ڈیل پر ڈھیل کی بازگشت

محمد ناصر شریف
آئینی ترمیم کے بعد ملک میں ایک بار پھر ڈیل پر ڈھیل کی بازگشت ہے۔ یہ حسن اتفاق ہمارے ہی ملک میں ہوتا ہے کہ کوئی بڑا اور اہم کام جو مقتدر حلقوں کی منشا کے مطابق سرانجام پا جائے تو کچھ لوگوں کو ڈھیل ملنی شروع ہوجاتی ہے اور اس ڈھیل کی صورت میں انہیں وہ فوائد ملنا شروع ہوجاتے ہیں، جس سے متعلق سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ دوسری جانب فائدہ اٹھانے والے اسے ہمیشہ حق و سچ کی فتح قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر ایسا کرنا ہوتا تو پہلے ہی کرلیتے لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ان کے بس میں پہلے تھا نہ اب ہے۔ چیف جسٹس کی تقرری کے معاملے پر نظریہ ضرورت کے مطابق ان کی ضرورت محسوس کی گئی اور اس بہتی گنگا میں کتنے لوگوں نے ہاتھ دھوئے یہ آنے والا وقت سب پر آشکار کر دے گا۔ اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے والوں میں تحریک انصاف بھی نظر آ رہی ہی اور حالات اور واقعات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ پس پردہ کچھ لین دین ہوئی ضرور ہے۔ اب واقعات پر غور کرتے ہیں کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد بانی تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی پروٹوکول میں اڈیالہ جیل سے رہائی عمل میں آئی وہ پہلے بنی گالہ گئیں، پھر پشاور پہنچ گئیں۔ ادھر اسلام آباد انسداد دہشت گردی عدالت نے ڈی چوک پر احتجاج کے کیس میں بانی تحریک انصاف و سابق وزیراعظم عمران خان کی بہنوں علیمہ خان اور عظمیٰ خان کی ضمانت کی درخواستیں منظور کر لیں، زرتاج گل کی ضمانت میں بھی توسیع کردی گئی۔ سیشن کورٹ اسلام آباد نے بلیوایریا چائنا چوک میں پی ٹی آئی کے احتجاج کے مقدمے میں گرفتار پی ٹی آئی کے دو ایم پی ایز انور زیب اور ملک لیاقت سمیت 34پولیس ملازمین اور1122کے 42ملازمین کو ڈسچارج کردیا۔
بہت تیزی سے ہونے والی ڈھیل ملنے کی اس طرح کی ڈیولپمنٹ نے ڈیل کی بازگشت کو تقویت فراہم کی۔ ذرائع کے مطابق ڈھیل حاصل کرنے یہ طریقہ کار اختیارکیاگیا، جس کے تحت 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے دوران صرف علامتی انکار ہوگا۔ پی ٹی آئی اپنی مکمل تعداد کے ساتھ پارلیمنٹ میں نہیں ہوگی۔ نہ ہی منظوری کے عمل میں سپیکر یا چیئرمین کا گھیرائو کیا جائے گا۔ نہ ہی ووٹنگ کے عمل میں کسی بھی طرح سے رکاوٹ ڈالی جائے گی۔ آئینی ترمیم کے نتیجے میں بننے والی پارلیمانی کمیٹی تشکیل میں تحریک انصاف رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔ اپوزیشن لیڈر کی طرف سے کمیٹی کیلئے نام دینے سے انکار یا تاخیر کی رخنہ اندازی نہیں کی جائے گی۔ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد کوئی احتجاجی تحریک نہیں چلے گی۔ پی ٹی آئی کے وکلا سپریم کورٹ یا دیگر عدالتوں میں کسی قسم کی ہنگامہ آرائی نہیں کریں گے۔ موجودہ یا آنے والے چیف جسٹس کے کورٹ روم میں کوئی بدمزگی نہیں کی جائے گی۔ پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے آئینی ترمیم بلا رکاوٹ منظور ہوئی، بیرسٹر گوہر، حامد رضا اور سینیٹر علی ظفر کے نام دیکر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کو قانونی سند دی گئی۔ وہ اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے اور حکومتی اتحاد بآسانی اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔
سینیٹر فیصل واوڈا ڈیل کی اطلاعات کی تصدیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر بشریٰ بی بی کی رہائی ڈیل کے تحت نہیں ہوئی تو بنی گالہ میں ہفتوں سے رنگ و روغن کیسے ہورہا ہے؟ وہاں درخت لگ گئے صاف صفائی ہوگئی۔ عمران خان رہا نہیں ہو رہے، انہیں مزید آگ میں دھکیل دیا گیا ہے، کسے پتا کہ ان کیخلاف کون سے کیسز اندر پڑے ہیں۔جمعیت علمائے اسلام ( ف) کے جنرل سیکرٹری مولانا عبدالغفور حیدری کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم میں پی ٹی آئی مکمل طور پر ہمارے ساتھ تھی ’’ پورا مسودہ پی ٹی آئی کو فراہم کیا تھا’’ پی ٹی آئی کی قیادت کے جیلوں میں ہونے کی وجہ سے ہم نے خود انہیں ترمیم کے حق میں ووٹ دینے سے روکا تھا ’’ بشریٰ بی بی کے بعد‘‘ عمران خان بھی آج نہیں تو کل رہا ہوجائیں گے۔
پی ٹی آئی کے رہنمائوں کا موقف ہے کہ بشریٰ بی بی کی رہائی میرٹ پر ہوئی، اگر کوئی ڈیل ہوتی تو وہ 9ماہ جیل میں نہ رہتیں، بشریٰ بی بی کسی تحریک میں
شریک نہیں ہوں گی، بہت جلد عمران خان بھی عوام کے درمیان ہوں گے 26ویں ترمیم کو ہم نے قبول نہیں کیا تھا، اطلاعات تو یہ ہیں کہ یہ رہائی ٹیسٹ کے طور پر ہے۔ تحریک انصاف اپنے رویے میں تبدیلی لاتی ہے اگر ایسا ہوا تو چند ہفتے میں بنی گالہ کو سب جیل قرار دیدیا جائے گا جہاں پہلے ہی رنگ وروغن ہوچکا، صفائی بھی ہوگئی۔ اب عمران خان کو منتقل کرنا رہ گیا ہے، جو تحریک انصاف کے آئندہ رویے حرکات و سکنات پر منحصر ہوگا۔ ایک اور ذریعے کا کہنا ہے کہ بشریٰ بی بی یقیناً کسی نا کسی سمجھوتے کے تحت باہر آئی ہیں۔ جس کی تفصیلات جلد منظر عام پر آ جائیں گی۔ مقتدر حلقے بھی دیکھ رہے تھے کے اس وقت پی ٹی آئی بالکل مایوسی، انتشار اور تقسیم کا شکار ہے اور اگر کوئی پارٹی کا اپنا لیڈر سامنے نہیں آتا تو یہ بغیر کسی لیڈر کی پارٹی ملک کا بھی نقصان کروا دے گی، اس لئے بشریٰ باہر آ گئی ہے تاکہ پارٹی کی قیادت کو پیرا ٹروپر اور مفاد پرستوں کے چنگل سے آزاد کرایا جائے، جس میں علیمہ خان وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اس کی بھی سمجھ جلد آ جائے گی لیکن اسکا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کے یہ سہولت عمران نیازی کو بھی حاصل ہوگی۔ عمران نیازی جیل میں ہی رہیں گے اور اپنے مقدمات کا سامنا کریں گے۔ادھر پی ٹی آئی کے وکلا رہنمائوں میں عہدوں کی جنگ عروج پر پہنچ گئی۔ پی ٹی آئی ذرائع کا کہنا ہے کہ سلمان اکرم راجہ نے فیصل چودھری کو تحریک انصاف کی لیگل ٹیم سے فارغ کر دیا۔ فیصل چودھری کو پی ٹی آئی کے مختلف واٹس ایپ گروپس سے نکال دیا گیا۔ سلمان اکرم راجہ نے فیصل چودھری کو کھری کھری سناتے ہوئے کہا ہے کہ بانی چیئرمین سے ملاقات کے بعد میڈیا کے سامنے غیر ضروری باتیں نہیں کرنا چاہیے تھیں۔ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق پارٹی کی قانونی ٹیم نے اپنا مرکزی گروپ انتظار پنجوتھہ کی گمشدگی کے بعد ڈی ایکٹو کر دیا تھا۔ فیصل چودھری نے ایڈووکیٹ انتظار پنچوتھہ کے اغوا کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ایڈووکیٹ فیصل چودھری کا اس حوالے سے کہنا ہے مجھے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے سچ بولنے کی سزا ملی ہے، بانی تحریک انصاف اور کارکنان سے جھوٹ نہیں بول سکتا، ڈی چوک پر احتجاج کے دوران اور ویسے جو کچھ ہوا اڈیالہ میں سب بتا دیا، مجھے بانی تحریک انصاف سے سچ بولنے کی سزا ملی ہے باقی کچھ نہیں ۔
مولانا فضل الرحمان نے 27ویں ترمیم آنے پر مزاحمت کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ 27ویں ترمیم آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ انہوں نے انتخابات کا دوبارہ مطالبہ کر دیا۔ اب یہ حکومت کیلئے ایک نئی مشکل پیدا ہوگی۔ وزیراعظم شہباز شریف اور حکومت نے متحدہ سے 26ویں ترمیم پر ووٹ ہی اس یقین دہانی کے بعد حاصل کئے تھے کہ 27ویں ترمیم میں ان کے مطالبے مقامی حکومتوں یا لوکل باڈیز کو مزید خود مختاری دی جائیگی اور اختیار کو نچلی سطح پر منتقل کیا جائے گا۔ مولانا نے حکومت کو مشکلات سے دوچار کرنے اور اتحادیوں سے دور کرنے کیلئے ایک نیا کارڈ کھیلا ہے اب دیکھتے ہیں حکومت اس حوالے سے کیا اقدامات کرتی ہے۔







