26ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کیوں؟

روشن لعل
ن لیگ کی حکومت اور اس کو حمایت فراہم کرنے والی جماعتوں کی گزشتہ دو ماہ سے جاری سرگرمیوں کے نتیجے میں نہ صرف 26ویں آئینی ترمیم منظور ہوئی بلکہ اس منظور شدہ ترمیم کے تحت جسٹس یحییٰ آفریدی کے بحیثیت چیف جسٹس پاکستان تعیناتی کا نوٹیفیکیشن بھی جاری ہوگیا۔ جس 26ویں ترمیم کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی کا نیا طریقہ کار طے ہوا اس ترمیم کو کچھ حلقوں کی طرف سے واشگاف الفاظ میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی ملی بھگت کا نتیجہ قرار دینے کے ساتھ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس ترمیم کا مقصد جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بننے سے روکنا اورملک کے سب سے بڑے عدالتی عہدے پر جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کی راہ ہموار کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اگر26ویں ترمیم منظور ہونے کی بجائے ججوں کی تعیناتی کے لیے متروک ہو چکا آئینی طریقہ کار ہی بحال رہتا تو پھر بھی بشرط زندگی نہ صرف جسٹس یحییٰ آفریدی ہر صورت میں چیف جسٹس پاکستان کے عہدے پر فائز ہوتے بلکہ ریٹائرمنٹ کی 65سالہ حد سے دو برس پہلے ہی ریٹائر ہونے سے بھی محفوظ رہتے۔ ججوں کے تعیناتی کے متروک ہو چکے طریقہ کار کے مطابق جسٹس یحییٰ آفریدی کے لیے دسمبر 2028ء میں چیف جسٹس بن کر جنوری 2030ء تک اس عہدے پر فائز رہنا ممکن تھا جبکہ نئی ترمیم کے تحت وہ تین برس تک چیف جسٹس رہنے کے بعد 26نومبر 2027ء کو ریٹائر ہو جائیں گے۔
جس 26ویں ترمیم کے تحت اب، چیف جسٹس بننے والے جج نے تین برس کے بعد سابقہ طریقہ کار کے مطابق ہر صورت میں چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہونا تھا اس ترمیم کو کچھ حلقے عدلیہ کی آزادی پروار قرار دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ حالیہ ترمیم کی منظوری کے لیے ملک میں پہلے سے موجود روایتوں کے مطابق جس طرح سے جوڑ توڑ ہوتا ہوا نظر آیا اسے کسی طرح بھی اصولی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ موجودہ آئینی ترمیم منظور کروانے کے لیے جو طرز عمل اختیار کیا گیا اسے دیکھتے ہوئے جس طرح یہ بات بلاجھجھک کہی جاسکتی ہے تاریخ کسی صورت بھی 26ویں ترمیم کو 18ویں ترمیم کی طرح معتبر تصور نہیں کرے گی اسی طرح یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ تاریخ میں اس ترمیم کے مقاصد کو آئین میں کروائی گئی 8ویں ترمیم،17ویں ترمیم اور افتخار چودھری کے عدالتی مارشل کے تحت پارلیمنٹ کو یرغمال بنا کر کروائی گئی 19ویں ترمیم سے ہر صورت میں بہتر تصور کیا جائے گا۔ حالیہ آئینی ترمیم کو عدلیہ کی آزادی پر وار قرار دینے اور اس کی منظور ی کے لیے اختیار کیے گئے طریقہ کار پر تحفظات کا اظہار کرنے والے چاہے جیسے بھی فتوے صادر فرمائیں مگر اس ترمیم کے شق وار جائزے سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ افتخار چودھری نے اپنی آمرانہ خواہشوں کی تکمیل کے لیی پارلیمنٹ کو بلیک میل کر کے جو 19ویں ترمیم منظور کروائی تھی، 26ویں ترمیم نے بڑی حد تک اس کی نفی کر دی ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم پر تنقید کرنے والے بہت سے قانون دان یہ فتوے جاری کر رہے ہیں کہ اس ترمیم کی منظوری سے عدلیہ کی آزادی مکمل طور پر سلب کر لی گئی ہے ۔ جب ایسے قانون دانوں سے افتخار چودھری کی خواہشوں کے مطابق آزاد ہونے والی عدلیہ کے سابقہ چیف جسٹس صاحبان کے کردار سے متعلق سوالات کیے جائیں تو ان کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہوتا۔
افتخار چودھری اور ان کے بعد آنے والے مختلف چیف جسٹس صاحبان نے ججوں کی تعیناتی کے معاملے میں اپنی آمرانہ آزادی کا جس طرح استعمال کیا اس کی ایک جھلک یہاں پیش کی جارہی ہے۔ یاد رہے کہ افتخار محمد چودھری نے جب ججوں کی ہائیکورٹ میں تعیناتی اور سپریم کورٹ میں تقرری کے معاملے میں اہلیت اور سینیارٹی کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنی من مانیاں شروع کیں تو سب سے پہلے مرحومہ عاصمہ جہانگیر نے ان کے رویے کو آمرانہ قرار دیا تھا۔ بعد ازاں، دیگر چیف جسٹس صاحبان نے افتخار چودھری کی روایت پر چلتے ہوئے عدلیہ کی آزادی کے نام پر جس طرح اپنی من مانیاں کیں اس کی ایک مثال نامزد جسٹس یحییٰ آفریدی سی بھی جڑی ہوئی ہے۔ جب 19مارچ 2018ء کو جسٹس دوست محمد خان بحیثیت جج سپریم کورٹ ریٹائر ہوئے اس وقت یحییٰ آفریدی پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جبکہ جسٹس منیب اختر سندھ ہائیکورٹ میں ججوں کی سینیارٹی میں چوتھے نمبر پر تھے۔ اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے عدلیہ کی آزادی اور اپنے عہدے کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی یا سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ کی بجائے سندھ ہائیکورٹ کی سینیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر موجود جسٹس منیب اختر کو 8مئی 2018ء کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کو ترجیح دی۔ اس کے بعد جب 7مئی 2018ء کو جسٹس اعجاز افضل خان سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے تو پھر ان کی جگہ چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ یحییٰ آفریدی کو 28جون 2018ء کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا۔ اس وقت کہنے والوں نے یہ کہا تھا کہ پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس پر سندھ ہائیکورٹ کی سینیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر موجود جج کو ترجیح دینے کا اس کے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں کہ جو لابی عدالت عظمیٰ اور عالیہ میں ججوں کی تعیناتی میں کردار ادا کرتی ہے اس نے پہلے سے یہ پلاننگ کی ہوئی تھی کہ سپریم کورٹ میں کس کے بعد کس کو چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہونا چاہیے۔ اس ایک مثال سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جن لابیوں کے لوگ 26ویں آئینی ترمیم کو عدلیہ کی آزادی پروار قرار دے رہے ہیں وہ اصل میں کن مخصوص مقاصد کے تحت پارلیمنٹ کو بے بس اور عدلیہ میں اعلیٰ عہدوں پر براجمان لوگوں کو من چاہی آزادیاں استعمال کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ عدلیہ کی آزادی کے نام پر کسی اصول ضابطے کی بجائے صرف اور صرف صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں تعیناتی کے لیے کسی جونیئر جج کو ترجیح اور کسی سینئر جج کو نظر انداز کرنے کی کئی اور مثالیں بھی پیش کی جاسکتی ہیں لیکن یہاں صرف سندھ ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس احمد علی شیخ کا ذکر کیا جائے گا جنہیں یکے بعد دیگرے پاکستان کے سابق چیف جسٹس صاحبان ثاقب نثار، گلزار احمد اور عمر عطا بندیال نے سینئر ہونے کے باوجود نظر انداز کر کے ان سے جونیئر ججوں کو سپریم کورٹ میں جج تعینات کرنے کو ترجیح دی۔ بعض لوگوں کے مطابق جسٹس احمد علی شیخ کا سندھی ڈومیسائل بھی انہیں مسلسل نظر انداز کیے جانے کی وجہ بنتا رہا۔
26 ویں ترمیم منظور ہو نے کے بعد آئین کا حصہ بن چکی ہے ۔اس ترمیم کو ناپسند کرنے والوں کی کچھ باتیں جائز بھی ہو سکتی ہیں لیکن جو لوگ عدلیہ کی آزادی کا رونا روتے ہوئے اس ترمیم پر تنقید کر رہے ہیں، سابق چیف جسٹس صاحبان کے کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کا رونا دھونا کسی طرح بھی قابل جواز نہیں سمجھا جاسکتا۔





