پی ٹی آئی کا وجود ضروری کیوں

عبدالحنان راجہ
عوام کا حکمران سے خوفزدہ رہنا اس سے محبت کرنے سے بہتر ہے۔ ہر حکمران کو یہ بات پوری طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ عوام کی اکثریت ناشکری ہوتی ہے، دھوکہ باز، جھوٹی اور جھگڑالو۔ میکاولی کا دوسرا مشورہ بھی برصغیر پاک و ہند کے حکمرانوں کے لیے اکسیر کہتے ہیں کہ ’’ حکمران کو اخلاقیات کے چکر میں نہیں پڑنا چاہیے، ایسا کرنا ان کے لیے حماقت ہو گی، اچھائیوں برائیوں کے معیارات وقت کے ساتھ بدلتے رہنے چاہیے‘‘۔ میکاولی کا یہ مشورہ پڑھتے ہوئے مجھے کپتان کی بہت یاد آئی کہ شریف برادران اور پی پی قیادت کو تو چھوڑیئے کہ وہ تو ہیں اسٹیٹس کو کے قائل جبکہ چانکیائی سیاست کا حصہ بھی انہوں نے پایا۔ کہ کتنا عجب کہ نواز شریف وزیر اعظم کے عہدے پر تھے تو پنجاب کے لیے طوطا ہر بار قرعہ شہباز شریف کے نام ہی نکالتا۔ شہباز شریف وزیر اعظم بنے تو پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے لیے ہونہار فرزند حمزہ کا چہرہ آنکھوں کے سامنے رہا حالیہ انتخابات کے بعد قسمت کی دیوی پھر شہباز شریف پر مہربان ہوئی مگر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے محترمہ مریم صفدر ہی موزوں ملیں، مزے کی بات کہ دونوں بڑی جماعتوں نے کبھی اس پر آزردگی کا اظہار بھی نہ کیا، البتہ پی ٹی آئی نے اس اصول کو توڑا کہ بہن یا بیوی کی بجائے نفیس و حلیم طبع اور تعلیم بلکہ اس سے بڑھ کر تہذیب یافتہ بیرسٹر گوہر کو قیادت سونپی۔ البتہ میکاولی کے دوسرے قول پر کپتان خوب عمل پیرا رہے۔ مملکت کے اعلیٰ ترین عہدے داروں کے لیے وقت کے ساتھ ساتھ انکے تبدیل ہوتے خیالات اب ضرب المثل ہیں۔ دوران اقتدار جو خوب تھا اقتدار سے علیحدگی کے بعد ناخوب ہوا، گو کہ دوران اقتدار انکا ہر ہر قول، عمل اور دعوی ریکارڈ کا حصہ مگر مجال کہ کپتان اور انکی جماعت نے کبھی اس پر اظہار ندامت کیا ہو۔ میکاولی کے اس اصول پر عمل پیرا کپتان پر افسوس اس لیے کہ یہ تبدیلی کا استعارہ تھے اور نئی نسل کی امنگوں کے ترجمان۔ سیاسی جدوجہد کے دوران انہوں نے مخالفین کو جس طرح رگیدا وہ ایک الگ باب۔ بالخصوص مولانا فضل الرحمان کو نہ صرف وہ عوامی جلسوں اور تقریروں میں ڈیزل کے لقب سی پکارتے بلکہ بھرے مجمع میں کارکنان سے اس کی تکرار کروا کے محظوظ ہوتے ۔ پھر وقت نے پلٹا کھایا اور پی ٹی آئی جے یو آئی کے سربراہ کے دولت خانے پر سجدہ ریز پائی گئی۔ آئینی ترامیم کے معاملہ پر میدان سے باہر کھڑی پی ٹی آئی کو مولانا نہ صرف میدان میں لائے بلکہ ایک ماہ تک امام و مقتدی کا رشتہ بھی رہا، اس پورے عمل کے دوران پی ٹی آئی کو سمجھنے میں خطا ہوئی جبکہ اول دن سے میں اسے گنڈا پوری گرج چمک قرار دیتا رہا، مگر پی ٹی آئی انہیں اپنے دام میں پھانسنے کی تگ و دو میں اپنے بیانیہ ہی سے تائب ہو گئی۔ گرم و سرد چشیدہ سیاست دان مولانا نے سیاست کی کئی بہاریں دیکھ رکھی ہیں، سو اب انہیں خزاں کا موسم اچھا نہیں لگتا۔ یہ مولانا ہی تھے جو حزب اختلاف میں رہ کر بھی جنرل مشرف کی عنایات سے لطف اندوز ہوتے رہے اور عورت کی حرام حکمرانی میں بھی اقتدار کا مزہ لیتے رہے۔ شریف برادران سے بھی ان کا یارانہ نہ ٹوٹا اور مقتدرہ کے بھی ھم خیال رہے۔ یہ انکی بصیرت ہی تو تھی کہ پی ٹی آئی کو اتنے چکر لگوائے کہ حکومت کو وسوسے آنے لگ پڑے۔ اس دوران وہ نہ صرف سیاسی افق پر چھائے رہے بلکہ کپتان کے بارے میں ایک بار بھی کلمہ خیر کہے بغیر شدید مخالفین سے اپنی تعریفوں کے پل بندھوا کر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا برگیڈ کے لیے مسئلہ بھی کھڑا کر دیا کہ ترمیم کی منظوری کے بعد وہ انہیں کپتان کے پسندیدہ لقب سے نوازیں یا حضرت کے لقب سے موسوم کریں۔ ویسے تو پی ٹی آئی کو مطعون کرنے کی بہت وجوہات رہتی ہیں کہ غیرجانبدار طبقات کو یہ خود ہی اپنے غیرمتوازن رویہ اور انتہا پسندانہ سوچ کی وجہ سے جواز فراہم کرتی ہے مگر 26ویں آئینی ترمیم کے معاملہ پر اس کی قیادت باوجود تحفظات کے مذاکرات اور بات چیت کے عمل میں شریک رہی جو میری نظر میں خوش آئند کہ بعض اوقات ہار کر بھی سرخروئی ملتی ہے اور وہ پی ٹی آئی کو ملی کہ اس نے اپنے مزاج کے برعکس پہلی بار سیاسی پختگی کا مظاہرہ کیا اور گفت و شنید کا راستہ کھلا رکھا۔ کہ پارلیمانی نظام سیاست میں پارلیمنٹ اظہار رائے اور اختلاف کے لیے سب سے موثر پلیٹ فارم۔ میکاولی کے اگلے قول سے اتفاق ضروری بلکہ مجبوری کہ انکا یہ قول عوامی نفسیات کی خوب عکاسی بھی کرتا ہے کہ ’’ عقل مند حکمران کو کبھی ایسے وقت میں وعدے ایفا نہیں کرنے چاہیے کہ جب ایسا کرنا مفاد کے خلاف ہو، گرچہ یہ بری بات ہے مگر اس صورت میں کہ اگر لوگ بھی اچھے اوصاف و کردار کے حامل ہوں، مگر جب لوگوں کی اکثریت مکار، دغاباز اور منافقانہ طرز پر ہو تو اخلاقیات کا بار اکیلے حکمران پر نہیں‘‘۔ آپ اور ھم اگر ظالم، بددیانت، بدکردار اور مفاد پرست حکمرانوں کا رونا روتے ہیں تو کسی وقت گوشہ تنہائی میں ہمیں بھی اپنے ضمیر کی عدالت میں پیش ہونا چاہیے، کہ اگر ضمیر زندہ ہوا تو پھر مسلم لیگ ن ہو پی پی پی ہو پی ٹی آئی یا اس قبیل کی دیگر سیاسی جماعتیں سبھی ایک قطار میں نظر آئیں گی کہ یہ سمجھنے کے بعد کارکنان مفت میں ایک دوسرے پر الزامات اور گالم گلوچ سے اپنا وقت اور کردار دائو پر نہیں لگائیں گے، افسوس یہ کہ اب اس کی قیادت سیاسی و قومی مفادات کے برعکس اپنی مقبولیت اور کارکنان کی مخلصیت کا لانگ مارچ تو کبھی پر تشدد احتجاج کی صورت میں امتحان لے رہی ہے۔ اس سے قبل کہ جذباتی سپورٹرز اور بیرون ملک بیٹھ کر سوشل میڈیا کے ذریعے کپتان کے سپورٹرز کے جذبات سے کھیلنے والے ’ منزل نہیں راہنما چاہیے‘ کا نعرہ لگا دیں پارٹی کو سیاسی بصیرت کی حامل شخصیت اور قائدانہ صلاحیتیں رکھنے والے راہنما کی ضرورت ہے کہ اس کی مقبولیت کو مثبت ذہن سازی کے ذریعے ملک و قوم کے مفاد میں بروئے کار لایا جا سکے۔ کہ اب شاید زیادہ دیر پاکستان تحریک انصاف بانی قائد کی شہرت و مقبولیت کا مزید بوجھ نہ اٹھا سکے۔ گرچہ پی ٹی آئی اپنے انتہا پسند مزاج کے باعث معتدل، سیاسی رواداری کے قائل افراد کے ہاں معتبر نہیں، مگر اس کے باوجود میری دانست میں روایتی اور موروثی سیاست کی حامل جماعتوں کو راہ راست پر رکھنے کے لیے پی ٹی آئی کا سیاسی وجود ضروری ہے۔





