حسد کی تباہ کاریاں

تحریر:یاسر دانیال صابری
آج ہم اخلاقیات سے دور ہوتے جا رہے ہیں جب کہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اخلاقیات ہی سے قومیں بنتی اور بگڑتی ہے۔ افسوس! آج ہمارے سماج میں اخلاقی اقدار کا فقدان نظر آتا ہے، ہمدردی اخوت و محبت کا پیارا درس تہذیب و ثقافت دیگر اقدار آج ہم نے فراموش کر دیا اور جھوٹ، غیبت، عداوت، بغض و عناد، حسد اور کینہ جیسی دلی بیماریوں مبتلا ہیں، یہ وہ بیماریاں ہیں جن کی وجہ سے آج ہمارے معاشرہ میں آپسی قربتیں فوت ہو چکیں، محبتیں دفن ہو چکیں اور دوریاں مقدر ہوتی جا رہی ہیں۔ ہم کس دور میں پھنس گئے ہیں
جس معاشرے میں حسد و کینہ عام ہو جائے وہاں کبھی امن و سکون نہیں ہو سکتا، بد امنی اور اضطرابی اس معاشرے کا مقدر بن جایا کرتی ہے۔ جس طرح انسان کے جسم کو بیماری لاحق ہوتی ہے بالکل اسی طرح انسان کی روح بھی بیمار ہوتی ہے اور حسد انہی بیماریوں میں سے ایک مہلک بیماری ہے، یہ وہ مہلک بیماری ہے جو روح کو بے چین، دل مجروح، ذہن کو مضطرب اور منتشر کر دیتا ہے۔ جس سے انسان زوال کی طرف راغب ہوتا ہے۔
گویا کہ حاسد اپنی ہی جلائی ہوئی آگ میں جلتا رہتا ہے۔ حسد یقینا ایک مہلک مرض اور بڑا گناہ ہے اسی لیے مذہب اسلام حسد کی تباہ کاریوں کو بیان کرتا ہے اور اخوّت و محبت کا درس دیتا ہے تاکہ معاشرہ فتنہ و فساد اور اختلاف و انتشار کا شکار نہ ہو اور امن و شانتی کا گہوارہ بن سکے۔
جس شخص کے پاس نعمت ہو، اس کی نعمت پر ناخوشی کا اظہار اور اس کی نعمت کے زوال کی خواہش کرنے کو حسد کہتے ہے۔
حسد نیکیوں کو اسی طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ سکھی لکڑی کو فوری طور پرجلا کر راکھ کر دیتی ہے، اب ہم آجائیں قرآن کی سورت سورۃ فلق پر، اللہ تعالی فرماتے ہیں، ترجمہ: ’’ اور میں پناہ مانگتا ہوں حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرنے لگے‘‘۔
حسد کا سب سے بڑا نقصان یہی ہے کہ حاسد انسان اللہ سے بدگمان ہوجاتا ہے اس کی سوچ غلط رخ پر کام کرنے لگتی ہے اور اس کے قول و عمل اور شب و روز کی سرگرمیوں سے خدا کے بارے میں بدگمانی اور ناانصافی کا اظہار ہونے لگتا ہے۔ جس سے انصاف کے تقاضے ختم ہوتے ہیں۔
حسد کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہے کے ایسا شخص تعمیری ذہن و فکر اور اصلاح و فلاح کی کاوش سے محروم ہوجاتا ہے وہ اپنی زندگی کو بنانے مستقبل کو سنوارنے اور صلاح و سدھار کے کام کرنے کے بجائے ہر وقت اضطراب اور بے چینی میں مبتلا رہتا ہے کہ جن کو خدا نے اپنی نعمتوں سے نوازاہے ان کی شخصیت کو مجروح کرے، ان کو نقصان پہنچائے اور ان کی تذلیل کرے اور ان کی اذیت و تکلیف رسانی کا سامان کرے۔ اسی لیے اللہ نے قرآن میں یہ تعلیم دی کے حاسد کے شر سے انسان اللہ سے پناہ مانگے۔ اور اس ایمانی شعور کے ساتھ یہ الفاظ ادا کرے کہ میں جس کی پناہ مانگ رہا ہوں وہ سب پر غالب ہے۔ اس کی قدرت و اقتدار سب پر حاوی ہے۔ اس شر کا بھی وہی خالق ہے اور کوئی چیز اس کی قدرت اور علم کے دائرے سے باہر نہیں ہے۔ اور حاسد کو چاہیے کے وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ سوچے کے جس رب نے فرشتوں اور جنوں کے سامنے انسان کو اہمیت دی اور اشرف المخلوقات کا درجہ دیا اسے ایسا کوئی بھی کام نہیں کرنا چاہیے جس سے اللہ کے ہاں اس کی عزت گھٹتی ہوئی محسوس ہو۔
حسد نفرت کی آگ میں جلاتا ہے۔ حسد کئی نفسیاتی امراض کا باعث ہے جیسے غصہ، ڈپریشن، احساس کمتری، چڑچڑا پن وغیرہ، حسد دشمنی اور دشمنی فساد کی جانب لے جاسکتی ہے جس سے گھر اور معاشرے میں فساد پھیل سکتا ہے۔ حسد دیگر اخلاقی گناہوں کا سبب بنتا ہے جن میں غیبت، بہتان، تجسس اور جھوٹ شامل ہیں۔ حسد آخرت میں اللہ کی ناراضی کا موجب ہے۔ محرومی یا احساسِ کمتری،خدا کے فلسفہ آزمائش سے لا علمی،نفرت و کینہ، غرورو تکبر ،منفی سوچ،دیگر اسباب میں اس کا علاج یہ ہے کہ حتی الامکان ان لوگوں کے بارے میں سوچنے سے گریز کریں جو آپ سے کسی معاملے میں بہتر پوزیشن میں ہیں اور اگر کوئی خیال آجائے تو اپنے سے نیچے کے لوگوں پر تفکر کریں ۔ نیچے والوں پر غور کرنے کا مطلب یہ نہیں مال و دولت کے لحاظ سے ہی موازنہ کیا جائے
حسد کی تباہ کاریوں سے بچنے کا بہترین علاج یہی ہے کہ جس سے ہمیں کسی قسم کی تکلیف پہنچی ہو یا جسے ہم کسی وجہ سے ناپسند کرتے ہوں اور اس کی فلاح و کامیابی ہمیں ایک آنکھ نہ بھاتی ہو، ہم اپنے آپ کو اس سے راضی کریں۔ اس کی ترقی، درجات سے خوش ہونے کی عادت ڈالیں۔ اس کی عزت و شہرت سے تنگی و کوفت محسوس کرنے کی بہ جائے دل سے مسرت وشادمانی کا اظہار کریں۔ اگر ممکن ہوتو اس کی عزت و شہرت میں کچھ نہ کچھ اضافے کی کوشش کریں۔ جس محفل و مجلس میں اس کا تذکرہ ہورہا ہو، اس میں خوش اسلوبی سے حصہ لیں اور اس کی اچھائیاں بیان کریں۔ حسب موقع اس کی دعوت کریں اور تحائف کا اہتمام کریں اور اس کے دکھ درد اور خوشی و مسرت میں شریک ہوں۔ یہ علاج ہے تو تلخ مگر اس میں نہایت موثر و مفید شفا پوشیدہ ہے۔ اگر یہ طریقہ علاج ہم نے اختیار کرلیا تو اس میں ہمارے لیے غیر معمولی سکون و راحت کا سامان ہے۔





