Column

تعلیمی اداروں میں ڈیجیٹل دہشت گردی

تحریر: انور خان لودھی
رواں ماہ لاہور میں متعدد تعلیمی اداروں میں غیر مصدقہ خبر کے نتیجے میں طلبا و طالبات میں جو اشتعال پھیلا اور جلسے جلوس، مظاہرے اور توڑ پھوڑ ہوئی اس کے مضر اثرات بڑی دیر تک محسوس کئے جاتے رہیں گے۔ فیک نیوز کے سدباب کیلئے حکومت قوانین اور سزا کو سخت تر بنا رہی ہے تو اس کی ستائش کی جانی چاہئے۔ غیر مصدقہ خبر پھیلانا بھی دہشت گردی ہے جی ہاں ڈیجیٹل دہشت گردی۔ اسلحہ اور بم بارود سے دہشت گردی معاشرے کا ضرور نقصان کرتی ہے لیکن ڈیجیٹل دہشت گردی کا نقصان دیرپا اور مہلک ترین ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں ہاتھ میں سمارٹ فون پکڑے کوئی بھی شخص اس پر دستیاب سہولتوں کا درست یا غلط استعمال کر سکتا ہے۔ انٹرنیٹ کے توسط سے دنیا بھر سے جڑا ہر فرد کچھ بھی شئیر کر دے تو اس کی رسائی کل عالم تک ہے۔ ماہرین ابلاغیات اس رسائی کا بغور جائزہ لیتے رہتے ہیں ، اس معاملے پر وسیع تر تحقیق جاری ہے، نئی تھیوریز بنائی جا رہی ہیں۔ اظہار خیال کی آزادی کے طرف دار اور علم بردار جہاں رسائی کی شدت سے حمایت کرتے ہیں وہاں اس چھوٹ ہر تنقید کرنے والے بھی کم نہیں۔ متعدد ممالک سوشل میڈیا پر اپنے شہریوں کی پہنچ محدود کر چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی سوشل میڈیا تک رسائی کو ’ مناسب‘ کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور شتر بے مہار کو مہار ڈالنے کی سعی ہو رہی ہے۔ مملکتِ خداداد پاکستان کی مسلح افواج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے ڈی جی متعدد بار پھر ڈیجیٹل دہشتگردی کی اصطلاح استعمال کر چکے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری عسکری قیادت بھی ڈیجیٹل دہشت گردی کی بیخ کنی کیلئے پر عزم اور چوکس ہے۔ کیا دنیا کے دوسرے ممالک میں ’ ڈیجیٹل دہشت گردی‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے؟ ان سوالات کے جوابات جاننا اہم ہے۔ دنیا بھر میں سائبر ٹیررازم ( سائبر دہشت گردی) کی اصطلاح کا استعمال اکثر کیا جاتا ہے۔ ڈوروتھی ڈیننگ مشہور امریکی محقق ہیں اور سائبر سیکیورٹی کے امور پر مہارت رکھتی ہیں۔ ڈیننگ کے نزدیک سیاسی یا معاشرتی مقاصد کے حصول کے لیے کمپیوٹرز یا ان سے منسلک نیٹ ورک پر کسی حکومت کو نقصان پہنچانے کے لیے کیے گئے حملے سائبر ٹیررازم کہلاتے ہیں۔ پاکستان کو اپنے معروضی حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہئے۔ اداروں اور سیاسی جماعتوں کو مل کر اس مسئلے کا حل ڈھونڈنا ہے۔ سوشل میڈیا کے سیل رواں کے آگے بند باندھنا شاید ممکن نہ ہو، اسے درست راہ پر ضرور ڈالا جا سکتا ہے۔ شہریوں کو سوشل میڈیا کے استعمال کی اخلاقیات دینی ہوں گی۔ ان اصولوں کو سکولوں کالجوں میں نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہئے۔ سوشل میڈیا پر زیادہ تر نوجوان نسل مصروف کار نظر آتے ہیں۔ نوجوانوں کو یہ اعتماد دینا ہے کہ ادارے آپ کیلئے ہیں۔ اداروں کو بھی اعتماد دینا ہے کہ قوم حق کے ساتھ کھڑی ہے۔ سوشل میڈیا کا سب سے بڑا دھوکا اور سراب یہ ہے کہ اس کے یوزر کی شناخت اور لوکیشن غیر یقینی ہوتی ہے۔ اس دھندلکے سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے۔ ہمیں دشمن کو اور ڈیجیٹل دہشت گردوں کو پہچاننا ہے۔ ادارے ہیں تو ریاست ہے۔ ریاست ہے تو ہم ہیں۔ رہے نام اللہ کا۔ جہاں تک لاہور میں تعلیمی اداروں میں پیدا ہونے والی بے چینی کا معاملہ ہے اس میں پنجاب حکومت، لاہور ہائیکورٹ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بڑی مستعدی سے معاملے کی تہہ تک پہنچنے اور قصورواروں کو ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔ نجی کالج کی انتظامیہ، پنجاب کی صوبائی حکومت، پنجاب پولیس اور ایف آئی اے سمیت دیگر تحقیقاتی ادارے ایسے کسی بھی مبینہ واقعے کے رونما ہونے کی تردید کر چکے ہیں۔ سوشل میڈیا سے شروع ہونے والی اِس غیرمصدقہ مہم کا مقدمہ نجی کالج کیمپس کی پرنسپل کے مدعیت میں 16اکتوبر کو وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے) کے سائبر کرائم سرکل میں درج کروایا گیا تھا۔ سائبر کرائم سرکل میں درج کی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر اس جھوٹی مہم کی ابتدا 12اکتوبر کو ہوئی تھی۔ ایف آئی اے کی جانب سے درج کروائے گئے مقدمے میں بھی 13انسٹاگرام اکائونٹس کا ذکر ہے جہاں سے سب سے پہلے اس نوعیت کی غیرمصدقہ اطلاعات پوسٹ کی گئیں اور انھیں شیئر کیا گیا۔ اِن 13 اکائونٹس میں سے بیشتر اکائونٹ اب ڈی ایکٹویٹ ( غیرفعال) ہو چکے ہیں یا معطل کر دئیے گئے ہیں۔ ایسا ہی ایک اکائونٹ ’ ساکازم‘ ہے اور اس اکائونٹ کے ذریعے اب بھی طلبا کو احتجاج کی کالیں دی گئیں۔ لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی تعلیم نسواں کا معتبر ادارہ ہے۔ یہاں کی طالبات کو بھی سوشل میڈیا کے انفلوئنسرز نے بھٹکایا اور ان کو ایک ایسے ایشو پر احتجاج کرنے کیلئے قائل کیا جو بے بنیاد تھا اور مبنی بر حقیقت نہ تھا۔ لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر عظمیٰ قریشی نے طالبہ کی مبینہ ہراسمنٹ کی درخواست پر فوری ایکشن لیا، ہراسمنٹ کمیٹی کو بلا تاخیر انکوائری کا حکم دیا۔ یہ سب ایس او پیز کے تحت ہو رہا تھا مگر اس ادارے کی طالبات کو سوشل میڈیا پر ان عناصر نے گمراہ کیا جو شہر بھر میں طلبا احتجاج کے ماسٹر مائنڈ بنے ہوئے تھے اور اس پروپیگنڈا کے زیر اثر طالبات نے نے احتجاج کا رستہ اپنایا۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے تمام تحقیقاتی اداروں سے بھرپور تعاون کیا اور مشترکہ جوشش کی کہ شکائت کنندہ کو انصاف ملے اور اگر جوئی قصور وار ہے تو اسے سزا ملے۔ دریں اثنا نجی کالج کی انتظامیہ کی ایک رُکن نے بتایا کہ جب سب سے پہلے اس حوالے سے انسٹاگرام پر ایک نامعلوم اکائونٹ نے ڈس انفارمیشن پر مبنی پوسٹ لگائی تو انتظامیہ نے سوچا کہ اگر اس پر ایکشن لیا گیا تو یہ اس گمراہ کُن بات کے مزید پھیلائو کا ذریعہ بنے گا۔ انتظامیہ کے اُس رُکن کے مطابق اُن کا یہ ڈر حقیقت کا روپ اس وقت اختیار کر گیا جب یہ ابتدائی پوسٹس ایک منظم مہم کی شکل اختیار کر گئیں۔ پنجاب حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے صوبائی چیف سیکرٹری کی سربراہی میں سات رُکنی کمیٹی تشکیل دی۔ ایک نکتہ بڑا اہم ہے کہ ابتدائی طور پر طلبا کے واٹس ایپ گروپس میں جس لڑکی کو ریپ کا شکار بتایا جا رہا تھا، اُن کا خاندان وضاحت کر چکا ہے کہ اُن کی بیٹی کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا اور یہ کہ وہ دو اکتوبر سے گھر میں گِرنے کے سبب لگنے والی چوٹ کی وجہ سے ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔ پنجاب حکومت کی جانب سے قائم کی گئی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس تمام معاملے کے سبب نہ صرف ریپ کا شکار بتائی گئی طالبہ کی زندگی اور ساکھ خراب ہوئی بلکہ اس کے سبب اُن کی چار بہنیں اور والدہ بھی ذہنی تنائو کا شکار ہوئیں۔ رپورٹ کے مطابق جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ جس لڑکی کو متاثرہ قرار دیا جا رہا ہے اس کا اس مبینہ واقعہ سے کوئی لینا دینا نہیں، تو پھر نفرت انگیزی پھیلانے والوں نے دو مزید لڑکیوں کے نام لینا شروع کر دیے اور اُن کی زندگی اور ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا پر اس معاملے کو ایک سیاسی جماعت کی طرف جھکائو رکھنے والے یو ٹیوبرز نے بھی ہوا دی تھی۔ حقیقت جو بھی ہو نئی نسل کو انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کا فرق جان کر جینا ہوگا اسی میں ان کا اور معاشرے کا بھلا ہے۔
انت بھلا سو بھلا

جواب دیں

Back to top button