عزت نفس

علیشبابگٹی
ایک سوداگر بازار میں ایک خوبصورت اونٹ خریدنا چاہتا تھا اور اسے دیکھ کر بیچنے والے سے اس کے لیے سودے بازی کرنے لگا۔ سوداگر اور اونٹ بیچنے والے کے درمیان طویل سودا ہوا اور آخرکار سوداگر نے اونٹ خریدا اور گھر لے گیا۔ گھر پہنچ کر سوداگر نے اپنے نوکر کو اونٹ کا کجاوا نکالنے کے لیے بلایا۔ کجاوا کے نیچے، نوکر کو ایک چھوٹا سا مخملی بیگ ملا جسے کھولنے پر قیمتی جواہرات اور ہیروں سے بھرا بیگ ظاہر ہوا۔ نوکر چلا کر بولا، ’’ مالک، آپ نے اونٹ خریدا، لیکن دیکھو مفت میں کیا آیا‘‘۔ سوداگر بھی حیران ہوا۔ اس نے اپنے نوکر کے ہاتھوں میں ہیرے دیکھے جو سورج کی روشنی میں اور بھی زیادہ چمک رہے تھے۔ سوداگر نے کہا، میں نے ہیرے نہیں بلکہ اونٹ خریدا ہے۔ مجھے انہیں فوراً واپس کر دینا چاہیے۔ نوکر ذہن میں سوچ رہا تھا کہ میرا مالک کتنا بیوقوف ہے۔ اس نے کہا ’’ کوئی نہیں جانتا کہ مالک کون ہے‘‘۔ تاہم تاجر نے اس کی ایک نہ سنی اور فوراً بازار پہنچا اور دکاندار کو مخمل کا تھیلا واپس کر دیا۔ اونٹ بیچنے والا بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ میں بھول گیا تھا کہ میں نے اپنے قیمتی پتھر کجاوا کے نیچے چھپا رکھے تھے۔ اب آپ کسی ایک ہیرے کو بطور انعام منتخب کریں۔ سوداگر نے کہا کہ میں نے اونٹ کی صحیح قیمت ادا کر دی ہے، اس لیے مجھے کسی تحفے اور انعام کی ضرورت نہیں ہے۔ سوداگر نے جتنا انکار کیا، اونٹ بیچنے والے نے اتنا ہی اصرار کیا۔ آخرکار، سوداگر مسکرایا اور کہا، دراصل جب میں نے تھیلی واپس لانے کا فیصلہ کیا، تو میں نے پہلے ہی اپنے ساتھ دو قیمتی ہیرے رکھ لیے تھے۔ اس اعتراف کے بعد اونٹ بیچنے والے کو غصہ آیا اور اس نے جلدی سے تھیلا خالی کیا اور اپنے ہیرے جواہرات گننے لگا، لیکن اس نے سکون کی آہ بھر کر گننے کے بعد کہا ’’ یہ میرے ہیرے تو پورے ہیں، تو وہ دو قیمتی ہیرے کون سے تھے جو تم نے اپنے پاس رکھے تھے؟‘‘، تاجر نے کہا، ’’ میری ایمانداری اور میری عزت نفس‘‘۔ پھر کیا تھا۔۔ بیچنے والا جیسے گونگا تھا۔۔۔۔
ہمیں اپنے اندر جھانک کر یہ معلوم کرنا ہوگا کہ کیا ہمارے پاس ان دونوں ہیروں میں سے کوئی ایک ہے؟۔
شاعر کہتا ہے کہ۔۔
عزت نفس سے ہر حرف کو اونچا رکھو
اپنی آواز نہیں، ظرف کو اونچا رکھو
ایک مسلمان فطری طور پر صاحبِ حمیت اور غیرت مند ہوتا ہے، وہ کبھی ذلت و پستی کو گوارا نہیں کرتا۔ وہ کسی سرکش کے سامنے سر نہیں جھکاتا، وہ کسی زبان دراز سے خوفزدہ نہیں ہوتا، وہ کسی بھی جابر کے سامنے کمزور نہیں پڑتا، وہ کسی کی خوشامد نہیں کرتا۔
عزت نفس جس سے، زخمی ہو
دھوپ بہتر ہے، ایسی چھائوں سے
ایک عرب شاعر نے کہا تھا، ’’ جو اپنی عزت و تکریم آپ نہیں کرتا اس کی عزت و تکریم نہیں ہوتی‘‘۔
عزت نفس اور توقیر ذات بہت قیمتی چیز ہوتی ہے اور یہ زندگی کا لازمی حصہ بھی ہے۔ لیکن جب تک ایک انسان اپنی عزت اور توقیر کا خود خیال نہیں رکھتا، تب تک دوسروں کی نظروں میں بھی وہ عزت و توقیر کے قابل نہیں ہوتا۔
اگر شیطان کی بجائے لوگ اپنا اپنا نفس مار لیں تو یقین کریں شیطان کو مارنے کی نوبت کبھی نہ آئے۔
شاعر نے کہا کہ
اول اول تو ضروری ہے محبت لیکن
عزت نفس کا نقصان بہت ہوتا ہے





