Column

گریٹ کم بیک

شہر خواب ۔۔۔۔۔۔
صفدر علی حیدری
انگلینڈ سے پہلا ٹیسٹ ہم نے اس برے طریقے سے ہارا، دل ٹوٹے ٹوٹے ہو گیا۔ ہم نے ریکارڈ بکس میں بدترین ریکارڈ درج کرائے۔ اس وقت اکثر پاکستانیوں نے سوچ لیا تھا کہ اب اور سفیدی ( وائٹ واش ) ہمارے در پر دستک دینے والی ہے ۔ بنگلہ دیش سے ہار ابھی ہضم نہ ہو پائی تھی کہ ہم پہلا میچ برے طریقے سے ہار گئے، اس وقت دل چاہا کہ ہماری ٹیم ٹیسٹ کرکٹ سے دستبردار ہو جائے ۔ ایسے مار کھانے سے تو بہتر ہو گا کہ ہم ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کے لیے میدان میں ہی نہ اتریں۔ ایسے میں عاقب جاوید کا ایک بیان سامنے آیا جس میں ایک بڑا دعویٰ ایک بڑا بیان سامنے آیا تین سپنر کھلائو ، پچ سے گھاس اڑا دو، گیند سپن بھی کرے گی اور ریورس بھی ہو گی۔ میں دیکھتا ہوں کون تم سے جیتتا۔
اس میں کیا سائنس ہے ؟، یہ سب کو پتہ ہے ، پتہ تھا تو مسئلہ کیا تھا ؟ مسئلہ ہمت کا تھا، مسئلہ ڈر کا تھا، ہار کا ڈرعاقب نے یا کسی اور نے ہمت دکھائی، استعمال شدہ پچ کو ایک بار پھر استعمال کرنے کا پروگرام بنایا، تین سپنرز کھلائے اور میچ جیت گئے
یہاں فرق نظر آیا ، کیسے؟ باہر بیٹھ کر باتیں کرتے ہم نے تمام سپر سٹارز کو دیکھا اور کئی سال سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں پر وہی سپر سٹار جب بورڈ چیئرمین، چیف سلیکٹر، ہیڈ کوچ یا کچھ اور بنتے ہیں تو سارے بھاشن بھول جاتے ہیں اور وہی ڈری ہوئی اپروچ جاری رہتی ہے
کامران غلام نے پہلے ٹیسٹ میں سنچری سکور کی اور ہمارے دو شیروں ساجد خان اور نعمان علی نے وہ کر دکھایا جس کی توقع خواب میں بھی نہیں تھی ۔ ان دو شیروں نے بیدی اور پرسنا کی یاد تازہ کر دی اور 52سال بعد ایسا ہوا کہ صرف دو گیند بازوں نے بیس کی بیس وکٹیں حاصل کی ہوں ۔ اس سے پہلے ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں کسی ایک ٹیسٹ میچ میں تمام 20وکٹیں لینے والے 7بائولر درج ذیل ہیں
ہیو ٹرمبل 7، مونٹی نوبل 13( آسٹریلیا) 1902ئ، جارج ہرسٹ 9، کالن بلیتھ 11( انگلینڈ) 1909ء برٹ ووگلر 12، اوبرے فولکنر 8( جنوبی افریقہ) 1910ئ، جم لیکر 19، ٹونی لاک 1( انگلینڈ) 1956ء ، فضل محمود 13، خان محمد 7( پاکستان) 1956ء ، باب میسی 16، ڈینس للی 4( آسٹریلیا) 1972ء اور 52سال بعد اب نعمان علی 11، ساجد خان 9( پاکستان) 2024ئ، گویا یہ دوسرا موقع تھا کہ ہمارے دو بائولرز نے مخالف کی بیس وکٹیں اڑا دیں ۔ یہ کارنامہ وقار اور وسیم جیسے مایہ ناز بائولرز بھی سر انجام نہ دے سکے ۔
ہمارے کپتان نے پہلا میچ ہارنے کے بعد کہا تھا کاش ہم مخالف ٹیم کو دو بار آئوٹ کر سکتے ۔ ہمارے نامور بائولر تو ایسا نہ کر سکے ، ہمارے ’’ بے نام ‘‘ شیروں نے تن تنہا یہ کارنامہ سر انجام دے ڈالا۔ اور نہ صرف دو بار آئوٹ کیا بلکہ میچ بھی جتوا دیا۔ اور یوں قومی ٹیم نے تقریباً چار سال بعد ہوم گرائونڈ پر کوئی ٹیسٹ میچ جیتا ۔ شان مسعود جو بری ترین کپتان کا ریکارڈ قائم کر چکے تھے، بلآخر خوش ہوئے۔ اور اطمینان بھری سانس لی۔ اب تیسرا اور فیصلہ کن ٹیسٹ پنڈی میں ہونا تھا جس نے سیریز کا فیصلہ ہونا تھا۔ عاقب جاوید اپنے اسی فارمولے پر مصر تھے جس پر وہ ملتان میں ٹیم کو کامیابی دلوا چکے تھے۔ وہ پرجوش اور پر امید تھے کہ کامیابی ایک بار پھر قومی ٹیم کا مقدر بنے گی۔ پاکستان نے راولپنڈی میں کھیلے گئے تیسرے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ کو نو وکٹوں سے ہرا دیا۔ ساجد خان اور نعمان علی کی 19وکٹیں اڑائیں۔ پاکستان نے ہفتے کو راولپنڈی میں تیسرے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ کو نو وکٹوں سے شکست دے کر سیریز دو ۔ ایک سے جیت لی۔ پاکستان نے تین سال سے زائد عرصے میں یہ پہلی ٹیسٹ سیریز جیتی ہے ، جس میں سپنرز نعمان علی اور ساجد خان کا نمایاں کردار ہے۔ انگلینڈ نے ٹاس جیت کر پہلی اننگز میں 267رنز بنائے تھے جس کے جواب میں پاکستان نے 344رنز بنا کر لیڈ لی۔ پہلی اننگز میں جیمی سمتھ 89اور بین ڈکٹ 52رنز کے ساتھ ٹاپ سکورر رہے تھیجبکہ پاکستان سے کئی اننگز میں مشکلات کا شکار رہنے والے سعود شکیل نے 134، ساجد خان نے 48اور نعمان علی نے 45رنز بنائے۔ پاکستان کی جانب سے پہلی اننگز میں ساجد نے چھ اور نعمان نے تین وکٹیں لیں۔ دوسری اننگز میں نعمان نے چھ اور ساجد نے چار وکٹیں لیں۔ انگلینڈ کی ٹیم دوسری اننگز میں پاکستان کی 77رنز کی برتری ختم کرتے ہوئے صرف 112رنز بنا پائی۔ پاکستان نے 36رنز کا جیت کا ہدف ایک وکٹ کے نقصان پر پورا کر لیا۔ تیسرے ٹیسٹ میچ میں یوں تو کئی کھلاڑیوں نے اپنی کارکردگی سے شائقین کی تعریفیں سمیٹیں لیکن ساجد خان کی بات ہی الگ دکھائی دیتی ہے ۔ اس سے قبل ملتان میں کھیلے جانے والے میچ میں بھی انہوں نے نو وکٹیں لے کر میچ کو پاکستان کی جھولی میں ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔نعمان اپنی 11وکٹوں کے ساتھ پاکستانی جیت کے دوسرے ستون ثابت ہوئے تھے۔ ساجد خان کی یہ کارکردگی راولپنڈی ٹیسٹ میں بھی جاری رہی جہاں وہ نہ صرف اپنی بولنگ بلکہ بلے بازی سے بھی ٹیم کو سہارا دئیے ہوئے ہیں۔ پاکستانی اننگز کے دوران ان کی سعود شکیل کے ساتھ شراکت داری نے میچ میں پاکستان کو برتری دلائی ۔ ان کی اس اننگز میں جہاں انہوں نے بھرپور محنت سے 48رنز بنائے وہیں بیٹنگ کے دوران شاٹ کھیلتے ہوئے ان کو چوٹ لگنے کے بعد ان کی ثابت قدمی بھی ان کی تعریف کا باعث بن رہی ہے۔ سعود شکیل کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ گزشتہ میچ کی طرح اس میچ میں بھی انگلینڈ کی زیادہ وکٹیں ساجد خان اور نعمان علی نے حاصل کیں۔ اس میچ میں دونوں پاکستانی سپنرز نے 19وکٹیں لیں جبکہ ایک وکٹ زاہد محمود کے حصے میں آئی۔ ملتان میں کھیلے جانے والے دوسرے ٹیسٹ میں بھی دونوں نے 20وکٹیں لی تھیں ۔ گویا چار نئے کھلاڑیوں نے ملک کو یہ اعزاز دلوایا کہ ہم نے انگلینڈ جیسی مضبوط ٹیم کو پہلا ٹیسٹ میچ ہارنے کے باوجود نہ صرف چاروں شانے چت گرایا بلکہ سیریز بھی اپنے نام کر لیساجد خان اور نعمان علی کے ساتھ دو بلے بازوں کا نام لینا ضروری ہے۔ دو اور کھلاڑی بھی اس فتح میں اپنا حصہ ڈالا۔ کامران غلام اور سعود شکیل۔
گویا ہمارے چار کھلاڑیوں نے ایک تاریخ رقم کر ڈالی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ٹیم میں ایک بھی ورلڈ کلاس بائولر ہے نہ بلے باز مگر ہم نے پھر بھی ایک بڑے ٹیم کو پچھاڑ دیا ، میرا خیال ہے ہم نے پہلی بار ہوم گرائونڈ کا بھوپور طریقے سے اٹھایا اور اپنے سے بہتر ٹیم کو پوری طرح آئوٹ کلاس کیا، جو لوگ کہتے تھے ہمارے پاس ڈھنگ کا کوئی سپنر نہیں ہے ، ساجد خان اور نعمان علی نے انھیں بھرپور جواب دیا ہے۔ دو ٹیسٹ میچوں میں انتالیس وکٹیں لیں کر ان دونوں نے پوری دنیا کو حیران کر ڈالا ہے۔ کھیل مثبت سرگرمی کا نام ہے۔ ہم ڈر کر کبھی نہیں جیت سکتے۔ بڑے نام کی بجائے بڑے کام جو فوقیت حاصل ہے۔ جن بڑے ناموں کو باہر نکالا گیا ہے انھیں چاہیے کہ وہ ڈومیسٹک کرکٹ کھیل کر ٹیم میں دوبارہ جگہ بنانے کی کوشش کریں۔ ہماری بہت بڑی خامی ہے کہ ہم ڈومیسٹک کرکٹ میں کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو بروقت موقع نہیں دیتے۔ اس کمی کو دور کرنا ہو گا۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ نعمان علی اڑتیس سال ہے اور ساجد خان بتیس سال کا۔ ان کا اتنا بہت سا وقت ضائع کیا گیا ۔ ان جیسے نا جانے کتنے کھلاڑی مایوس ہو کر کرکٹ چھوڑ جاتے ہوں گے ۔ پاکستان کو شان دار کم بیک پر شاباش اور عاقب جاوید کو بہت بہت مبارکباد کہ اس کے جادوئی بیان اور دلیرانہ حکمت عملی نے پاکستان کو جیت کی راہ پر گامزن کیا۔
ویل ڈن عاقب جاوید

جواب دیں

Back to top button