جنگ ٹل سکے گی!!!

محمد مبشر انوار
دنیا بھر کی نظریں اس وقت مشرق وسطی پر لگی ہیں اور امن کے خواہشمند دلی طورپر چاہتے ہیں کہ کسی طرح مشرق وسطیٰ میں سلگتی چنگاریاں بجھ جائیں اور کرہ ارض ایک نئی جنگ اور اس کی تباہ کاریوں سے بچ سکے۔ گاشتہ سال اکتوبر سے شروع ہونے والی غزہ کے مسلمانوںکی نسل کشی مسلسل جاری ہے جبکہ اس دوران عالمی طاقت کے دہرے معیار کا ساری دنیا مظاہرہ کر چکی ہے کہ کس طرح اس نسل کشی کے ابتدائی دنوں میں امریکہ نے اسرائیلی جارحیت کی ہر ممکن مدد کی ۔جنگ بندی کی تمام کوششوں کو اولا ویٹو کرتا رہا جبکہ بعد ازاں نیم دلی سے جنگ بندی کے لئے بروئے کار آتا رہا جس کے پس منظر میں یہ حقیقت ساری دنیا پر عیاں تھی کہ امریکہ درحقیقت زیادہ سے زیادہ وقت حاصل کرنا چاہتا ہے تا کہ اس کی آڑ میں صیہونی اپنے مقاصد حاصل کر لیں اور جنگ بندی غزہ کے ملبے اور مسلمانوں کی لاشوں پر کی جائے۔ ایسی جنگ بندی کہ جس میں جارحیت کے خلاف مزاحمت کرنے والا کوئی بھی باقی نہ بچے اور امریکی کاوشوں کو بھی تسلیم کر لیا جاتا،امریکہ کی واہ واہ بھی ہو جاتی جبکہ دوسری طرف اسرائیل کے لئے غزہ بغیر مسلمانوں کے ایک قطعہ اراضی بھی میسر ہو جاتالیکن یہ منصوبہ براہ راست وقت کی قید سے مشروط تھا۔ اسرائیل کا بھی یہی خیال تھا کہ غزہ میں نہتے ،بے بس اور مجبور فلسطینیوں کو بآسانی زیر کیا جا سکے گا لیکن قدرت کے فیصلے کچھ اور ہی نظر آتے ہیں کہ یہی نہتے،بے بس اور مجبور ،اپنا سب کچھ لٹا کر بھی ہنوز اسرائیل کے سامنے سینہ سپر ہیںاور کسی بھی صورت شکست قبول کرنے کے لئے تیار نظر نہیںآتے۔ اس ایک سال کے دوران ،ایسا کون سا ظلم وستم ہے جوبے بس و مجبور فلسطینیوں پر نہیں ڈھایا گیا،بچے ،بوڑھے،عورتیں اور مریضوں تک کو نہیں بخشا گیا،جنگی جرائم کا ارتکاب ڈنکے کی چوٹ پر کیا گیا اور اس پر فخر کا اظہار ،اس کے علاوہ ہے لیکن مجال ہے کہ طاقتوروں کے کان پر جوں تک بھی رینگی ہو؟انہیں اس سے کوئی غرض ہی نہیں رہی کہ عالمی برادری میں ساکھ کا کیا ہوگا؟وہ ڈھٹائی و بے شرمی کے ساتھ ایک ظالم ،جارح اور ناجائز ریاست کے پیچھے کھڑے ہیں بلکہ اس کے برعکس مسلسل اس کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں ،اسے اسلحہ کی فراہمی تو ایک معمولی بات ہے،اس کے خلاف کسی بھی دوسری مسلمان ریاست کے متحرک ہونے پر،اسرائیلی ناجائز ریاست کے شانہ بشانہ مقابلہ کرنے کے لئے تیار کھڑے ہیں۔
اس پس منظر میں ،ایک طرف حوثی ہیں،جو انتہائی محدود وسائل کے ساتھ ،اپنی ہر ممکن کوششوں میں مصروف عمل ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اسرائیلی ظلم و ستم کا جواب دے سکیں،بحیرہ احمر میں ان کی کارروائیوں نے یقینی طور پر اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کی ناک میں دم کررکھا ہے لیکن اس کی بھاری قیمت حوثی بھی چکا رہے ہیں،تو دوسری طرف لبنان کی جانب سے حزب اللہ اپنی کارروائیوں سے اسرائیلی ریاستی دہشت گردی کو کم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے،جس کے عوض حزب اللہ کو سید حسن نصراللہ کی شہادت کی صورت دینا پڑا ہے۔حماس یکے بعد دیگرے اپنے کئی ایک حریت پسندوں کے خون کا نذرانہ اس جنگ میں پیش کر چکی ہے ،بالخصوص اسماعیل ہنیہ کے بعد، یحییٰ سنوار کو بھی شہید کردیا گیا ہے اور اس وقت حماس کسی ایک مرکزی قیادت کی بجائے ایک کمیٹی کے زیر انتظام بروئے کار آ رہی ہے لیکن کسی بھی صورت شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی ہتھیار ڈالنے پر آمادہ دکھائی دیتی ہے۔ زیر زمین سرنگوں میں موجود حماس کے حریت پسند،عوام کا حوصلہ برقرار رکھنے کے لئے ،دوبارہ منظر عام پر آ رہے ہیں اور دوبارہ کھل کر اسرائیلی فوجیوں پر حملے کرتے دکھائی دے رہے ہیں،یوں اسرائیل کو بیک وقت اندورن و بیرونی حملوں میں اپنے فوجیوں سے ہاتھ دھونے پڑ رہے ہیں،یعنی اسرائیلی لعین فوج ،مجاہدین کے ہاتھوں جہنم واصل ہو رہی ہے۔اس جوابی کارروائی سے اسرائیل میں یہودیوں کی طرف سے بھی سخت ردعمل آ رہا ہے اور وہ اپنی حکومت کے خلاف مظاہرے بھی کر رہے ہیں لیکن نیتن یاہو کے دماغ میں جو سودا سمایا ہوا ہے،وہ اسے کسی کروٹ نہ چین لینے دیتا ہے اور نہ اپنی جارحیت سے پیچھے ہٹنے کے لئے مجبور کررہا ہے،بلکہ ایسے مظاہروں یا عالمی اداروں کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں کے ردعمل میں وہ اپنی جارحیت کو مزید تیز کرنے کے ساتھ پھیلا بھی دیتا ہے۔ عراق و افغانستان پر ،اقوام متحدہ کی قراردادیں منظور ہونے سے قبل ہی تمام تر اقدامات کرنے والی طاقتور امریکی ریاست ،انہی اداروں کی قراردادیں منظور ہونے کے باوجود،نہ تو مشرق وسطیٰ میں اب تک جنگ بندی کروا سکی ہے اور نہ ہی جنگی جرائم میں ملوث نیتن یاہوکے خلاف باضابطہ کوئی قانونی کارروائی عمل میں لا سکی ہے،جبکہ اس کے برعکس اسرائیل نے اقوام متحدہ کے صدر /سیکرٹری جنرل کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر اسرائیل میں داخلے سے روک دیا ہے۔اسے سینہ زوری کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے؟، اصولا ہونا تو یہ چاہئے کہ اسرائیل کی ایسی حرکتوں پر اس کے خلاف سخت ترین کارروائی ہونی چاہئے ،جو پوری دنیا کرنا بھی چاہتی ہے کہ اسرائیل کی وجہ سے امن عالم کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں،لیکن امریکہ دنیا اور اسرائیل کی راہ میں ایک دیوار کی طرح کھڑا ہے۔
دنیا اور اسرائیل کے درمیان یہ دیوار فی الوقت مسلم ریاستوں کے حوالے سے ہی نظر آ رہی ہے کہ کسی بھی مسلم ریاست کو فلسطینیوں کی حمایت کر اجازت نہیں اور انہیں میدان جنگ میں کودنے سے قبل اپنی صفوں کا بغور جائزہ لینا ہو گا کہ آیا وہ فلسطینیوں کی حمایت میں اتر کر ،انہیں بچا سکیں گے یا خود بھی شکست کھا جائیں گے؟ یا وہ اپنے فیصلے آزادی سے کر سکتے ہیں ،کیا وہ واقعتا فیصلے کرنے میں آزاد ہیں یا آزادی کی تعریف پر فلسطینی پورا اترتے ہیں؟ حقیقت تو یہی ہے کہ اس وقت مسلم ریاستوں میں آزاد ریاست فلسطین ہے جبکہ باقی تمام ریاستیں محکوم دکھائی دیتی ہیں۔بہرکیف تمام تر مسلم ریاستیں اس وقت گفتار کی غازی دکھائی دے رہی ہیں جبکہ ایران اور اس کی حمایت یافتہ عسکری تنظیمیںبراہ راست میدان جنگ میں برسرپیکار دکھائی دے رہی ہیں۔ اسرائیل کی ہر ممکن کوشش ہے کہ وہ اس جنگ کو اسرائیلی سرحدوں سے باہر لے جائے تا کہ امریکہ براہ راست اس جنگ کا حصہ بنے،حوثیوں اور حزب اللہ کی کارروائیوں کے باعث ،اسرائیل ہر طرح سے ایران کو انگیخت کر رہا ہے کہ وہ براہ راست جنگ میں کود جائے،اس ضمن میں جو کارروائیاںہو چکی ہیں ،اس کے بعد یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اسرائیل کسی بھی وقت براہ راست ایران پر حملہ کرے گا۔البتہ عالمی برادری بجائے اسرائیل کو روکے،اپنی ناکامی کا اعتراف اسرائیل کو مخصوص اہداف کو چھوڑ کر ،ردعمل دینے کے لئے کہہ رہے ہیں،کہ عالمی برادری کو یقین نہیں کہ اگر ان مخصوص اہداف کو اسرائیل نشانہ بناتا ہے تو اس کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟دوسری طرف ،اسرائیل کی اس جارحیت کے بعد ،ایک کھلی جنگ کی صورت میں، امریکہ جو ایران کو پسند بھی نہیں کرتا،براہ راست میدان میں اترتا ہے تو باقی دنیا کیا کرے گی؟صورتحال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے،روس وہ واحد ریاست ہے،جس نے ایران کے خلاف کسی بھی جارحیت کی صورت میں ایران کے ساتھ کھڑے ہونے کا واضح اعلان کر دیا ہے ،یوں اگر دیکھا جائے تو امریکہ اور روس براہ راست میدان جنگ میں اترتے دکھائی دیتے ہیں۔بہرکیف روس کے اس واضح اعلان کے بعد کیا امریکہ ،اسرائیل کو ایران پر جارحیت سے روک سکے گا؟کیا اس وقت بھی جنگ بندی ممکن ہو سکے گی؟گو کہ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ فارن افیئرز ،مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہیں لیکن بد قسمتی سے ماضی میں ان کے تمام دورے ناکام ثابت ہوئے ہیں اور وہ اسرائیل کو قائل کرنے میں ناکام رہے ہیں، بظاہر اس وقت بھی ان کا دورہ ناکام ہی دکھائی دے رہا ہے۔مشرق وسطیٰ میں بگڑتی صورتحال ،ہر گزرتے دن امن عالم کے لئے خطرہ بن رہی ہے اور یہاں سلگنے والی چنگاری کا آگ کے شعلوں میں تبدیل ہونا پوری دنیا کو خاکستر کر سکتا ہے،کیا روس کا،ایران کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے موجودہ اعلان سے جنگ ٹل سکے گی!!!





