلامی مالیاتی مصنوعات میں مہارت تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے وقت اور وسائل درکار ہوں گے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے 1973ء میں بنائے گئے متفقہ آئین میں سود کو جلد از جلد کام کرنے کی شق شامل ہے، البتہ ملک میں بینکاری 1962کے بینکنگ کمپنی آرڈیننس کے تحت کی جاتی ہے جس کی بنیاد سود پر ہے۔ ماضی میں مختلف ادوار میں معیشت کو سود سے پاک کرنے کے دعوے تو کئے جاتے رہے لیکن عملی طور پر کوئی خاص پیشرفت نہیں ہو سکی ۔ 28اپریل 2022کو وفاقی شرعی عدالت نے ملک میں رائج سودی نظام کے خلاف درخواستوں پر 19سال بعد فیصلہ سناتے ہوئے اسے غیر شرعی قرار دیا تھا اور حکومت کو ہدایت کی تھی کہ تمام قرض سود سے پاک نظام کے تحت لیے جائیں اور دسمبر 2027تک معاشی نظام کو سود سے پاک کیا جائے جس کے بعد سابق پی ڈی ایم دور حکومت میں اس وقت کے وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگلے پانچ سال میں معیشت کو سود سے پاک کر دیا جائے گا۔ بلا شبہ پاکستان نے جہاں ایک طرف اسلامی بینکاری اور شریعہ مطابقت پذیر مالیات کو فروغ دینے میں نمایاں پیشرفت کی ہے وہیں دوسری جانب ربا سے پاک معیشت کی جدو جہد جاری ہے۔ اب ہمیں امید کی جانی چاہئے کہ موجودہ حکومت دی گئی ڈیڈ لائن کے اندر معیشت کو سود سے مکمل طور پر پاک کرنے میں کامیاب ہوگی لیکن اس ہدف کا حصول ممکن بنانے میں علماء کرام اور حکومتی معاشی ماہرین کا کردار بہت اہم ہوگا۔ پاکستان نے اگر سودی نظام سے چھٹکارا پایا تو یہ نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی ذمہ داری ادا کرنے کے مترادف ہوگا کیونکہ اس سودی مالی نظام سے عالمی معیشت بھی مسائل سے دوچار ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد بنایا گیا یہ مالی نظام عالمی سطح پر بھی معاشی گرواٹ کا باعث بن رہا ہے تو دنیا اس نظام کو بدلنے کیلئے سوچ بچار کر رہی ہے ۔ اس مالی نظام پر اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ انسانیت کی بقاء کیلئے خطرہ ہے اور مزید آگے بڑھنے کیلئے اس میںبدلائوہونا چاہیے۔ اگر پاکستان اس نظام کو بدلنے والا پہلا ملک بن گیا تو بین الاقوامی سطح پر خوب پذیرائی ملے گی۔







